تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-06-2018

رقص بھول بیٹھا تھا …

ہم جہاں بھی ہیں‘ اپنی بدولت یا اپنے ہاتھوں ہیں۔ زندگی اگر اچھی گزر رہی ہے‘ تو ہماری اپنی محنت کا نتیجہ ہے اور اگر بُری گزر رہی ہے‘ تو یہ فصل ہم نے بوئی تھی اور ہم ہی کاٹ رہے ہیں۔ قدم قدم پر احساس ہوتا ہے کہ زندگی کے کچھ تقاضے ہیں اور ان تقاضوں کو نبھائے بغیر بات بنے گی نہیں‘ دال گلے گی نہیں‘ پھر بھی طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہم زندگی کے حوالے سے منطقی سوچ اپنانے اور اپنے حالات کو تبدیل کرنے سے گریزاں ہی رہتے ہیں۔ 
ایسا کیوں ہے کہ ہم زندگی کا رخ بہتر سمت موڑنے کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوتے؟ ہم اپنے ماحول اور اُس سے باہر ایسی بہت سے مثالیں پاتے ہیں کہ کسی نے بھرپور محنت کی اور بھرپور پھل پایا‘ جو فرد‘ معاشرہ‘ قوم یا خطہ جتنی محنت کرتا ہے اُس کے بہ قدر پھل پاتا ہے۔ ترقی اور استحکام کا تعلق براہِ راست اس بات سے ہے کہ آپ کتنی محنت کرتے ہیں اور اِس سے بھی ایک قدم آگے جاکر‘ زندگی کے حوالے سے کتنے سنجیدہ ہیں۔ 
معاشرے میں ایسے افراد خال خال ملیں گے‘ جو اپنی اور دوسروں کی زندگی کے بارے میں سوچتے کی توفیق رکھتے ہیں‘ کچھ کر گزرنے اور کر دکھانے کے حوالے سے ذہن بناتے ہیں اور پھر بھرپور محنت کے ذریعے اپنی سوچ کو عملی و حقیقی شکل بھی دیتے ہیں‘ اگر ہم اپنے عمومی معاملات کا جائزہ لیں‘ تو اندازہ ہوگا کہ بیشتر اوقات ہم سوچے سمجھے بغیر بہت کچھ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ نتائج ہماری مرضی کے ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم زندگی بھر بیشتر معاملات میں سوچے سمجھے بغیر عمل کرنے کے عادی ہوتے ہیں اور توقع یہ رکھتے ہیں کہ نتائج ہماری مرضی کے ہوں‘ مگر کیا واقعی ایسا ہوسکتا ہے کہ ہم مطلوب سنجیدگی کے حامل نہ ہوں اور زندگی کا معیار بلند ہو؟ 
معاملہ فرد کا ہو یا گروہ کا‘ معاشرے کا ہو یا قوم کا ... بھرپور کامیابی اُسی وقت ملتی ہے‘ جب سنجیدگی کو کماحقہ اپنایا جائے۔ زندگی قدم قدم ہم سے سنجیدگی کی طالب ہے۔ ہر دور کی تاریخ گواہ ہے کہ ترقی اور استحکام صرف اُن کے حصے میں آیا ہے‘ جنہوں نے زندگی کو محض روز و شب کے گزرنے کا کھیل نہیں سمجھا ‘بلکہ سنجیدگی سے لیا ہے اور پوری دیانت سے محنت کرتے ہوئے ‘اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی ہے‘ اگر آپ اپنے ماحول پر نظر دوڑائیں‘ تو اندازہ ہوگا کہ کامیاب وہی ہوتے ہیں‘ جو حیوانات کی طرح یکسر بے ذہنی کے ساتھ جینے کی بجائے تعقل کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں‘ سوچتے ہیں‘ سنجیدہ ہوتے ہیں اور بیشتر معاملات میں سنجیدہ رویّہ اختیار کرتے ہوئے‘ اس طور کام کرتے ہیں کہ خود بھی گھاٹے میں نہیں رہتے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتے ہیں۔ 
پاکستانی معاشرے پر طائرانہ نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ یاروں نے سنجیدگی کو شجرِ ممنوعہ سمجھ کر اب تک چُھونے کی خاطر خواہ کوشش نہیں کی۔ معاشرے کا سوادِ اعظم بے ذہنی سے عبارت ہے۔ لوگ بس جی رہے ہیں‘اگر کسی سے کہیے کہ زندگی کے بارے میں ذرا سنجیدہ ہوجائیے ‘تو جواب ملتا ہے کہ کیا ایسا کرنے سے لڈو پیڑے ملیں گے! معاملہ گھریلو زندگی کا ہو‘ سماجی تعلقات یا پھر معاشی امور کا ... ہر محاذ پر سنجیدگی کے حوالے سے خاموشی ہے۔ لوگ سنجیدگی سے یوں بچتے اور بھاگتے ہیں گویا یہ کوئی جان لیوا متعدّی مرض ہو۔ بزم سجی ہو اور سب کھل کر اظہارِ خیال کر رہے ہوں تو صرف اُنہیں قبولِ عام کی سند ملتی ہے‘ جو ہر معاملے کو ہلکے پھلکے انداز سے بیان کریں اور لوگوں کو کسی نہ کسی طور ہنسادیں۔ سنجیدگی اوڑھنے والے چہروں کو پسند نہیں کیا جاتا۔ کوئی بھی ایسی بات سننے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتا‘ جس میں زیادہ سنجیدگی ہو۔ آج کے پاکستانی معاشرے میں بیشتر افراد لاشعوری طور پر اِس سوچ کے حامل ہیں کہ سنجیدہ ہونے سے زندگی کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں ‘اس لیے بہتر یہ ہے کہ ہلکے پھلکے انداز سے‘ ہنستے گاتے‘ سب سے محظوظ ہوتے ہوئے اور سب کو محظوظ کرتے ہوئے زندگی بسر کی جائے۔ 
اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ زندگی سے محظوظ ہونا بھی ہم سب کا حق ہے؟ زندگی بسر کرنے کی ایک قیمت ہے جو سب کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ شبانہ روز محنت کرکے تھک جانے والے زندگی کا ہلکا پھلکا پہلو بھی تلاش کرتے ہیں اور ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ پورے وجود کو متزلزل کردینے والی محنت اور اس سے عبارت معمولات سے دوچار ہونے کی صورت میں انسان چاہتا ہے کہ کچھ وقت یوں بھی گزرے کہ دل و دماغ پر کوئی بوجھ نہ ہو‘ مگر صاحب‘ یہاں تو طے کرلیا گیا ہے کہ زندگی کو ہلکے پھلکے انداز ہی سے بسر کرنا ہے۔ اس روش پر گامزن رہنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ لوگ اب کسی بھی معاملے سے عبرت نہیں پکڑتے‘ بُرے انجام کا سوچ کر خوفزدہ نہیں ہوتے۔ حد یہ ہے کہ تدفین میں شرکت کے موقع پر قبرستان میں بھی لوگ نہ صرف یہ کہ معمول کی گفتگو میں مصروف ملتے ہیں ‘بلکہ بات بات پر قہقہے سے لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے‘ قبرستان وہ مقام ہے‘ جہاں پہنچ کر انسان کو اپنا انجام یاد آجانا چاہیے اور کچھ دیر کے لیے دل و دماغ اور اعصاب پر ہیبت سوار ہو جانی چاہیے۔ قبور کے درمیان انسان پر آخرت کے تصور سے تھوڑا بہت لرزہ تو طاری ہونا ہی چاہیے۔ افسوس کہ ایسا نہیں ہوتا۔ 
کوئی سنجیدہ کیوں نہیں ہوتا؟ 
زندگی کیا تماش بینی ہے؟ 
کائنات کے خالق نے ہمیں زندگی سی نعمت‘ اس لیے تو عطا نہیں کی کہ میلوں ٹھیلوں میں ضائع کردیں‘ ہنسی ٹھٹھے میں گنوا بیٹھیں؟ یہ تو سراسر حیوانی سطح ہے۔ حیوانات سے کوئی سوال نہیں ہوگا‘ مگر ہم سے پوچھ گچھ ہوگی کہ زندگی سی نعمت کا آخر کیا کِیا۔ کرۂ ارض پر گزارے جانے والے ایک ایک لمحے کا ہم سے حساب طلب کیا جائے گا۔ 
زندگی تعقل کے ساتھ گزاری جانی چاہیے‘ مگر خیر‘ کبھی کبھی عقل سے کچھ فاصلے پر رہتے ہوئے نعرۂ مستانہ بھی جائز ہے۔ بعض معاملات میں صرف عقل کافی نہیں ہوتی۔ علامہ نے کہا ہے ؎ 
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل 
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے 
ہم اُسی وقت تک زندگی رہتے ہیں جب تک ہم میں کچھ کرنے کی تڑپ اور لگن زندہ رہتی ہے۔ سنجیدگی اپناکر طے شدہ اہداف کے لیے جینے کا الگ مزا ہے۔ مقصدِ حیات کی تفہیم اور اس حوالے سے حُسنِ عمل یقینی بنانے کی تیاری ہی زندگی کا معیار بلند کرتی ہے۔ ہم میں کچھ کرنے کی لگن جوان رہنی چاہیے‘ ایک قلندر کو ہمارے من کے آنگن میں رقص کُناں رہنا چاہیے۔ یہ قلندر اپنا کام نہ کر پائے‘ تو باہر بہت کچھ ادھورا رہ جاتا ہے۔ ؎ 
مُجھ کو مر ہی جانا تھا وقت سے بہت پہلے 
رقص بھول بیٹھا تھا مجھ میں جو قلندر تھا
جب ہم زندگی کے مقصد کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں یا اس حوالے سے سنجیدہ ہونے کی طرف مائل نہیں ہوتے ‘تب ہمارے من کا قلندر رقص بھول جاتا ہے اور جب من کا قلندر رقص بھول بیٹھے ‘تو انسان اصلاً اور عملاً موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ کوئی لاکھ خوش فہمی میں مبتلا رہے‘ محض چلنا پھرنا اور حیوانی سطح پر جینا تو زندگی نہیں! دیکھ لیجیے‘ آپ کے حصے کا قلندر کہیں رقص تو نہیں بھول بیٹھا! 
٭٭٭

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved