ہمارے ہاں طویل نظم کا اب رواج نہیں رہا، اس لیے ماضی قریب تک میں کوئی مثنوی وغیرہ تخلیق نہیں کی گئی۔ آخری طویل نظم جو بے حد مقبول ہوئی اور طوالت کے باوجود بعض لوگوں کو زبانی یاد بھی تھی۔ وہ علامہ اقبالؔ کی شکوہ جوابِ شکوہ تھی۔طویل مختصر نظمیں البتہ ضرور لکھی گئی ہیں۔ طویل نظم کی گنجائش شاید اب اس لیے بھی نہیں ہے کہ لوگوں کے پاس شعر و ادب کے لیے اب وقت ہی نہیں رہا ہے اور قاری کا رجحان اختصار کی طرف بڑھ رہا ہے۔ غزل کی مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا شعر جو بجائے خود دو مصرعوں کی نظم ہوتا ہے ‘اپنے اختصارو اعجاز کی وجہ سے ابھی تک زندہ چلی آ رہی ہے‘ جبکہ مختصر نظم اپنے اختصار کی بناء پر بھی مقبول ہے‘ جس ضمن میں علی محمد فرشی کی مختصر نظموں کا حوالہ اکثر دیا جاتا ہے؛ چنانچہ جو فرق مینی ایچر اور میورل میں ہے‘ وہی مختصر اور طویل نظم میں بھی ہے۔ اور یہ شاعر کے وفور اور ہمت پر منحصر ہے کہ وہ طویل نظم پر ہاتھ ڈال سکے‘ نیز شاعر کے ذہن و دل میں جو حشر بپا ہوتا ہے‘ وہی طویل نظم کا جواز بھی بنتا ہے۔
یہ کتاب رومیل ہائوس آف پبلی کیشنز ‘راولپنڈی نے چھاپی ہے ‘جس کا گٹ اپ بطور خاص عمدہ ہے اور اس کی قیمت 180 روپے رکھی گئی ہے۔ سر ورق منظر رقم اور محمد مختار علی کے موقلم کا نتیجہ ہے‘ جبکہ تزئین قمر الزمان کی ہے۔ انتساب استاد گرامی ڈاکٹر احسان اکبر اور منظر نقوی کے نام ہے۔ پس سرور ق شاعر کی دیگر مطبوعات کی تفصیل ہے اور تصویر۔ کتاب کا دیباچہ ممتاز ادیب یوسف حسن کا تحریر کردہ ہے‘ جس میں وہ لکھتے ہیں: ''نظم کا موضوع فطری ماحول میں نوعِ انسانی کی اپنی بقا اور نشوونما کے لیے سماجی جدوجہد ہے اور اس نشوونما کے انسانیت نواز امکانات کو حقیقت پذیر کرنے کی فکری و عملی مسائل کی ترجمانی مختلف کینٹوز میں مختلف پہلوئوں سے کی گئی ہے۔ سماجی فرد کے جس تصور کو اس نے اپنایا ہے‘ موضوع کے مواد میں اس کی مطابقت کا کتنا خیال رکھا گیا ہے۔ اس پر بعض نکات کے حوالے سے کچھ سوالات کیے جا سکتے ہیں۔ اختر عثمان نے اپنے موادِ موضوع کو جس آئیڈیالوجیکل مؤقف سے پیش کیا ہے ‘وہ ترقی پسندوں کا معروف آفاقی مؤقف ہے۔ اسے اپنے مؤقف کی صداقت اور قوت پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ اس مؤقف کا خلاصہ اس نے دو الگ الگ کینٹوز میں بیان کر دیا ہے۔ ایک کینٹو میں اجتماعی امکانات اور خواب ہیں۔ اور دوسرے میں واحد متکلم نوعِ انسانی کے ترجمان کی حیثیت سے اپنا اثبات کرتا ہے۔ اجتماعی حوالے کے لیے آٹھویں کینٹو کا آخری حصہ دیکھیے:
''ہم ایک ہیں سب
سیاہ‘ سفید ایک ہیں
کسی کو کسی پہ کچھ برتری نہیں ہے
سوائے تقویٰ‘بجزنکو خوئی کوئی بھی برتری نہیں ہے‘‘
اگر کوئی گنگ اور کُر ہے تو موج ہائے صدائے تابندہ دیکھ سکتا ہے
بے بصر ہے تو خود سے پوچھے
اور نوع انسانی کے نمائندہ فرد کی ترجمانی اسی کی زبانی بارہویں کینٹو کے گیارہ ہم قافیہ و ہم ردیف مصرعوں میں ہے ‘جس کے آخری مصرعے یہ ہیں:
میں زمرئہ کائنات میں سرفراز بھی ہوں
میں آدمیت کے واسطے اعتزاز بھی ہوں
میں تاج و تخت وکلاہ سے بے نیاز بھی ہوں
میں فردِ مولا صفات‘ بندہ نواز بھی ہوں....!
ہماری شعری تنقید میں اوزان کی بحثیں بہت ہیں‘ لیکن آہنگ یا ردھم کو کہیں برائے نام ہی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ آہنگ کے حوالے سے دیکھا جائے‘ تو اس نظم کا ایک تو معنوی آہنگ ہے‘ جو نظم کے موضوعاتی پہلوئوں کے تنوع سے گزرتے ہوئے ساری ساختوں کو ایک ایسے کل میں ڈھالتا ہے‘ جو بند کل نہیں ہے ‘بلکہ اس کل کی تکمیل اصل میںایک نئے سماجی اور شعری تخلیقی آغاز کے ساتھ ہوتی ہے۔ جب وہ آخری مصرعے میں یہ کہتا ہے کہ :
میں اپنی سنجوگتا کے ہمراہ ساعت ِ سبز میں نئی نظم بُن رہا ہوں
تو یہ نظم بُننے کا تخلیقی پروسیس ‘نئے جہاں کی تخلیق کا بھی استعارہ بن جاتا ہے...
اختر عثمان اپنی اس نظم میں اپنے ہم عمر شاعروں سے بہت آگے چلا ہے اور جہاں ساز ترقی پسند شعری روایت کو اس نے فکری اور فنی و جمالیاتی ‘ ساری جہات میں نمو پذیر جلا بخشی ہے۔
اور اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
ستم و ظلم کا نشاں بھی ہے
یہ زمیں تھوڑی آسماں بھی ہے
اس کی محنت ہے دوگنا کہ یہ شخص
راہزن بھی ہے‘ پاسباں بھی ہے
درمیاں میں ٹھہر بھی جاتا ہوں
یوں طبیعت مری رواں بھی ہے
کچھ حقیقت بھی ہے کہانی میں
اور کچھ زیب داستاں بھی ہے
بات کرنی مجھے نہیں آتی
ورنہ منہ میں میرے زباں بھی ہے
تجھے ہونا تو چاہیے تھا یہاں
پھر بھی تو خوش رہے جہاں بھی ہے
جس کی خاطر وہاں رُکے ہوئے ہو
وہ ہر اک چیز تو یہاں بھی ہے
دل کی دولت ہے دستیاب یہاں
اور پھر‘ اب تو رائیگاں بھی ہے
آئو تو سانس لے کے آئو ظفرؔ
کہ یہاں گرد بھی‘ دھواں بھی ہے
آج کا مطلع
جڑی ہوئی چیزوں کو جدا کرتا رہتا ہوں
پتہ نہیں سارا دن کیا کرتا رہتا ہوں