تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     28-06-2018

شیرسارا جنگل کھا گیا ...!

بچوں کو میں جب کبھی شیر کی کہانی سناتا‘ تو وہ یہ سوال ضرور کرتے تھے: با با شیر کو جنگل کا بادشاہ کیوں کہا جاتا ہے؟ میں جب انہیں بتاتا؛ چونکہ شیردردندگی میں یہ سب سے طاقتور ہوتا ہے‘ اس لئے اس سے ڈرتے ہوئے‘ سب پرند چرند‘ اسے جنگل کا بادشاہ مان لیتے ہیں۔ دوسرا سوال‘ جو بچوں کی طرف سے پوچھاجاتا‘ وہ یہ ہوتا کہ اگر شیر اتنا ہی طاقتور ہے کہ سب کو کھا سکتا ہے‘ تو پھروہ ہمارے شہروں کا بادشاہ کیوں نہیں بن سکتا؟ بچوں کے اس معصومانہ سوال پر میں انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا کہ جنگل میں‘ چونکہ قانون نہیں ہوتا‘ اس لئے وہاں سب سے طاقتور ہونے کی وجہ سے شیر کی بادشاہی قائم ہے‘ اسی لیے وہ جس کو چاہے کھائے‘ جتنا مرضی کھائے‘ کوئی اسے روک ٹوک نہیں سکتا‘اس کیلئے جنگل کاکوئی قاعدہ قانون بھی نہیں ہوتا ۔ شہروں میں قانون ہوتا ہے‘ یہاں میڈیا ‘پولیس اور عدالتیں ہوتی ہیں۔ تیس برس بعد آج جب بچوں کو سنائی جانے والی شیر کی کہانیاں یاد آتی ہیں‘ تو بچے جو ‘ اب خیر سے بڑے ہو چکے ہیں‘ میں انہیں بتاتا ہوں کہ آپ لوگوں کی خواہش پر شیر نے شہروں کو جنگل بناتے ہوئے ‘ یہاں بھی اپنی بادشاہت قائم کر کے سب کچھ کھانا شروع کر دیا ہے‘ لیکن پھر بھی اس کا پیٹ نہیں بھر رہا ہے۔
بیس جون کی رات''دنیا کامران خان کے ساتھ‘‘پروگرام میں سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے نواز حکومت کی اس مملکت ِپاکستان کے ساتھ معاشی طور پر کی جانے والی درندگی کا‘ جس کرب سے ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی معیشت قریباً ڈوب چکی ہے اور پاکستان کو اپنے زرِ مبادلہ کے ذخائر کیلئے کئی دروازوں پر جا کر گڑ گڑانا پڑرہا ہے اور پھر بھی آئی ایم ایف سے ایک اور قرضہ اس صورت مل سکے گا‘ جب امریکہ اپنی تمام شرائط منوائے گا اور وہ شرائط کیا ہوں گی‘ اس کیلئے کہیں دُور جانے کی ضرورت نہیں۔ صرف شمالی امریکہ کے مردِ آہن سمجھے جانے والے کا ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے جھکنے کے انداز سے اس پس پردہ آمادگی کو سامنے رکھنا ہو گا۔ آج اوپن مارکیٹ میں ڈالر125 روپے تک جانے کا مطلب ہے کہ تیل سمیت زندگی کی جلدہر شے آسمان کی جانب اٹھتی نظر آئے گی‘ تو مجھے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے میرے بدن سے سارا خون نچوڑ لیا ہو‘ میں جو اس وطن کی مٹی کا ایک چھوٹا سا ذرّہ ہوں‘ سوچ رہا ہوں کہ جنگل کا بادشاہ‘ تو چپکے چپکے سب کچھ ہی کھا گیا۔ اس نے ہمارے جسم کی ایک ایک بوٹی کو کھانے کے بعد ہماری ہڈیاں تک چبا ڈالیں اور ہم سب خاموش رہے۔ جنہوں نے حلف اٹھایا تھا کہ ہم اس وطن کے آئین اور قانون کی حفاطت کریں گے ‘اس ملک کی اندرونی اور بیرونی سرحدوں کا پہاڑوں سمندروں صحرائوں میدانوں اور فضائوں میں دفاع کریں گے‘ لیکن جنگل کے بادشاہ کے سامنے وہ کیوں خاموش رہے‘ آخراسے روکا کیوں نہیں؟
شیر جب سب کچھ کھاتا رہا ‘تو حلف کی پاسداری کی بجائے ‘ وہ چپکے سے کیوں دیکھتے رہے؟اگر کل کو یہ ملک دیوالیہ ہوا‘اور اگر یہ ملک خاکم بدہن‘ امریکہ کی ناپاک شرائط کے سامنے گھٹنے ٹیک گیا ‘تو ان سے اپنے حلف کی پاسداری نہ کرنے پر کون باز پرس کرے گا؟ وہ جو جمہوریت کے نام پر ان کی تعریفیں کرتے ہوئے‘ سامراج کے ایجنڈے کی پیروی کرانے کیلئے چاپلوسیاں کرتے رہے‘جو اپنے سامنے رکھے ہوئے مائیک کے ذریعے لوگوں کو بتاتے رہے کہ دیکھو ان کی جمہوریت سے دوستی کہ اپنے سامنے اپنا گھر لٹتا ہو ا‘اُجڑتا ہوا دیکھتے رہے‘ لیکن جنگل کے بادشاہ کے احترام میں با ادب کھڑے رہے۔ جب جنگل کا بادشاہ پی آئی اے کو کھا گیا‘پاکستان کی سٹیل مل کو کھا گیا ( انشا اﷲجلد ہی پاکستانیوں کو بتائوں گا کہ جس دن افغانستان میں بھارت کے جندل کو سٹیل مل لگانے کی اجا زت ملی‘ تو پھر کیسے پرُ اسرار طریقے سے پاکستان سٹیل مل کا ستیا ناس کیا گیا تھا) تو حلف سہما ہوا سب کچھ دیکھتا رہا اور اس حلف کی کچھ ''شقیں ‘‘ با وقار گائون پہنے اپنے حصے سمیٹتے ہوئے‘ پاکستان سے باہر جائیدادیں خریدتے رہے ‘کیونکہ وہ جنگل کے با دشاہ کو ہر قسم کے قانون سے مبرا سمجھتے تھے۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عبا سی اور خیر سے مسلم لیگ نواز کا ہر بالغ وزیر اور مشیر ہمیں یہی بتاتا رہا کہ انہوں نے پاکستان میں بجلی کے خزانوں میں12000 میگا واٹ کا اضافہ کر دیا ہے‘لیکن لوڈ شیڈنگ کا جن ہے کہ قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان ‘خیبر پختونخوا اور کراچی سمیت سندھ اور پنجاب کے شہروں اور گوٹھوں میں جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ لوگ کئی کئی گھنٹے بجلی کو ترستے رہتے ہیں ۔بد قسمتی کہہ لیجئے کہ کچھ لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ جہاں وہ رہ رہے ہیں‘ وہی پاکستان ہے ‘جہاں انہیں بجلی مل رہی ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ بجلی نیشنل گرڈ میں جاتی ہے‘ جہاں سب کا حق ہوتا ہے‘ نا کہ پنجاب کے چند شہروں کا۔نواز لیگ کی پنجاب حکومت‘ نگران حکومت کے لیے گردشی قرضوں کو چھوڑ کر اور فرنس آئل کی فراہمی پر نیند کے ٹیکے لگاکر‘31 مئی کو یہ کہتی ہوئی گھر چلی گئی کہ کل سے‘ اگر کسی کو بجلی نہ ملی‘ تو ہم ذمہ دار نہ ہوں گے ۔
حضور !اگر آپ ذمہ دار نہیں‘ تو پھر کون ہے؟ بجلی کوئی آندھی یا بھاپ تو نہیں کہ وہ فضائوںمیں کہیں اڑ گئی ہے۔مریم صفدر اور میاں نواز شریف کے پنجاب کے کونے کونے اور کے پی کے میں جلسوں ورکرز کنونشنز میں ایک ہی گردان دھراتی رہی کہ بھائیو ...بتائو‘ کہاں ہے‘ لوڈشیڈنگ؟اب انہیں کیسے بتایا جائے کہ جس شہر ‘جس تحصیل‘ جس قصبے ‘جس گائوں میں چاہو جا کر دیکھ لو‘ وہاں اندھیرے میں سہمی ہوئی لوڈ شیڈنگ آپ کو سسکتی ہوئی مل جائے گی۔ بجلی کی ترسیل کرنے والی کمپنی(DISCOs) میاں نواز شریف کی ہدایات پر جان بوجھ کر گردشی قرضوں کے پہاڑ بناتی رہی اور پاکستانیوں کے سینوں میں چھرا گھونپتے ہوئے تیل‘ فرنس آئل سے تھرمل بجلی گھروں کی پیداوار جاری رکھی‘ جس کی وجہ سے تیل کیلئے ملکی زرِمبادلہ کا نقصان اور اس مہنگے فرنس آئل کی وجہ سے بجلی کی قیمتیںاس قدر زیا دہ ہو گئیں کہ مئی کے بل جنہیں وصول ہوئے ‘ ان کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ زرداری اور نواز شریف کی حکومت پانچ‘ پانچ سال رہی‘لیکن مجال ہے کہ انہوں نے پانی سے سستی ترین بجلی پیدا کرنے کے کسی منصوبے کی جانب دھیان بھی دیا ہو۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ آپ دونوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟اس لئے کہ آپ کے گھر پاکستان سے باہر ہیں اوراولادیں بھی پاکستان سے باہر ہیں ۔ میثاق ِجمہوریت پر لندن میں دستخط کرنے کے بعد آپ دونوں کو کیا ایک لمحے کیلئے بھی یہ احساس نہیں ہوا کہ بھارت کے بگلیہار‘ وولر بیراج اور کشن گنگا ڈیم پر آپ دونوں اپنے عوام کو گول مول سے جوابات دیتے ہوئے‘ اس ملک کے ایک ایک بچے کے منہ سے پانی چھیننے والے نریندر مودی کے منصوبے کی تکمیل کرنے میں مدد کر رہے تھے۔ 
نا صر الملک صاحب نگران وزیر اعظم ہیں‘ لیکن نگران ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنی زبان ہی نہ کھولیں۔سابق حکمرانوں کو عوام کی جانب سے اتناجواب تودیجئے کہ جب فاروق لغاری نے ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم بنایا تھا‘ تو آصف علی زرداری اور پی پی پی کے خلاف گھوڑوں کے ائیر کنڈیشنڈ اصطبل اور شہد کھلانے کی کہانیوں کے طوفان‘ سرکاری ٹی وی اور اخبارات پر کس آئین اور قانون کے تحت مچائے گئے تھے ؟ کیا اس وقت میاں نوا زشریف کی مسلم لیگ اور آئین ِپاکستان کو نگران حکومت کی حدود و قیود یاد نہیں تھیں؟

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved