25جون 2009ء کو سید مودودی کے جانشین مردِ درویش میاں طفیل محمد اس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔ مرحوم سے بے شمار یادیں وابستہ ہیں۔ آپ بہت سنجیدہ آدمی تھے‘ لیکن حس ِ مزاح سے بھی مالا مال تھے ۔ سنت ِنبویؐ کے عین مطابق میاں صاحب کو اکثر مسکراتے ہوئے تو دیکھا گیا‘ مگر قہقہے لگاتے ہوئے کم از کم میں نے اپنی زندگی میں میاں صاحب کو کبھی نہیں دیکھا ۔ ایک مرتبہ کسی کی تعزیت کے لیے منصورہ سے شہر گئے۔ وہاں سے واپسی پر مزنگ میں میاں صاحب کے داماد ڈاکٹر محمد آصف کا کلینک پڑتا تھا۔ میاں صاحب کو ان سے ملاقات کرنا تھی ۔ جب وہاں گئے‘ تو ڈاکٹر آصف کے پاس مریضوں کا ہجوم تھا۔ ان کے ساتھ ہی ڈاکٹر کیپٹن (ر) شاہد نثار صاحب کا کلینک بھی تھا۔ ڈاکٹر نثار نفسیاتی امراض کے معالج ہیں ۔ ان کے پاس اتفاق سے اس وقت کوئی مریض نہیں تھا۔ موصوف شروع ہی سے میاں صاحب کے بڑے عقیدت مند اور مداح تھے۔ میاں صاحب اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان کے کلینک میں بیٹھ گئے ۔
ڈاکٹر صاحب نے آئو بھگت کی اور آمد کا مقصد پوچھا ۔ میاں صاحب نے فرمایا: ڈاکٹروں کے پاس آنے کا مقصد کسی مریض کو دکھانے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے ؟ اس وقت میاں صاحب کے ساتھ ناظم نشرواشاعت صفدر علی چودھری (مرحوم) اور صوبائی قیم چودھری محمود احمد (مرحوم) تھے ۔ چائے پی چکے‘ تو ڈاکٹر آصف صاحب کو بھی معلوم ہو گیا کہ میاں صاحب تشریف لائے ہوئے ہیں‘ وہ بھی وہیں آ گئے ۔ ملاقات کے بعد جب میاں صاحب جانے لگے ‘تو ڈاکٹر نثار نے کہا: میاں صاحب آپ نے کسی مریض کی بات کی تھی۔ میاں صاحب نے فرمایا :ہاں! یہ دو مریض میرے ساتھ ہیں ‘مگر یہ لا علاج ہیں ۔ آپ ان کا علاج نہیں کر سکتے ۔ ڈاکٹر نثار نے حیرت سے کہا :میاں صاحب یہ تو مریض نہیں ‘ بالکل ٹھیک ہیں ۔ میاں صاحب فرمانے لگے: یہ مجنون ہی تو ہیں کہ جماعت اسلامی میں دھکے کھا رہے ہیں ۔ آپ کی طرح ہوش مند ہوتے‘ تو عیش کر رہے ہوتے ۔ اس پر دونوں ''مریضوں‘‘ اور دونوں ڈاکٹروں نے خوب قہقہے لگائے ۔
محمد انور خاں نیازی (شعبہ نشر و اشاعت) بیان کرتے ہیں کہ وہ1969ء میں بی اے سے فارغ ہوئے‘ تو کسی کام کی تلاش میں تھے۔ ذہن جماعت اسلامی سے مطابقت رکھتا تھا۔ مرکز جماعت میں خط لکھا کہ اگر کوئی کام مل سکے ‘تو وہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں ۔ ڈاک سے جواب آیا کہ لاہور آئو ‘ ہم تمہارا انٹرویو کریں گے ۔ اگر تم ہمارے معیار پر پورے اترے‘ تو آپ کو کہیں ایڈجسٹ کر لیں گے ‘ورنہ آنے جانے کا کرایہ دے کر آپ کو واپس بھیج دیں گے ۔ نیازی صاحب اس خط کے ملنے کے بعد اچھرہ پہنچے ‘ وہاں ناظم عمومی راجہ احسان الحق سے ملاقات ہوئی اور دو تین دن یونہی گزر گئے ۔ آخر وہ مولانا سے ملے اور اپنی آمد کا مقصد اور مرکز کا خط پیش کیا ۔ مولانا نے اس پر میاں صاحب کے نام نوٹ لکھا کہ اس نوجوان سے ملاقات کر کے جانچ لیں اور مرکز میں کہیں کوئی کام ہو تو دے دیں ۔ نیازی صاحب کہتے ہیں کہ میں میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا‘ تو میرا مدعا سننے کے بعد بے ساختہ فرمایا: کیوں اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتے ہو ‘ساری زندگی چکی پیسنا پڑے گی ۔ گریجوایٹ ہو ‘ جائو کہیں جا کر اچھی سی ملازمت تلاش کر لو ۔
نیازی صاحب کے بقول ‘انہوں نے کہا: میں چکی پیسنے کے لیے تیار ہوں‘ تو میاں صاحب نے اپنی عینک اتار کر میز پر رکھی اور گہری سوچ میں پڑ کر کہا: یہ راستہ کٹھن اور مشکل ہے ‘ خوب سوچ لو ۔ میں نے کہا: خوب سوچ سمجھ کر ہی میں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے‘ تو میاں صاحب نے خط پر نوٹ لکھا: اس نوجوان کو آزمائشی طور پر نشرو اشاعت میں کام کا موقع دیا جائے اور اس کا معاوضہ سو روپے ماہانہ مقرر کر دیا جائے ۔ نیازی صاحب کا کہنا ہے کہ بعد میں ایک مرتبہ جماعت کے ہمہ وقتی کارکنان کو معاوضہ جات میں کچھ اضافہ ملا تو میاں صاحب نے لکھا کے میرے معاوضے میں سے دس روپے کم کر دیے جائیں اور انور خان نیازی کے معاوضے میں دس روپے اضافہ کر دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جماعت کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے والے لوگوں نے جس ایثار کے ساتھ کام کیا ہے ‘ وہ عصرِ حاضر میں ایک ناممکن نہیں‘ تو مشکل مثال ضرور ہے ۔ میاں صاحب ہر لحاظ سے تمام لوگوں سے اس میدان میں فائق تھے ۔
جب مرکز جماعت اچھرہ میں ہوا کرتا تھا‘ تو جماعت کے تمام اکابر اچھرہ ‘ رحمان پورہ اور ملحقہ بستیوں میں کرائے کے مکانوں میں رہتے تھے ۔ چودھری رحمت الٰہی صاحب ‘ مولانا ملک غلام علی مرحوم ‘ مولانا محمد سلطان مرحوم‘ راجہ احسان الحق مرحوم ‘ مولوی چراغ دین مرحوم اور سید صدیق الحسن گیلانی مرحوم سبھی سائیکلوں پر گھروں سے سے دفتر آیا جایا کرتے تھے۔ میاں طفیل محمد صاحب کو کبھی سائیکل پر نہیں دیکھا تھا۔ وہ رحمان پورہ میں اپنے مکان سے پیدل دفتر آتے اور پیدل واپس جاتے تھے ۔ کئی اور بھی مرکز میں کام کرنے والے کارکنان پیدل آیا کرتے تھے۔ صبح کے وقت مغرب سے مشرق کی طرف اور واپسی پر مشرق سے مغرب کی طرف سڑک کراس کرنا ہوتی تھی ‘ کئی رفقا بھاگ کر سڑک پار کرتے تھے‘ لیکن میاں صاحب کا معمول یہ تھا کہ وہ انتظار کرتے ‘ جب سڑک بالکل صاف ہوتی تو سڑک عبور کرتے ۔ کسی دوست نے بے تکلفی میں کہا کہ میاں صاحب آپ اتنا وقت ضائع کرتے ہیں ‘ جس سے جماعت کا نقصان ہوتا ہے ۔ میاں صاحب نے فرمایا: جماعت کے لیے چند منٹ بچانے کے لیے جماعت کے ایک کارکن کو ہلاکت میں ڈالنا کہاں کی عقل مندی ہے ؟
میاں طفیل محمد صاحب نکاح نہیں پڑھایا کرتے تھے ۔ اس کے برعکس جب کبھی احباب میں سے کسی ساتھی یا ان کے کسی عزیز کا انتقال ہوتا اور وہ میاں صاحب سے جنازہ پڑھانے کی درخواست کرتے ‘تو میاں صاحب دیگر مصروفیات چھوڑ کر بھی جنازے میں تشریف لے جاتے تھے۔ جب کبھی کوئی دوست نکاح کے لیے کہتا ‘تو معذرت کر دیتے تھے؛ حتی کہ نکاح کی مجلس میں موجود ہوتے ہوئے بھی وہ دوسرے ساتھیوں کو حکم دیتے کہ وہ نکاح پڑھا دیں۔ معروف صحافی عبدالقادر حسن نے اپنی بیٹی کی تقریب نکاح میں میاں صاحب اور ملک غلام علی صاحب کو خصوصی طور پر مدعو کیا۔ دونوں بزرگ تقریب میں شریک ہوئے۔ عبدالقادر حسن صاحب کی بڑی خواہش تھی کہ میاں صاحب ان کی بیٹی کا نکاح پڑھائیں ‘ مگر میاں صاحب نے معذرت کی اور ملک صاحب کو حکم دیا کہ وہ نکاح پڑھائیں۔ نکاح کے بعد عبدالقادر حسن صاحب کی درخواست پر میاں صاحب نے دعا کرائی ۔
ایک مرتبہ تحریک سے تعلق رکھنے والے ایک بے تکلف نوجوان نے اپنے نکاح کے لیے زیادہ اصرار کیا‘ تو فرمایا: بھئی مجھ سے جنازہ پڑھوا لو ‘ نکاح تو میں نے کبھی نہیں پڑھایا ۔ وہ نوجوان بھی زندہ دل اور میاں صاحب کا قریبی عقیدت مند تھا۔ اس نے کئی مرتبہ یہ واقعہ لوگوں کے سامنے بیان کیا اور خوب لطف اندوز ہوا ۔ ایک مرتبہ جھنگ کے دورے کے دوران اجتماع ارکان میں بعض جوشیلے رفقا نے امیر جماعت میاں صاحب سے پوچھا کہ اسلامی انقلاب کیوں نہیں آ رہا ؟ ان احباب کا کہنا تھا کہ جب تک کامیابی نہ ملے لوگ فوج در فوج دین میں داخل نہیں ہوا کرتے۔ اس لیے جو بھی طریقہ اپنانا پڑے ‘ بہرحال انقلاب لانا چاہیے۔ میاں صاحب تحمل کے ساتھ جماعت کی دعوت اور دستور کی روشنی میں جواب دیتے رہے کہ اللہ نے اپنے انبیا کو بھی بات پہنچانے کی ذمہ داری سونپی ہے ۔ لوگوں سے زبردستی قبولیت ایمان کا مکلف نہیں ٹھہرایا ۔ نہ ہی زبردستی کسی سے کوئی بات قبول کرائی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے مؤثر اور مسلسل دعوت ‘ باہمی ربط اور ذاتی تعلق ضروری ہے۔ یہ کام تو آپ لوگ کرتے نہیں اور عجلت کے ساتھ کامیابی کے متمنی ہیں۔
میاں سوہنے خاں مرحوم رکن جماعت‘ جو اس اجتماع میں موجود تھے‘ راوی ہیں کہ ایک ساتھی جو فتح کو پنجابی لہجے میں ''فتیاح‘‘ کہتے تھے‘ جوش میں آ کر کہنے لگے کہ اسوۂ شبیری کو اختیار کیا جائے اور میدان میں نکلا جائے ‘ پھر دیکھیے فتیاح ملتی ہے یا نہیں ۔ اس پر میاں صاحب نے فرمایا کہ اس میں شک نہیں کہ امام حسینؑ کامیاب اور یزید فی الحقیقت ناکام ہوا‘ لیکن جن پیمانوں سے آپ ''فتیاح‘‘ کو ناپتے ہیں ‘ ذرا سوچیے کیا ان کے مطابق میدانِ کربلا میں فتیاح مل گئی تھی ؟ آپ لوگ چھوٹی چھوٹی قربانی دینے کے لیے تیار نہیں ہوتے ‘تو اتنی بڑی قربانی کیسے دیں گے ۔ جو کرنے کا کام ہے وہی کرو ‘پھر دیکھو حالات کیسے بدلتے ہیں ۔ اللہ مرحوم کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی ہر بات میں وزن اور پیغام ہوتا تھا۔ آج بھی ان کی یادیں ہمارے دلوں میں مؤجزن ہیں۔