تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     24-06-2018

دونوں مات کھا گئے

زیر نظر سطور پر یقین کر یں یا نہ کریں‘ یہ آپ کا حق ہے : ' دسمبر 2004ء میں جناب زرداری فیصلہ کر چکے تھے کہ جب بھی انتخابات ہوئے ‘اورپیپلز پارٹی اگر دو تہائی اکثریت سے کامیابی حاصل کر تی ہے‘ تو اس کے باوجود وہ تمام جماعتوں کو ساتھ ملا کر قومی حکومت تشکیل دے گی‘۔27دسمبر2007ء کی شام لیاقت باغ راولپنڈی میں بے نظیر بھٹو کے پرُاسرار قتل کے بعد جنرل مشرف اور آصف علی زرداری کوعلیحدہ علیحدہ اس کا ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا‘اور کہا جاتا رہا کہ اگربے نظیر بھٹو‘ زندہ رہتی ‘تو زرداری صاحب کا اقتدار میں آنا نا ممکن تھا‘ کیونکہ بی بی فیصلہ کر چکی تھی کہ ان کی وزارت عظمیٰ کے دوران آصف زرداری کسی طور بھی وزارت عظمیٰ اور وزیر اعظم ہائوس کے معاملات میں شامل نہیںہونگے‘ لیکن بی بی کے اچانک منظرسے ہٹنے کے بعد آصف علی زرداری کیلئے تمام راستے صاف ہو گئے ۔
آج سے14 برس قبل دسمبر2004ء کاانگریزی ماہنامہ ہیرالڈ دیکھیں ‘تواس کے سر ورق پر آصف علی زرداری کی تصویر کے نیچے لکھا ہوا ملے گا:
Pakistan's favourite jail bird seeks a role for himself.
اب اس انگریزی ماہنامے کے صفحہ51 پر آصف علی زرداری کے بارے میں یہ بھی لکھا ہوا ہے:
meanwhile specluation is rife that zardari may become the Prime Minister at the head of a National Government.
کیا یہ انٹرویو اور اس کے اقتباسات حیران کن نہیں؟ایک بات ذہن میں رکھیے کہ ہیرالڈ اسی اخباری گروپ سے تعلق رکھتا ہے‘ جس کے اخبار نے سیرل المیڈا والی مشہور زمانہ ڈان لیکس سٹوری اور پھر ملتان ائر پورٹ پر میاں نواز شریف کے دیئے جانے والے خصوصی انٹرویو کے ذریعے دنیا بھر کو بتایا کہ 26/11 کے ممبئی حملوں میں نان سٹیٹ ایکٹرز پاکستان سے گئے ۔ کیا ہم سب کو کچھ عجیب سا نہیں لگ رہاکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے پاکستان واپس آنے سے چار سال قبل ہی زرداری صاحب کی زیر قیا دت قومی حکومت کی خبریں دی جا نے لگی تھیں‘ جو محترمہ کی شہا دت کے بعد اس طرح سچ ثابت ہوئیں کہ اگلی حکومت میں نوا زلیگ ‘ مولانا فضل الرحمان‘ ایم کیو ایم اور ق لیگ‘ ولی خان گروپ بھی شامل ہوئے۔
انٹرویو میں آصف علی زرداری سے پوچھا گیا '' آپ کہہ رہے ہیں کہ پی پی پی اگر دو تہائی اکثریت سے آنے والے انتخابات میں کامیاب ہو تی ہے‘ تو پھر بھی وہ قومی حکومت بنائے گی ۔آپ یہ فیصلہ کیسے کر رہے ہیں؟ کیا آپ کا یہ فیصلہ بے نظیر بھٹو اور پی پی پی کو منظور ہو گا؟‘‘اب یہ اہم ترین نکتہ بھی اپنے مد نظر رکھئے کہ بے نظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کے درمیان میثاق جمہوریت مئی2006 ء میں طے پاتا ہے اور یہ انٹرویو اس سے دو سال قبل کیا گیا ۔ اس وقت جدہ کے سرور پیلس میں ان دونوں سیا سی خاندانوں کی ملاقات کا بھی کہیں ‘دور دور تک تصور نہیں تھا ۔
شاید یہی وجہ تھی کہ جب میاں نواز شریف نے اچکزئی‘جماعت اسلامی ‘ تحریک انصاف سمیت دوسری جماعتوں کے ساتھ 2008ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا‘ تو یہ آصف علی زرداری ہی تھے‘ جنہوں نے نواز شریف کو ان انتخابات میں حصہ لینے پرآمادہ کیا۔ اس میں تو رتی بھر بھی شک نہیںکہ نومبر2004ء میں زرداری صاحب کی8 سالہ قید سے رہائی‘ پس پردہ ان بین الاقوامی ایجنڈوں کی تکمیل کی یقین دہانیوں کی مرہون منت تھی‘ جن کی گرد کا بھی پاکستانی عوام کی غالب اکثریت کو آج تک علم نہیں۔ 
جولائی2006 ء میںجنرل مشرف اورمن موہن سنگھ کی مرضی سے سیاچن پر بیک چینل مذاکرات جب نتیجہ خیز ثابت ہونے لگے ‘تو بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے اسے روکنے کیلئے کانگریس کی حکومت کے ساتھ وہی حربہ استعمال کیا ‘جو وہ آگرہ میں اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ کر چکے تھے۔ انڈین اسٹیبلشمنٹ نے کہا ''کارگل میں بھارتی فوج کو دنیا بھر کے سامنے رسوا کرانے والے پاکستانی جرنیل سے کشمیر اور سیاچن پر کوئی تصفیہ نہ کیا جائے ‘کیونکہ اس سے جنرل مشرف ایک بار پھر فاتح بن جائے گا اور بھارتی فوج اس کی فتح کو اپنی تذلیل سمجھے گی ‘جس سے بھارتی فوج کے مورال پر بھی برا اثر پڑے گا‘‘۔ اس وقت کانگریس کی حکومت ‘ جوجو من موہن سنگھ کو مئی 2007 ء میں اسلام آباد بھیجنے پر آمادگی ظاہر کر چکی تھی‘ جہاں سیاچن پر دونوں ملکوں میں تصفیہ ہو جانا تھا‘ لیکن سونیا گاندھی نے جنرل جے جے سنگھ کے سامنے ہتھیار پھینکتے ہوئے اسلام آباد پیغام بھیجا کہ وہ سیا چن پر ہونے والے تصفیہ کیلئے طے شدہ ایجنڈے سے تو متفق ہے ‘لیکن ان کی جماعت کانگریس کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کی موجودہ فوجی حکومت کی بجائے جمہوری حکومت کے ساتھ بیٹھ کر اس کا اعلان کرنا پسند کرے گی۔ یہی وجہ تھی کہ جب آصف علی زرداری بطور صدر پاکستان حلف اٹھا رہے تھے ‘تو حامد کرزئی کو بطور صدر افغانستان اور بھارتی لابی کو پیغام دینے کیلئے خصوصی طور اسلام آباد مدعو کیااور اسی تقریب میں آصف علی زرداری نے حلف لینے کے بعد بطور صدر پاکستان میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا '' بہت جلد کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی خوش خبری دیتا ہوں‘‘۔
امریکی اور برطانوی خفیہ ایجنسیوں اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ ‘جو افغان طالبان کے ساتھ مشرف کے نرم رویہ کی وجہ سے پہلے ہی پریشان تھے‘ نے فیصلہ کیا کہ کشمیر پر اپنا ایجنڈہ نافذ کرنے کیلئے جنرل مشرف کو اب فارغ کر دینا چاہئے ‘لیکن اس کیلئے جنرل ضیا الحق والا طریقہ مناسب نہ سمجھا گیا اور اس کی جگہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد جیسا ایجی ٹیشن والا طریقہ اختیار کرنے کا فیصلہ ہوا‘جس کیلئے انہیں کسی ایسے نعرے‘ یا ایشو کی تلاش تھی‘ جس پر پاکستانیوں کے جذبات سے کھیلا جا سکے ۔ اس کیلئے سی آئی اے نے ' عدلیہ کی آزادی‘ کا کھیل کھیلنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ڈالروں کی بوریاںپاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنے میڈیا میں تقسیم کر دیں اور سمجھ دار ہوشیار بیوروکریسی کو ہفت روزہ اکانومسٹ کے ذریعے اشارہ دیتے ہوئے بتا دیا کہ '' مشرف سے ہم نے ہاتھ کھینچ لیا ہے ‘‘ جس نے اپنے صفحہ اول پر بڑے بڑے لفظوں میںــ'' MR.MUSHARRAF TIME IS UP لکھتے ہوئے پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کوGO AHEAD کا اشارہ کر دیا ۔
اگر آپ پیر صاحب پگاڑو مرحوم کا اگست2006 ء کے اخبارات میں شائع ہونے والا بیان دیکھیں‘ تو انہوں نے جنرل مشرف کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا '' مارچ میں ڈبل مارچ ہو گا‘‘ اور وہی ہوا‘ 9 مارچ کو ایک نئے اور انوکھے نام سے پاکستان کی سڑکوں پر عدلیہ کی آزادی شروع ہو گئی ۔ جنرل مشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو دُبئی میں جب آپس میں NRO طے کررہے تھے ‘تو ساتھ کھڑی ہوئی تقدیر دونوں پر علیحدہ علیحدہ ہنس رہی تھی ۔اور ایک سیا سی طور پر تو دوسرا جسمانی طور پر سی آئی اے سے مات کھا گیا تھا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved