اس بار ٹکٹوں کی تقسیم نے سیاسی جماعتوں پر وختا ڈال رکھا ہے۔ کہیں نعرے لگائے جارہے ہیں ‘تو کہیں دھرنے دیئے جارہے ہیں۔ معاملات گالی گلوچ سے آگے بڑھ کر ہاتھا پائی کی منزل تک آگئے ہیں۔ بنی گالہ میں عمران خان کے گھر کے باہر کارکنوں نے ٹکٹوں کی تقسیم میں نا انصافی کے خلاف احتجاج کیا اور دھرنا دیا۔ کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ عمران خان نے کسی نہ کسی طرح کارکنوں کو مناکر واپس جانے پر مجبور کیا۔
پیپلز پارٹی کو بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا رہا ہے۔ یہ الگ بات کہ پی پی پی کارکنوں نے کہیں زیادہ احتجاج نہیں کیا اور نعرے بازی یا ہاتھا پائی کا آپشن اختیار نہیں کیا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ جنہیں اس بات کا یقین تھا کہ اس بار پیپلز پارٹی ٹکٹ نہیں دے گی ‘انہوں نے بہت پہلے راہیں تبدیل کرلیں۔ چند ایک کو پی پی پی قیادت نے منا بھی لیا۔ بہر کیف‘ ناراض ہونے والوں کی تعداد کم نہیں۔ ابھی کل کی بات ہے، سابق وزیر اعلیٰ سندھ علی محمد مہر اور ان کے بڑے بھائی سردار علی گوہر مہر نے پی پی پی سے راہیں الگ کرنے کا اعلان کیا۔
ٹکٹ اور دیگر حوالوں سے سب سے دلچسپ کیس چوہدری نثار علی خان کا رہا ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے پارٹی قیادت سے واضح اختلاف کرتے ہوئے راہیں الگ کرلیں اور دوسری طرف دعووں کا بازار گرم کردیا۔ کئی راز فاش کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے اُنہوں نے یہاں تک کہا کہ اگر اُنہیں لحاظ ہے‘ تو صرف کلثوم نواز کی حالت کا ورنہ منہ کھول دیتے۔ اب یہ تو اللہ ہی جانتا ہے کہ اُن کے پاس واقعی ایسا کچھ ہے‘ جسے بیان کرنے کے لیے منہ کھولا جائے یا پھر معاملہ بڑھک مارنے کا ہے۔ ن لیگ کی قیادت نے اس معاملے میں کمالِ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی ایسی حرکت نہیں کی‘ جس سے معاملات مزید خرابی کی طرف جائیں۔ چوہدری نثار کو غیر اعلانیہ طور پر ایک ایسا اسٹیٹس دیا جارہا ہے‘ جو حلیف کا ہے‘ نہ حریف کا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ ان کے مقابل کوئی امیدوار نہیں لایا جائے گا۔ اس عجیب و غریب تعلق کو بیان کرنے کے لیے ہمیں ملکۂ ترنم نور جہاں کے گائے ہوئے ایک گانے کا سہارا لینا پڑے گا‘ جس کا مکھڑا تھا ؎
نہ مہرباں نہ اجنبی‘ نہ دوستی نہ دشمنی
نہ جانے پھر بھی کیوں ہمیں اُسی کا انتظار ہے!
ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے نے ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں میں بھی پیچیدگی اور کشیدگی پیدا کی۔ یہ الگ بات کہ ان جماعتوں نے گھر کی بات کو باہر نکلنے نہیں دیا۔ عمران خان نے گزشتہ روز ایک کام کی بات کہی۔ بنی گالہ کے باہر احتجاج کے لیے جمع ہونے والے کارکنوں کو کسی نہ کسی طور واپسی پر راضی کرنے کے بعد اُن کا کہنا تھا کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں کوئی دھاندلی یا نا انصافی نہیں ہوئی۔ کسی کی حق تلفی بھی نہیں کی گئی۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کا استدلال تھا کہ ٹکٹ صرف اُنہیں دیئے گئے ہیں‘ جو الیکشن کی سائنس جانتے ہیں!
الیکشن کی ''سائنس‘‘؟ بات عجیب بھی ہے اور درست بھی۔ بہت پہلے کی بات ہے۔ عمران خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ وہ اپنی پارٹی میں ''الیکٹیبلز‘‘ کو قبول نہیں کریں گے۔ ''الیکٹیبلز‘‘ وہ لوگ ہیں‘ جو برادری‘نسل‘لسان یا کسی اور بنیاد پر کسی خاص حلقے یا حلقوں سے کامیاب ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی جیب میں پارلیمنٹ کی چند نشستیں رکھ کر سیاسی جماعتوں کا رخ کرتے ہیں۔ مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ جب حکومت سازی کا مرحلہ آئے‘ تو یہ اپنی نشستیں پیش کرکے وزارت وغیرہ کے مزے لُوٹیں۔ جب کی اپنی نشست اپنی بنیاد پر مضبوط ہو وہ کسی کے آگے جھکنے سے گریز ہی کریں گے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ آبائی حلقوں کے حامل سیاست دان محض بلیک میلنگ کرتے ہیں اور جب اُن کا مفاد محفوظ نہ رہے‘ تو کسی بھی سیٹ اپ میں ایک لمحے کے لیے بھی رکنا پسند نہیں کرتے۔
عمران خان کی بات بالکل درست تھی‘ مگر محض درست بات کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ عمل بھی درکار ہے۔ کہنے اور کرنے کا فرق نمایاں ہو تو مایوسی ہی ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ پی ٹی آئی کے بہت سے کارکن بددِل اور بدگمان ہیں۔ اُن کے چیئرمین اپنی کہی ہوئی بات سے پھر گئے ہیں۔ آج پی ٹی آئی میں الیکٹیبلز کا جمگھٹ لگا ہوا ہے۔ بہت سوں نے عمران خان کی شخصیت اور ولولے سے متاثر ہوکر پی ٹی آئی میں آنا گوارا کیا۔ اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن کا اس پارٹی میں آمد کا انداز بتاتا ہے‘ جیسے اُنہیں حکم دیا گیا تھا کہ اس طرف جاؤ! اب سوال یہ ہے کہ پارٹی میں الیکٹیبلز کا جمِ غفیر ہے‘ تو عمران خان بلیک میل ہونے سے کس طور بچیں گے؟۔
الیکشن کی سائنس والی بات بھی خوب رہی۔ اگر صرف اُنہی کو ٹکٹ دیئے جانے ہیں جو الیکشن لڑنے اور جیتنے کا ہنر جانتے ہیں ‘تو پھر نظریات کیا ہوئے؟ جس تبدیلی کو حقیقت کا روپ دینے کی بات کی جاتی رہی ہے‘ اُس کا کیا بنے گا؟ جو شخص اپنی یقینی نشست لے کر کسی پارٹی کا رخ کرے گا‘ وہ بھلا کسی بھی تبدیلی کی راہ ہموار کرنے میں کوئی بھی کردار کیوں ادا کرے گا؟ الیکٹیبلز کو سر آنکھوں پر بٹھانے کی بجائے پارٹی کی بنیادیں ‘اتنی مضبوط کی جانی چاہئیں کہ کوئی بھی شخصیت پارٹی سے وابستہ ہونے کے بعد اُسے ڈکٹیٹ کرنے کی پوزیشن میں ہو نہ بلیک میل کرنے کی۔ جمہوریت تب ہی پھل پھول سکتی ہے ‘جب وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو۔ مضبوط اور کنفرمڈ حلقوں والی چند شخصیات کو ساتھ ملاکر ایسی جماعت کبھی نہیں بنائی جاسکتی‘ جو کچھ کرنے کا عزم رکھتی ہو‘ کوئی بڑی تبدیلی لانا چاہتی ہو۔ عمران خان نے الیکٹیبلز کو ترجیح دے کر وہی کام کیا ہے‘ جو اب تک دیگر عمومی سیاسی جماعتیں بھی کرتی آئی ہیں۔
الیکشن کی سائنس اور ٹیکنالوجی جاننا ضروری ہے‘ مگر معاملہ ایسا نہ ہو کہ پارٹی یکسر غیر متعلق ہوکر رہ جائے۔ عمران خان نے الیکشن کی سائنس جاننے والوں کو ٹکٹ دینے کی بات کرکے کسی حد تک ڈاکٹر طاہرالقادری کو بھی ناراض کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ جب الیکٹیبلز ہی لینے تھے تو عمران خان نے دھرنا کس لیے دیا تھا۔ ع
بات تو سچ ہے ‘مگر بات ہے رُسوائی کی
25 جولائی کے بعد ملک کہاں کھڑا ہوگا؟ کون سی پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہوگی ... کچھ بھی پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ ایک بات البتہ طے ہے‘ یہ کہ الیکشن کی سائنس جاننے والوں ہی کو ترجیح دی جاتی رہی‘ تو جمہوریت کا درخت تناور ہو جانے پر بھی (عوام کو) پھل نہ دے سکے گا۔ نظر اگر رکھنی ہے‘ تو صرف ''باٹم لائن‘‘ پر۔ باقی سب تو زیب ِداستاں کے لیے ہے۔
عمران خان یا کوئی اور اگر جمہوریت کو بار آور بنانے کے معاملے میں سنجیدہ ہے ‘تو اُسے الیکشن کی سائنس سے زیادہ بہبودِ عامہ کی ٹیکنالوجی پر متوجہ ہونا پڑے گا۔ حتمی تجزیے میں ایسی تبدیلی کی گنجائش پیدا ہونی چاہیے‘ جس سے عوام کا کچھ بھلا ہوسکتا ہو‘ اگر ایسا نہ ہو تو پھر کچھ بھی کسی کام کام نہیں‘ نہ سسٹم نہ لوگ۔