1980ء کی دہائی سے امریکی صدر رونلڈ ریگن اور برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کی وضع کردہ نیو لبرل معاشی پالیسیوں کو پوری دنیا میں پورے زور و شور سے لاگو کیا جا رہا ہے۔ 'ریگنامکس‘ یا 'تھیچرازم‘ کے نام سے مشہور اس بدنامِ زمانہ پالیسی کا مقصد پوری دنیا میں محنت کش طبقات پر حملہ آور ہونا ہے۔ اس کے بنیادی نکات میں نجکاری، ری سٹرکچرنگ، ڈائون سائزنگ اور لبرلائزیشن شامل ہیں۔ ان معاشی حملوں کا سب سے بڑا ہدف ریاستی ملکیت میں موجود صنعتوں کے مزدور ہیں‘ چاہے وہ ریاست کوئی بھی ہو۔ تاہم اس کا حقیقی مقصد سرمایہ داروں اور کارپوریٹ سیکٹر کے گرتے ہوئے شرح منافع میں اضافہ کرنا ہے۔ اس پالیسی کے تحت ریاستی ملکیت میں موجود صحت، تعلیم، خدمات اور انفراسٹرکچر کو نجی شعبے کے حوالے کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی یکے بعد دیگرے برسرِ اقتدار آنے والی فوجی اور سویلین حکومتیں سامراجی آقائوں اور عالمی مالیاتی اداروں کے ان نسخوں پر شدت سے عمل کرتی رہی ہیں ۔ موجودہ سماجی اور سیاسی صورتحال میں کارپوریٹ میڈیا، حکمران طبقات کے سیاستدان اور ریاستی اشرافیہ‘ سبھی پورے زور و شور سے یہ پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ ریاستی ملکیت میں موجود اداروں کے خسارے اور بری کارکردگی کے ذمہ دار مزدور ہی ہیں‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ پی آئی اے، کراچی سٹیل ملز، واپڈا، او جی ڈی سی ایل، پاکستان ریلوے اور دیگر ادارے سرمایہ دارانہ زوال پذیری اور بیوروکریسی کی بدعنوانی کی وجہ سے خسارے میں ہیں۔ بد عنوان اور نا اہل انتظامیہ کی بد انتظامی کے باوجود یہ مزدور ہی ہیں جن کی وجہ سے یہ ادارے ابھی تک چل رہے ہیں۔ حکومتیں ان اداروں کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتی ہیں جس سے خسارہ مزید بڑھ رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ معاشی ماہرین اور پیٹی بورژوا دانشور منافع کی ہوس میں ان اداروں کو بیچنے کے چکروں میں ہیں۔
پی آئی اے کے ملازمین کے خلاف تمام تر بے بنیاد الزامات، جھوٹ اور بہتان تراشیوں کے باوجود یہ ملازمین ہی ہیں جو تمام تر مشکل حالات، کم مراعات اور کم تنخواہ پرکام کر رہے ہیں۔ سخت حالات اور طویل اوقات کار کے باوجود ان کی اکثریت محنت سے کام کر رہی ہے۔ وہ ایماندار اور مہربان بھی ہیں۔ ایسے کئی واقعات ہیں جو ان ملازمین کی عظمت اور کام کے ساتھ ان کے خلوص کی عکاسی کرتے ہیں۔ پچھلے ہفتے 16 جون کو عید کے موقع پر ایک دوست پی آئی اے کی فلائٹ PK-758 کے ذریعے لندن سے لاہور آ رہا تھا۔ لاہور پہنچنے پر شاید طویل سفر کی تھکان یا یادداشت کی کمزوری کی وجہ سے وہ اپنا آئی فون، عینک اور سفری ضروریات کی دوسری چیزیں اپنی سیٹ پر چھوڑ کر طیارے سے اتر گیا۔ جیسے ہی عملے کو یہ سامان ملا تو انہوں نے مسافروں کی فہرست سے اس کا نام ڈھونڈا اور فوراً اسے تلاش کر کے سامان اس تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔ فلائٹ کی خاتون ہیڈ نے ایک فلائٹ سٹیورڈ سے کہا کہ وہ بیگیج کلیم ایریا میں بندے کو تلاش کرے۔ سٹیورڈ نے کنویئر بیلٹ کے پاس شدید رش میں بالآخر اس مسافر کو ڈھونڈ کر اس کا سامان اسے پہنچا دیا۔ پرواز میں موجود ایئرہوسٹس اور فلائٹ سٹیورڈز نے فیصلہ کیا تھا کہ سکیورٹی اہلکاروں تک پہنچنے سے پہلے ہی مسافر کو اس کا سامان پہنچا دیا جائے کیونکہ اس کے بعد افسر شاہانہ رکاوٹوں کی وجہ سے اسے سامان ڈھونڈنے میں شاید ہفتوں لگتے۔ ان کے اس عمل سے مسافر کو اس تکلیف سے بچا لیا گیا۔ پی آئی اے کی سٹاف کا یہ جرأت مندانہ فیصلہ ان ملازمین کے شفیق پہلوئوں کو اجاگر کرتا ہے کہ وہ مسافروں کے لیے کس حد تک مخلص ہیں۔ یہ عمر قریشی کے تخلیق کردہ پی آئی اے کے اس پرانے نعرے ''Great People to Fly With‘‘ کی جھلک دکھاتا ہے۔ جیکلن کینیڈی نے 1962ء میں پی آئی اے سفر کیا تو اس نے بھی ایک پائلٹ کو گلے لگا کر یہی بات کہی تھی ''Great People to Fly With‘‘۔ جس اذیت سے اس دوست کو بچا لیا گیا اگر وہ کسی خلیجی ایئرلائن یا کسی اور نجی کمپنی میں سفر کر رہا ہوتا تو یہ کام ممکن ہی نہ تھا۔ ریاستی ملکیت کی کمپنی ہونے کی وجہ سے ملازمین میں وہ اعتماد آتا ہے کہ وہ اس طرح کا غیر معمولی قدم اٹھا کر مسافر کو تکلیف سے بچائیں۔
مختلف حکومتوں کی جانب سے پی آئی اے کو پرائیویٹائز کرنے کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں۔ پاکستان کی بوسیدہ سرمایہ داری اتنی تباہ حال ہے کہ اس کا بدعنوان سرمایہ دار طبقہ طویل مدتی سرمایہ کاری، جس میں منافع کے لیے زیادہ وقت لگتا ہے،کے لیے تیار نہیں اور مالی طور پر اتنا کمزور ہے کہ اتنے بڑے اداروں کو خریدنے کے اہل ہی نہیں۔ لیکن ان اداروں کے محنت کشوں کی ایسے حملوں کے خلاف مزاحمت اور لڑائی وہ فیصلہ کن چیز ہے جس نے بورژوا حکومتوں کو مکمل نجکاری سے روک رکھا ہے۔ محنت کش ان تمام اداروں میں ری سٹرکچرنگ، کنٹریکٹ لیبر اور مستقل ملازمتوں کے خاتمہ خلاف لڑ رہے ہیں۔
سماج میں ایک نسبتی جمود اور عوامی تحریک کے نہ ہونے کے باوجود پچھلی کئی دہائیوں سے ایک طویل اور انتھک جدوجہد جاری ہے۔ وقفے وقفے سے واپڈا کے مزدوروں کے ہونے والے احتجاجی مظاہرے پاکستان کی مزدور تحریک کی ایک مستقل شناخت بن چکے ہیں۔ او جی ڈی سی ایل کے مزدوروں کے جارحانہ احتجاجی مظاہروں نے حکمرانوں کو اس کی نجکاری روکنے پر مجبور کر دیا۔ ریلوے مزدوروں نے متعدد لڑائیاں لڑی ہیں اور حقیقی یونین کے کچلنے اور پاکٹ یونین کے لیڈروں کی مداخلت کے باوجود نجکاری کے خلاف مزاحمت کو توڑا نہیں جا سکا۔ سٹیل کے مزدوروں کی بے شمار مزاحمتیں رہی ہیں حتیٰ کہ انہوں نے رکی ہوئی تنخواہوں اور نجکاری کے خلاف اسلام آباد تک سفر کیا۔ پی ٹی سی ایل کے مزدوروں کی نجکاری کے خلاف جدوجہد کو ان کی ہی یونین، جو نام نہاد 'روایتی پارٹی‘ کے ساتھ جڑی ہوئی تھی، کے لیڈروں نے سبوتاژ کیا۔ اسی طرح ملک کے بڑے شہروں میں تعلیم اور صحت کے شعبے سے وابستہ محنت کشوں کی جدوجہد رہی ہے اور نرسوں اور اساتذہ نے جارحانہ ہڑتالیں کیں۔ پی آئی اے کے محنت کشوں کی 2016ء کی ہڑتال کئی حوالوں سے تاریخی تھی۔ ایئرپورٹس کو بند کر دیا گیا، خدمات روک لی گئیں، پی آئی اے کی تمام جہازوں کو گرائونڈ کر لیا گیا اور پورے ملک میں پی آئی اے کے مزدوروں کے احتجاج پھوٹ پڑے۔ اس ہڑتال نے سماج کی نچلی پرتوں میں دہکتی ہوئی طبقاتی جدوجہد کی ایک جھلک دکھائی۔
موجودہ صورتحال میں محنت کشوںکے مطالبات اور مفادات تمام تر سیاسی پارٹیوں کے پروگراموں اور الیکشن مہم میں ناپید ہیں۔ آنے والی کوئی بھی حکومت دھنوانوں کے مفادات کی ہی خدمت کرے گی۔ سرمائے کی اس سیاسی آمریت میں مزدوروں اور غریبوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ کسی بھی نام سے بننے والی نئی حکومت ناگزیر طور پر استحصالی طبقات کے مفادات کے لیے مزدوروں پر معاشی حملے کرے گی۔ انتخابی سیاسی میدان میں طبقاتی جدوجہد کا راستہ بند ہونے کے بعد ناگزیر طور پر طبقاتی جدوجہد کا راستہ سماجی اور صنعتی میدان میں کھلے گا۔ پھر روزِ حساب ہو گا۔ کارپوریٹ میڈیا نے محنت کشوں اور طبقاتی جدوجہد کا مذاق اڑایا ہے اور اسے مسترد کر دیا ہے۔ لیکن جلد یا بدیر حکمران طبقات اور ان کی ریاست کے مظالم اور جرائم کے خلاف ایک دھماکے دار انتقام کے ساتھ تحریک ابھرے گی۔
ایک جنگجو مزدور تحریک کا احیا ایک عام ہڑتال کی طرف جا سکتا ہے۔ لیکن ایک فتح مند عام ہڑتال کے لیے لازم ہے کہ تمام تر صنعتوں اور خدمات کے اداروں کے مزدوروں، طلبا اور غریب کسانوں کو متحرک کیا جائے۔ ریاستی ملکیت کے حامل اداروں کا نہ صرف دفاع کیا جانا چاہیے بلکہ مزدوروں کو یہ مطالبہ بھی کرنا چاہیے کہ انہیں مزدوروں کے جمہوری کنٹرول اور انتظام میں لایا جائے۔ ان کی کامیابی کی واحد ضمانت مالیات اور معیشت کی مکمل نیشنلائزیشن اور سرمایہ داری کا خاتمہ ہے۔
سماج میں موجود نسبتی جمود زیادہ عرصہ نہیں چل سکتا۔ محنت کشوں کا ہڑتالی اقدام جہازوں اور ٹرینوں کو روک سکتا ہے، بجلی بند کر سکتا ہے، کمیونیکیشن نیٹ ورک بند کر کے ریاست کو مفلوج کر سکتا ہے اور صنعتوں اور اداروں کا پہیہ جام کر کے پورے سماج کو جام کر سکتا ہے۔ اس تحریک کو ایک ایسی انقلابی قیادت کی ضرورت ہو گی جو آخر تک لڑ کر پورے نظام اور سماج کو تبدیل کر دے۔