تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     24-06-2018

آگ نہیں تو خاک نہیں

اللہ نے ہر انسان کو صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ دنیا والوں کو صرف ان لوگوں کی صلاحیتوں کا علم ہو پاتا ہے ‘جو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے پر پوری سنجیدگی اور لگن کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں۔ ماحول کا جائزہ لیجیے‘ تو اندازہ ہوگا کہ ہر انسان چند مخصوص صلاحیتوں اور رجحانات کے ساتھ دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ مزاج کی طرح رجحانات کے تنوع ہی سے دنیا کا حسن قائم ہے۔ اگر سبھی یکساں نوعیت کی صلاحیتوں یا رجحانات کے حامل ہوتے ‘تو دنیا یکسانیت کی چکی میں پس رہی ہوتی۔ 
بات ہو رہی ہے صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی۔ ماحول انسان کو کچھ کرنے کی تحریک ضرور دیتا ہے‘ مگر حتمی تجزیے میں ‘تو اس حوالے سے فیصلہ فرد ہی کو کرنا پڑتا ہے۔ اگر کسی نے سوچا ہے کہ اُس میں پائی جانے والی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جانا چاہیے‘ تو اُسے اس سوچ پر عمل کرنے کے لیے بہت کچھ چھوڑنا اور بہت کچھ اپنانا پڑے گا۔ اس مرحلے سے گزرے بغیر وہ معیاری اور قابل ِرشک زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہوسکتا۔ 
صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ایک مربوط عمل ہے۔ اس میں وقت، محنت اور وسائل اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ محض باصلاحیت ہونا کافی نہیں۔ آپ اپنی صلاحیتوں کی مدد سے دنیا کی کتنی خدمت کرسکتے ہیں‘ اس کا فیصلہ کون کرے گا؟ آپ خود‘ اور کون! آپ کو کہاں تک اور کس طرح جانا ہے ‘اس کا فیصلہ آپ سے بہتر کون کرسکتا ہے؟ 
سوال یہ ہے کہ اگر اللہ نے دنیا کے ہر انسان کو چند صلاحیتوں سے نوازا ہے‘ تو پھر یہ صلاحیتیں بروئے کار کیوں نہیں لائی جاتیں۔ سادہ سا جواب یہ ہے کہ کوئی بھی صلاحیت خود بخود نتائج نہیں دیتی۔ جب انسان طے کرتا ہے کہ اُسے کچھ کرنا ہے‘ تب صلاحیت بروئے کار لانے کی راہ ہموار ہوتی ہے اور محنت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ دنیا کے مشکل ترین کاموں میں سے ایک ہے اپنے آپ کو محنت کے لیے تیار کرنا۔ اس مرحلے سے کامیاب گزرنے والے ہر محاذ پر کامیاب ہوتے جاتے ہیں۔ 
صلاحیتوں کے لیے اظہار کے لیے محنت کے ساتھ ساتھ لازم ہے‘ ولولہ۔ بھرپور لگن اور جوش و خروش کے بغیر کم ہی لوگ کچھ کر پاتے ہیں۔ جب تک ولولہ سلامت ہے‘ آپ کام کرتے رہیں گے اور نتائج بھی حاصل کرتے رہیں گے۔ جہاں ولولے نے دم توڑا ‘وہاں آپ کے لیے کچھ بھی نہ بچے گا۔ انگریزی کا لفظ fire کئی مفاہیم کا حامل ہے۔ آگ کے علاوہ یہ لفظ جوش اور ولولے اور برطرفی کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے: 
If you're not fired with enthusiasm, you'll be fired with enthusiasm. 
انگریزی کے مزاج دان ہی اِس جملے میں لفظ fire کے استعمال کا بھرپور لطف لے سکتے ہیں۔ زندگی کے ہر معاملے میں مطلوب نتائج یقینی بنانے کے لیے محض باصلاحیت اور محنتی ہونا کافی نہیں۔ جوش و خروش کے بغیر دال آسانی سے نہیں گلتی۔ بھرپور لگن کے ساتھ ساتھ کرنے والے ہی اپنی راہ میں حائل رکاوٹیں دُور کرنے‘ دیواریں گرانے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ جس کے سینے میں ولولے کی آگ بھڑک رہی ہو وہی کچھ کر پاتا ہے۔ اگر ولولہ نہ ہو تو معاملات بے کیفی کی نذر ہوتے جاتے ہیں۔ یہ حالت بے دِلی کو جنم دیتی ہے ‘یعنی انسان کام تو کرتا ہے‘ مگر خود اُسے لطف آرہا ہوتا ہے‘ نہ دوسروں کو۔ اور مطلوب نتائج بھی آسانی سے حاصل نہیں ہو پاتے۔ 
زندگی ہر اعتبار سے اس بات کی مستحق ہے کہ بھرپور جوش و خروش کے ساتھ بسر کی جائے۔ ولولے کی آگ میں تپ کر کندن ہو جانے والے ہی زندگی کا حق ادا کر پاتے ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ چند ایک معاملات میں تو جوش و خروش دکھاتے ہیں ‘مگر باقی تمام معاملات کے حوالے سے صرف بے دِلی‘بے کیفی اور بیزاری نظر آتی ہے۔ چند ایک معاملات کو اِس قابل سمجھا جاتا ہے کہ اُن پر توجہ دی جائے اور جوش و خروش سے کام لیتے ہوئے دادِ محنت دی جائے۔ دیگر معاملات کو درخورِ اعتناء گرداننے سے گریز کی روش عام ہے۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ عام آدمی عمومی ماحول میں یہ طے کرلیتا ہے کہ صرف چند معاملات ہی بھرپور توجہ دیئے جانے اور جوش و خروش کے ساتھ کیے جانے کے قابل ہیں۔ 
علامہ اقبال نے کہا تھا: ع 
ہے شباب اپنے لہو کی آگ میں جلنے کا نام 
یعنی کہ عہد شباب کے دوران رگوں میں بہنے والا لہو بھی آگ کی سی تپش کا حامل ہونا چاہیے۔ عہد شباب میں انسان بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور پھر عمل کی راہ پر گامزن ہوکر بہت کچھ کر گزرتا بھی ہے۔ ہر نوجوان باصلاحیت اور توانا ہوتا ہے۔ عہد شباب توانائی ہی کا تو دوسرا نام ہے۔ کسی بھی قوم کو بلندی سے ہم کنار کرنے میں کلیدی کردار اُس کی نئی نسل ادا کرتی ہے۔ اور نئی نسل ولولے سے‘جوش و خروش سے عبارت ہوا کرتی ہے۔ زندگی کے مختلف پہلوؤں کا بھرپور تجربہ رکھنے والے اپنے تجربے کی بنیاد پر نئی نسل کی رہنمائی کرکے انہیں عمل کی درست راہ سُجھاتے ہیں۔ 
جو لوگ بھرپور جوش و خروش کی بھٹی میں تپ کر کندن ہو جاتے ہیں ‘وہ اپنے عمل سے دنیا کو بتاتے ہیں کہ زندگی کا حق ادا کرنے کا صحیح طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔ زندگی ہم سے کم و بیش ہر معاملے میں کسی نہ کسی حد تک فکر و عمل کا تقاضا کرتی ہے۔ کبھی کبھی کسی چھوٹے سے معاملے کو نظر انداز کرنے سے متعدد معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ کام کرنے کی لگن ہر معاملے میں ناگزیر ہے۔ جس طور محض ایک چھوٹا وائرس داخل ہونے کا موقع ملنے پر کمپیوٹر سسٹم کو پہلے سُست اور پھر ناکارہ بنادیتا ہے‘ بالکل اُسی طرح کسی ایک معاملے میں جوش و خروش کا فقدان بہت سے معاملات کو انتہائی خرابی کی دہلیز تک پہنچا دیتا ہے۔ 
زندگی کو متوازن رکھنے کے لیے بہت سے امور کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ صحت کا معاملہ بہت نمایاں ہے۔ صحت کا معاملہ درست ہوگا ‘تو انسان زیادہ کام کرنے قابل رہے گا۔ انسان بہت کچھ کرنا چاہتا ہے‘ مگر اپنی خواہش کے مطابق محنت کرنا اُس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ جو لوگ زیادہ کام کرنا چاہتے ہیں‘ وہ ایک طرف تو جوش و خروش برقرار رکھنے پر توجہ دیتے ہیں اور دوسری طرف صحت کا گراف بھی بلند رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ نے طے کیا ہے کہ دنیا کو اپنی صلاحیتوں سے روشناس کرانا ہے تو ممکن ہی نہیں کہ بھرپور جوش و خروش سے اور زیادہ کام کیے بغیر آپ ایسا کرسکیں۔ زندگی اتنی بڑی نعمت ہے کہ غیر معمولی جوش و خروش اور لگن سے کام کیے بغیر‘ ہم اس کا حق ادا کر ہی نہیں سکتے۔ کسی بھی کامیاب انسان‘ گروہ‘ تنظیم‘شہر‘ صوبے‘ ملک یا براعظم کے معاملات پر نظر دوڑائیے۔ ذرا سی دیر میں اندازہ ہوجائے گا کہ فرق اگر پیدا ہوتا ہے‘ تو صرف ولولے سے۔ اگر آپ میں آگ بھڑک رہی ہے ‘تو ٹھیک ورنہ سب کچھ خاک ہے اور کچھ نہیں۔ 
٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved