یہ تو اللہ کا اصول ہے‘ جس نے جو کیا ہوگا‘ وہی وہ بھگتے گا‘ یعنی جیسے اعمال ویسی جزا۔ اس میں کوئی بات الجھی ہوئی ہے‘ نہ ہی ناقابل قبول۔ جو اللہ کا اصول ہے‘ وہی ہمیں بھی تو اپنانا ہے اور ہم اس اصول کو قدم قدم پر اپنا سکتے ہیں۔ اپنے محاسبے کے ذریعے بھی اور دوسروں کا احتساب کرکے بھی۔
زندگی اگر معیاری انداز سے گزاری جانی ہو تو ہم سے قدم قدم پر احتساب کا تقاضا کرتی ہے۔ وہ تو بار بار کہتی ہے ؎
یہ گھڑی محشر کی ہے‘ تو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل! عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
ہم جس دنیا میں بھیجے گئے ہیں‘ اُس میں گام گام عرصۂ محشر ہے۔ ہم جو کچھ کرتے ہیں اُس کا بھی محاسبہ ہوتا ہے اور جو کچھ دوسرے کرتے ہیں اُس کا ہم محاسبہ کرتے ہیں۔ جتنی محنت اُتنا پھل‘ جیسی محنت ویسا پھل۔
ڈھنگ سے جینے کا ایک ہی طریقہ ہے ... کارکردگی کا معیار بلند رکھیے۔ کارکردگی کا معیار بلند رکھنے کے طریقے بھی کئی ہیں اور مفاہیم بھی ایک سے زائد ہیں۔ جو کچھ آپ کرتے ہیں وہ اعلیٰ معیار کا ہونا چاہیے۔ آپ کو دوسروں کی توقعات پر پورا اترنا ہے۔ دوسروں سے بھی آپ بہت سی توقعات وابستہ رکھتے ہیں۔ ایسا کرنا ہی پڑتا ہے۔ دنیا کا کاروبار اسی طور تو چلتا ہے۔ ہم دوسروں سے بہتر کارکردگی چاہتے ہیں۔ ہم یہ بات پسند نہیں کرتے کہ ہماری توقعات شکست و ریخت سے دوچار ہوں۔ جب ایسا ہے تو ہمیں بھی اپنی کارکردگی کا گراف بلند رکھنے پر توجہ دینی چاہیے‘ تاکہ دوسرے بھی ہم سے مایوس نہ ہوں۔
دنیا بھر میں یہ اصول بخوبی اپنایا گیا ہے۔ فیصلے کارکردگی کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ انسان کو صلاحیت اور کارکردگی کی بنیاد پر نوازا یا دھتکارا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک اس اصول کو دل سے نہیں اپنایا گیا۔ پاکستانیوں کی غالب اکثریت کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے زندگی بسر کرنے کی قائل ہے۔ آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنے کا عمل یوں جاری ہے کہ اس کے رکنے یا روکے جانے کے آثار دور تک نہیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگوں کی ذہنی حالت ایسی کیوں اور کیونکر ہوگئی ہے۔ تعقل کو زحمت ِ کار دینے سے توبہ کرلی گئی ہے۔ ہر معاملے میں یا تو اندھی جذباتیت ہے یا پھر مفعولیت۔ ذرا سی بات پر انتہائی شدید ردعمل کا اظہار اور بہت بڑے معاملے میں بھیگی بِلّی جیسا رویّہ! معاملہ انتہاؤں کا ہے۔ ان دو پاٹوں کے بیچ میں پوری قوم گیہوں کے دانوں کی طرح پِس رہی ہے۔
معاملات کو بگڑنے سے بچانے کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک بہتر صورت یہ ہے کہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو تسلیم کیا جائے‘ اپنی خراب کارکردگی کو غیر متعلق باتوں میں الجھاکر‘جھوٹ کے پردوں میں لپیٹنے کے بجائے کھل کر بیان کیا جائے اور اس حوالے سے معذرت چاہی جائے‘ مگر یہ سوچ پروان چڑھنے کا نام نہیں لے رہی۔ معاشرے میں نفسی خرابیاں غیر معمولی ہیں۔ لوگ اِن خرابیوں کے ہاتھوں میں کھلونوں کی طرح ہیں۔ جب انسان اپنی تخلیق کا مقصد بھول کر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے تب مسائل جنم لیتے ہیں‘ پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہمارا یہی تو معاملہ ہے۔ انسان کی حیثیت سے ہمیں جس کردار کا حامل ہونا چاہیے وہ کردار ہم میں ابھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ہر انسان کے لیے لازم ہے کہ اپنا اور دوسروں کا جائزہ لے۔ اپنی کارکردگی کا محاسبہ پہلے نمبر پر خود کرے۔ اس کے بعد دوسروں کی خامیاں اور کوتاہیاں تلاش کرنے پر متوجہ ہو۔ اب مشکل یہ ہے کہ لوگ اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو تو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور دوسروں کے ہر عیب کو بہت بڑا بناکر پیش کرتے ہیں ‘تاکہ اُس پر زیادہ سے زیادہ تنقید کی جاسکے۔
کارکردگی کی بنیاد پر فیصلے کرنے سے معاملات درستی کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ پاکستانی قومی 25 جولائی کو ایک بار پھر انتخابات کے مرحلے سے گزرنے والی ہے۔ اپنے نمائندے اور حکمران منتخب کرنے کا یہ ایک معقول اور مقبول طریقہ ہے‘ مگر اس معاملے میں بھی قوم ڈنڈی مارنے پر تُلی رہتی ہے۔ کوئی بھی نمائندہ یا حکمران کس بنیاد پر منتخب کیا جانا چاہیے؟ سیدھی سی بات ہے، کارکردگی کی بنیاد پر۔ ہم ہر معاملے میں لوگوں سے بہتر کارکردگی کی توقع رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر تنقید و تنقیص کے مرحلے سے گزرتے ہیں۔ لے دے کر بس یہی ایک معاملہ ایسا ہے‘ جس میں ہم نے کارکردگی کے اصول کو یکسر خیرباد کہہ رکھی ہے۔
رائے دہی کا حق کیوں دیا گیا ہے؟ صرف اس لیے کہ ہم اپنے لیے بہترین نمائندے منتخب کریں۔ بہترین نمائندے منتخب کرنے سے یہی تو ہوگا کہ ہمارے مسائل کے حل کی راہ ہموار ہوگی۔ ووٹ ڈالتے وقت کسی بھی شخص کی پچھلی کارکردگی کا جائزہ لینا لازم ہے۔ اس جائزے ہی کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے کا حتمی اور معقول فیصلہ ممکن ہوسکے گا۔ کیا ہم ایسا ہی کر رہے ہیں؟ کیا ہم ووٹ کاسٹ کرتے وقت‘ اپنے لیے بہترین نمائندے منتخب کرنے کی ذہنیت کو پروان چڑھتے وقت کسی کی کارکردگی اور لیاقت کو ذہن نشین رکھتے ہیں؟ عمومی سطح پر ایسا نہیں ہو رہا۔ ہم محض مشینی انداز سے ایک عمل کو پورا کر رہے ہیں۔ طرح طرح کے تعصبات کی نذر ہوکر ہم رائے دہی کے حق کی تذلیل کر رہے ہیں۔ کسی کو نمائندہ منتخب کرتے وقت اُس کی لیاقت اور کارکردگی دونوں کو پرکھنا انتہائی لازم ہے مگر افسوس کہ ہم ایسا نہیں کر رہے۔
ہم جنہیں نمائندوں کی حیثیت سے ایوانوں میں بھیجتے رہے ہیں اُن کی کارکردگی بھی ہمارے سامنے ہے اور ''وژن‘‘ بھی۔ پھر بھی آنکھوں دیکھی مکھیاں نگلنے کا عمل جاری ہے۔ ہم چاہ کر بھی اپنی ڈگر بدل نہیں رہے۔ بہت سے تعصبات اور مختلف معاملات میں خوف نے ہمارے پیر جکڑ رکھے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے بہت سمجھانے پر بھی لوگ ووٹ کاسٹ کرتے وقت معقولیت کا دامن تھامنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ان کی بھرپور کوشش صرف یہ ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور اس مرحلے سے گزر جائیں۔ نتائج اور عواقب کے بارے میں سوچنے کی زحمت کوئی گوارا نہیں کرتا۔
کیا یہ سب کچھ یونہی چلتا رہے گا؟ اگر ہاں تو پھر وہی کچھ ہوتا رہے گا جو اب تک ہوتا رہا ہے۔ مسائل حل ہونے کا نام نہ لیں گے‘ پیچیدگیاں کسی طور دور نہ ہوں گی۔ بحران آتے رہیں گے اور ہمیں آزماتے رہیں گے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کوئی حقیقی تبدیلی رونما ہو اور ہماری زندگی میں بہتری کی راہ ہموار ہو تو لازم ہے کہ ہم ووٹ کاسٹ کرتے وقت تعصب، جانبداری اور خوف سبھی کچھ ایک طرف ہٹاکر صرف اور صرف لیاقت و کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کریں کہ کون ہمارا نمائندہ ہوگا۔ جب تک کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ نہیں کیا جائے گا تب تک معاشرے میں کوئی بھی جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ اہلِ پاکستان کو اللہ نے ایک بار پھر حقیقی نمائندے منتخب کرنے کا موقع عطا کیا ہے۔ اس موقع سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے انہیں کارکردگی کی بنیاد پر اپنے نمائندے منتخب کرنے چاہئیں۔ دھیان رہے، یہ موقع ضائع نہیں ہونا چاہیے۔
٭٭٭