تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     26-06-2018

برطانیہ کی سردی اور ایمان کی حرارت… (قسط دوم)

آج کا کالم اخباری زبان میں گزشتہ سے پیوستہ ہے‘ مگر اسے شروع کرنے سے پہلے میں دو قلمی دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں؛ اپنے ساتھی کالم نگار خالد مسعود خان کا اور ریاض اختر صاحب کا۔ اوّل الذکر نے مجھے بتایا کہ میں نقشہ پر فورٹ سنڈیمن نام کی بستی نہ ڈھونڈوں‘ کیونکہ اب اُس کا نام ژوب رکھا جاچکا ہے۔ خالد صاحب نے میرے ذہنی سکون کے لئے دس بارہ مثالیں دے کر بتایا کہ ماضی قریب میں کئی اور بھی شہروں اور اضـلاع کے نام بدل دیئے گئے۔ موخر الذکر نے یہ کالم اور لکھنے والے کے لئے اتنے (یقینا مبالغہ آمیز) تعریفی الفاظ لکھے کہ میں نے ان کی ای میل بطورسندسنبھال کر رکھ لی ہے۔ انہوں نے بکمال مہربانی مجھے پاکستان کی مظلوم خواتین کے حق میں لکھی گئی کتاب بطورِ تحفہ دینے کی پیشکش بھی کی ہے۔ میں نے نہ صرف اس کتاب کا‘ بلکہ ان کے ڈاک کے پتہ کا بھی منتظر ہوں تاکہ انہیں اپنی وہ کتاب بھیج سکوں‘ جو میرے گزشتہ دو تین سال میںشائع ہونے والے کالموں پر مشتمل ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ گزشتہ دو صدیوں میں بہت سے انگریز مشرف بہ اسلام ہوئے‘ مگر ان میں جو سب سے زیادہ مشہور ہیں‘ ان کے نام میں Lady Evelyn Cobbold (افسوس کہ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا )Lord Headley (جن کا تعارف پچھلے کالم میں کرایا گیا تھا) Marmaduke Pickthall(قرآن پاک کے بکما ل مترجم)ST. John Philby (رُوسی جاسوس) اور Abdullah Quilliam ( جن کا تعارف آج تفصیل سے کرایا جائے گا) شامل ہیں۔ وہ 1856 ء میں پیدا ہوئے اور 1932ء میں وفات پائی۔ وفات سے پچاس برس بعد تک وہ گمنام رہے‘ مگر آہستہ آہستہ ان کے بارے مضامین شائع ہونے لگے اور پچھلے برس ایک بڑے برطانوی اشاعتی ادارہ (Hurst)نے ان پر ایک بہت اچھی کتاب شائع کی‘ نام ہے:Victorian Muslim ۔ وہ نہ صرف مسلمانوں کے کمیونٹی لیڈر تھے‘ بلکہ انہوں نے کئی ادارے بھی قائم کئے‘ اسلامی تعلیمات کے بارے رسالہ شائع کیا اور یتیم خانہ بنایا۔ اس کالم نگار کی طرح عبداللہ کے سر پر تین ٹوپیاں تھیں۔ وکالت ‘ صحافت اور تعلیم وتدریس۔ ان کی سوانح عمری کی اشاعت کے بعد ان کی زندگی پر 35 مختلف جگہوں پر عوامی لیکچر دیئے گئے۔ لیور پول شہر میں کتابوں کی ایک دکان میں ان کے نام پر بنائی گئی‘ انجمن بدستور فعال ہے۔ صرف یہی نہیں‘ ان کے نام پر ایک اشاعتی ادارہ بھی چلایا جا رہا ہے‘ جس کے موجودہ سربراہ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک محترم استادTimothy Winter ہیں۔ عبداللہ جس عمارت میں کام کرتے تھے‘ وہ بطو ر ثقافتی سرمایہ ان دنوں زیر مرمت ہے اور جلد زائرین کے داخلہ کے لئے کھول دیا جائے گی۔ ایک نئی بات یہ سامنے آئی ہے کہ وہ اپنے مذہبی عقیدہ (جو ہر نو مسلم بڑے جوش و خروش سے اپناتا ہے) کے باوجودفری میسن بھی تھے۔ وہ 1844ء میں ہسپانوی تسلط سے پہلے مراکش گئے اور وہاں کے لوگوںکے مذہب (اسلام) سے اتنے متاثر ہوئے کہ اسے قبول کرلیا۔ اس کے باوجود کہ انہوں نے جنوب مغربی برطانیہ کے دو شہروں (کارڈف اورساؤتھ شیلڈز ) میں آباد عرب ملاحوں سے کوئی رابطہ قائم نہ کیا‘ وہ برطانیہ میں مٹھی بھر مسلمانوں کے سب سے بڑے رہنما تسلیم کئے جاتے تھے اور مغربی افریقی ممالک (لائبیریا اورسیرالیون )کے مسلمانوں کے کئی بار مہمان بنے۔ انہوںنے اپنے ہم عصر نو مسلموں کو (برطانوی مسیحی روایات کے مطابق) مل جل کر نعتیں اور حمدیں پڑھنے‘ اتوار کے دن خصوصی عبادت کرنے اور کرسمس کا تہوار منانے پر آمادہ کیا۔ وہ اپنی تحریروں اور تقریروں میں کثرتِ ازدواج کی دی گئی رعایت کی کھل کر حمایت اور تائید کرتے۔ وہ یہ دلیل دیتے تھے کہ مشہور ناول نگار چارلس ڈکنز اور دوسرے بہت سے لوگوں کی منافقانہ اور گناہ سے آلودہ زندگی بسر کرنے سے کثرت ازدواج بہرحال کئی درجہ زیادہ قابل قبول ہے۔ عبداللہ کو اپنے شہر (لور پول) اور اپنے خاندان‘ مگر سب سے زیادہ اپنے مذہبی عقیدہ (اسلام) پر فخر تھا۔ وہ اپنی اس دادی کا اکثر ذکر کرتے تھے‘ جس نے کبھی شراب نہ چکھی تھی۔ وہ علم ارضیات سے واقف اور سائنس کی دنیا میں تہلکہ مچا دینے والے ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے حامی تھے۔ انہوں نے افریقی سیاہ فاموں کوغلام بنا کر امریکہ میں فروخت کرنے کے خاتمہ کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ انسانی حقوق کی ہر جدوجہد کے ہر اول دستہ میں شامل ہوئے تھے۔نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ برطانوی پنجاب کے وزیراعلیٰ سر فضل حسین‘ عبداللہ سے ملنے خاص طور پر لور پول گئے اور اس کی خوبیوں سے بڑے متاثر ہوئے۔ 1908 ء کا سال عبداللہ کے لئے بڑا منحوس ثابت ہوا‘وہ برطانوی حکومت کے زیر عتاب آئے‘ سنگین الزام اپنے ملک کے مفادات کے خلاف کارروائیوں میں ملوث ہونے کا تھا۔ وہ 1891 ء میں سلطنت عثمانیہ کے فرماں روا سلطان عبدالحمیدکے Yildiz نامی محل میں ایک ماہ مہمان رہے۔ 
1894 ء میں انہوں ے سلطنت عثمانیہ کے نمائندہ کے طور پر مغربی افریقہ کے ممالک کا دورہ کیا۔ 1896 ء میں انہوں نے سوڈانی فوج کے مسلمان سپاہیوں سے اپیل کی کہ وہ برطانوی فوج کے پرچم تلے اپنے ملک میں بپا ہونے والی بغاوت کے خلاف نہ لڑیں۔ سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ نے انہیں شیخ الاسلام کا خطاب دیا۔ شاہِ ایران اور افغانستان کے امیر اور مراکش کے سلطان نے بھی اس خطاب کی تصدیق اور تائید کی۔ ملکہ وکٹوریہ نے عبداللہ کی اسلام پر لکھی ہوئی کتاب نہ صرف خود پڑھی بلکہ اپنے تمام بچوں کے لئے اس کی کئی جلدیں خریدیں۔ یہاں تک تو معاملات بالکل ٹھیک تھے‘ مگر بات یوں بگڑی کہ 1906ء میں عبداللہ سلطنت عثمانیہ کی بحریہ کے سب سے بڑے معمار (احمد پاشا) سے ملے۔ وہ کیوں ملے؟ یہ راز ابھی تک سربستہ ہے۔ دو سال پہلے عبداللہ نے برطانوی بحریہ کی جنگی مشقوں پر اپنی متنازعہ رائے ظاہر کی تھی۔ مذہبی اور روحانی امور میں دلچسپی رکھنے والے شخض کو جنگی امور میںدخل دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ یہ بھی کوئی نہیں جانتا اور اگر جانتا ہے تو بتاتا نہیں۔1906 ء کا سال برطانوی بحریہ کی تاریخ میں اس لئے بے حد اہم تھا کہ جہازوں کو کوئلہ جلا کر پیدا ہونے والی بھاپ سے چلانے کی بجائے تیل سے چلنے والے انجن نصب کر دئیے گئے تھے۔HMS Dread Nought نامی بحری جہاز نے برطانوی بحریہ میں سرخاب کا پر لگا دیا۔ برطانیہ کی خارجہ پالیسی میں بڑی بتدیلی یہ آئی کہ وہ اپنے پرانے حریفوں (فرانس اور روس)کا حلیف بن گیا۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ ڈرامائی تبدیلی سلطنت عثمانیہ کے لئے کتنی زیادہ اضطراب اور پریشانی کا باعث بنی ہوگی۔ عبداللہ کی مذکورہ بالا غیر معمولی سرگرمیاں ان کے لئے غیر معمولی عذاب کا باعث بنیں۔ آخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ عبداللہ کو برطانیہ سے مفرور ہو کر استنبول میں خلیفہ عبدالحمید کے محل میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کو ہدایت کی کہ وہ لورپول میں ان کی ساری جائیداد کو فروخت کر دے۔ یوں برطانوی مسلمانوں کی اجتماعی زندگی غیر متوقع اور افسوس ناک صدمے سے دوچار ہوئی۔ ترکی میں خلافت کا دور ختم ہوا تو عبداللہ کو مجبوراً اپنے آبائی وطن واپس آنا پڑا‘ جہاں انہوںنے وفات تک گمنامی کے دن گزارے۔ آج کا سارا کالم تو عبداللہ لے گئے۔ بہت سی باتیں رہ گئیں۔ آپ اس موضوع پر تیسرا خشک اور نیند آور کالم پڑھنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ 
میرے پیارے قارئین کو گزر جانے والی عید اور لارڈز کے کرکٹ میچ (جو کالم نگار نے گرائونڈ میں جا کر دیکھا) میں ہماری ٹیم کی شاندار کامیابی پر مبارک ہو!۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved