تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     24-06-2018

ہم چاہتے کیا ہیں؟

پاکستان میں بیک وقت کئی ٹرینڈ چل رہے ہیں۔ انٹرنیٹ‘ سوشل میڈیا اور چینلوں کی بھرمار سے لگتا ہے ہماری دنیا بدل رہی ہے۔ اتنی انفارمیشن آرہی ہے کہ ہم خود کنفیوز ہو کر رہ گئے ہیں کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں۔ صبح اٹھیں تو لگتا ہے کہ پاکستان بدل رہا ہے۔ ہر کوئی تبدیلی چاہتا ہے‘ پاکستان کو بہتر دیکھنا چاہتا ہے‘ اب یہاں کرپٹ کی جگہ نہیں ہوگی‘ پڑھے لکھے نوجوان دنیا بدل کر رکھ دیں گے‘ پرانا زمانہ لد گیا‘ نہ وہ خود غلط کام کریں گے اور نہ ہی لیڈروں کو کرنے دیں گے۔ دوپہر تک معلوم ہوتا ہے نہیں مجھے غلط فہمی ہوئی‘ وہی نوجوان جن طبقات کے خلاف بغاوت کرنے نکلے تھے اب اسی کرپٹ ایلیٹ کا زمینی حقائق کے نام پر دفاع کررہے ہیں۔ جب تک شام ہوتی ہے تو میں یہ سن اور پڑھ کر سوتا ہوں کہ ہم سب پرانی تنخواہ پر ہی کام کرتے رہیں گے۔ ہم نہیں بدلیں گے۔ 
اگلی صبح اٹھتا ہوں تو لگتا ہے‘ نہیں کل مجھے غلط فہمی ہوئی‘ بیداری کی لہر چل پڑی ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں لغاری سرداروں تک کو عام لوگوں نے سنانا شروع کردی ہیں‘ مزاری کو بھی غصیلے نوجوانوں کا سامنا کرنا پڑگیا‘ آصف زرداری بھی ووٹ مانگنے گئے تو ان پر چڑھائی ہوگئی۔ کچھ ڈھارس سی بندھنے لگتی ہے کہ شاید جمہوریت کی وجہ سے لوگ اب بولنے کی طاقت رکھتے ہیں‘ رہی سہی کسرسوشل میڈیا نے پوری کردی ہے‘ لوگوں کو نئی زبان مل گئی ہے‘ یہ اور بات کہ مہذب انداز میں بات کیسے کرنی ہے، یہ سیکھنے میں ابھی صدیاں درکار ہیں۔
تو ہم کیا سمجھیں کہ جمہوریت مضبوط ہورہی ہے یا کمزور؟ اگر لوگوں کا ردعمل دیکھیں کہ وہ کیسے سرداروں کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں تو لگتا ہے کہ جمہوریت کا مضبوطی کی طرف سفر جاری ہے۔ لوگ اب سوال کرتے ہیں‘ آپ سے الجھتے ہیں‘ وہ پانچ سال آپ سے ڈرتے رہے‘ آپ کے پاس پولیس کی طاقت تھی اور آپ انہیں چھتر مرواسکتے تھے‘ اب اگلے تیس دن تک انہیں کوئی ڈر نہیں کیونکہ الیکشن ہونے تک آزادی ہے‘ لہٰذا کچھ سر پھرے ان تیس دنوں کی آزادی کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ یہ سردار‘ وڈیرے اور وزیر بھی سب سمجھتے ہیں کہ چند دنوں کی بات ہے‘ کیا فرق پڑتا ہے‘ ان کی بات سن لیتے ہیں‘ ان کا غصہ برداشت کرلیتے ہیں‘ بعد میں نمٹ لیں گے۔ اس لیے جب یہ لوگ پانچ سال بعد اپنے علاقے میں بغاوت کی لہر ابھرتے دیکھتے ہیں تو یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ اس دفعہ ہوا کس پارٹی کی چل رہی ہے‘ اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ کس کے کندھوں پر ہے۔ انہیں پتہ ہے اگر انہوں نے پہلے جا کر اس پارٹی کی ٹکٹ نہ لی تو ان کا مخالف لے اڑے گا اور پھر علاقے کی نمبرداری کسی اور کو مل جائے گی۔ یوں پانچ سال بعد بھی یہ لوگ فائدے میں ہی رہتے ہیں۔
تیس مئی تک یہ سب وزیر تھے‘ لیکن یکم جون کو نئی پارٹی جوائن کرلی۔ ان سب کو پتہ ہے کہ انہوں نے چڑھتے سورج کے ساتھ ابھرنا ہے۔ وہ غروب ہوتے سورج کے ساتھ کہیں دور غرق ہونا افورڈ نہیں کرسکتے۔ سکندر بوسن کے علاقے کے وہی نوجوان جو پانچ سال تک انہیں بھگتتے رہے اور انتظار کرتے رہے کہ کسی دن وہ یعنی بوسن بھی جمال لغاری کی طرح حلقے میں آئے گا تو وہ اسے اس طرح سنائیں گے۔ مگر انہیں پتہ چلا کہ نہیں جناب وہ تو اب ان کی پسندیدہ پارٹی سے ایم این اے کا امیدوار ہے اور اب انہیں اس کے گیت گانے ہیں۔ یوں جب ہم سب تیار ہونے لگتے ہیں کہ اس دفعہ دنیا بدل جائے گی‘ وہ لوگ پارٹیاں بدل لیتے ہیں اور سب انقلاب وہیں رہ جاتا ہے۔
اب ایک نیا کام شروع ہوگیا ہے کہ جنہوں نے الیکشن لڑنا ہے ان کی جائیدادوں کی تفصیلات سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔ لوگوں کو یقین نہیں آرہا کہ ان سیاستدانوں کے پاس اتنی دولت ہوسکتی ہے۔ بہت سے لوگوں نے جس طرح اپنی دولت چھپائی وہ اپنی جگہ شاہکار ہے۔ علیم خان فرماتے ہیں کہ وہ تو ایک ارب روپے کے مقروض ہیں۔ وہی علیم خان جن کی جائیدادیں پاکستان سے لندن تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ بڑے بڑے سیاسی لیڈر فرماتے ہیںکہ ان کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہے۔ وہ سب 'کھوتے ریڑھی‘ پر سفر کرتے ہیں‘ شاید۔ 
یہ وہ کام ہیں جو دن دہاڑے ہورہے ہیں۔ مجھے کسی خاتون نے میسج کیا‘ فرمانے لگیں: آپ الیکشن تک چار کے بجائے سات دن ٹی وی شو کریں‘ اتنے موضوعات ہیں۔ میں نے کہا: کیا بولوں یا کیا لکھوں؟ فرمانے لگیں : عوام میں ان لیڈروں کے بارے شعور پیدا کریں‘ان کے گوشواروں کے بارے بتائیں کہ کیسے جھوٹ بول رہے ہیں‘ کیسے ان سب نے لوٹ مار کی ہے۔ ان کی جائیدادیں دیکھیں اور انکم ٹیکس دیکھیں‘ اور کیسے انہوں نے جائیدادوں کی قیمتیں کم رکھی ہوئی ہیں۔میں نے بیزاری سے پوچھا کہ پھر کیا ہوگا؟ وہ کہنے لگیں: پھر یہ پڑھے لکھے لوگ کم ازکم ان لوگوں کو ووٹ نہیں دیں گے؟ شعور آئے گا ۔ میں نے کہا: آپ کو شدید غلط فہمی ہے۔ آپ کو پتہ ہے کہ جو لوگ فیس بک‘ ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں وہ اردو یا انگریزی لکھ پڑھ سکتے ہوں‘ انہیں جدید علم سے کچھ آگاہی ہوتی ہے۔ میں پانچ سال سے ان سب سے ٹوئٹر یا فیس بک کے ذریعے رابطے میں ہوں۔ یہ سب دوست پانچ سال تک میری طرح آئیڈیلزم کی بیماری کا شکار رہے‘ پاکستان میں ایک اچھے معاشرے کے خواب دیکھتے رہے‘ اپنی کرپٹ ایلیٹ سے نفرت کرتے رہے‘ جیسے اچھے ملکوں میں ہوتا ہے۔ اب الیکشن قریب آتے ہیں ان کی اکثریت اچانک زمینی حقائق کی گرویدہ ہوگئی ہے۔ وہی سیاسی کلاس جس کے خلاف یہ سب پوسٹ لگاتے تھے۔ میں نے مزید کہا: پانچ سال تک سیاسی رومانس کے بعد جب اس خواب کو حقیت میں بدلنے کا وقت آتا ہے تو ہم زمینی حقائق کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔اب میں چار دن کی بجائے سات دن مغز ماری کروں‘ہزاروں دستاویزات کھنگالوں‘ نئے نئے دشمن بنائوں‘ اور آگے سے جواب ملے چھوڑیں رئوف صاحب آپ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ آپ تو کسی کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ یہی دیکھ لیں‘ آج کل روزانہ مجھے فیس بک‘ ٹوئٹر‘ واٹس ایپ پر ایک ہی خبر ٹیگ کی جاتی ہے کہ کینیڈا کے وزیراعظم پر سو ڈالرز کا جرمانہ ہوگیا کیونکہ اس نے تحفے میں ملنے والا ایک سن گلاسز جس کی قیمت چند ڈالر ہوگی‘ ڈکلیئر نہیں کیا تھا۔ اس پر ایک قیامت سوشل میڈیا پر مچ گئی ہے۔ کہا گیا کہ جناب یہ ہوتے ہیں ملک‘ معاشرے‘ یہ ہوتی ہے جمہوریت اور یہ ہوتے ہیں لیڈر اور ادارے۔ اب اگر اس سٹوری کو لے کر میں پروگرام کروں یا کالم لکھوں کہ ہمارے ہاں تو بڑے بڑے لیڈر قومی اسمبلی میں جائے بغیر لاکھوں روپے تنخواہ لیتے ہیں ‘ جعلی حاضریاں لگا کر لاکھوں روپے کا سیشن الاؤنس کھا جاتے ہیں‘ تو سب ناراض ہوجاتے ہیں۔
جب ہم ایسا شفاف سسٹم یا کینیڈا جیسے وزیراعظم چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ نہیں جناب آپ خوابوں کی دنیا سے باہر نکلیں یہ پاکستان ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر آپ پاکستان میں علیم خان اور انجم عقیل خان جیسے پراپرٹی ڈیلرز‘ جن پر درجنوں مقدمات ہیں‘ کو ہی اپنا لیڈر مانتے ہیں یا جنہیں آپ کرپٹ سمجھ کر پانچ سال ان کے خلاف ٹوئٹر یا فیس بک پر لکھتے‘ بولتے رہے‘ لیکن آج آپ ان کا ڈھول بجاتے ہیں کیونکہ وہ آپ کی پسندیدہ پارٹی میں آگئے ہیں‘ تو مجھے سمجھایا جائے کہ کینیڈا کے وزیراعظم پر ہونے والے ایک سو ڈالر جرمانے کی مثالیں دینے کی کیا تک بنتی ہے؟ 
آپ پہلے خود فیصلہ کرلیں کہ آپ نے آئیڈیلز م کے لیے لڑنا ہے‘ برائی کے خلاف لڑنا ہے‘ چاہے آپ ہار ہی کیوں نہ جائیں‘ یا آپ نے برسوں سے مسلط کرپٹ ایلیٹ کا دفاع زمینی حقائق کے نام پر کرنا ہے‘ جو ہر پانچ سال بعد اپنا سردار بدل لیتے ہیں؟ جب تک فیصلہ نہ ہوجائے مجھے مہذب ملکوں کی یہ خبریں ٹیگ نہ کیا کریں۔ یہ منافقت بند کریں۔ سارا سال مغربی لیڈروں کے کردار اور جمہوری اقدار کی شاندار مثالیں ٹوئٹ اور ٹیگ کرنے والے یہ سب پاکستانی‘ اپنے ملک میں وہی اہم وقت آنے پر‘ جب وہ اس کرپٹ ایلیٹ کو سیاسی طور پر غرق کر سکتے ہیں، الٹا زمینی حقائق کا ڈھول بجانا شروع کر دیتے ہیں۔
جب قیام کا وقت آتا ہے تو یہ قوم اور نونہال دھڑام سے سجدے میں جاگرتے ہیں ۔ اپنے ضمیر کی خلش مٹانے کے لیے الٹا ان لوگوں کو برا بھلا کہتے ہیںجنہوں نے ابھی کرپٹ سیاسی ایلیٹ کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے! 
آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved