تجسس وہ سب سے بڑی اُکسا دینے والی چیز (Drive)ہے ‘ جس کی بنیاد پر یہ دنیا چل رہی ہے ۔ایک بچّہ جب رنگ برنگے کھلونے کی طرف ہاتھ بڑھاتاہے یا ایک سائنسدان جب اس بات کا سراغ لگاتا ہے کہ آخر سورج میں کیا عمل ہورہا ہے ‘ جس کی وجہ سے روشنی اور توانائی پیدا ہورہی ہے‘ تو تجسس ہی اس دلچسپی کی بنیادی وجہ ہوتا ہے ‘ جس طرح بچّے کو آپ رنگ برنگی ‘ چمکدار چیزوں سے بہلا سکتے ہیں ‘ اسی طرح ایک سائنسدان کو آسمان میں ‘ خلا میں نظر آنے والے مظاہر سے ۔ اس تجسس کی بہت ساری جہتیں (Dimensions)ہیں ۔ ساتھ والے گھر میں سال پہلے شادی ہوئی تھی ‘ اب تک اولاد کیوں نہیں ہوئی ؟ میاں بیوی کے تعلقات کیسے ہیں؟ فلاں نے کاروبار شروع کیا تھا‘ کیا بنا؟ اس میں ساتھ ہی ساتھ نفس کی کمینگی پر مشتمل خواہشات بھی شامل ہو جاتی ہیں کہ ان کی اولاد نہ ہی ہواور کاروبار میں نقصان ہی ہو ‘ میاں بیوی میں ناچاقی ہو ۔ ایک بہت ہی عجیب بات یہ ہے کہ جب بندہ کسی کو مشکل میں دیکھتاہے ‘تو اس کے دل میں ہمدردی بھی پیدا ہوتی ہے ‘ جس کے نتیجے میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔ وہی بندہ‘ اگر ایک کاروبار کھڑا کر کے آپ سے آگے نکلنے لگے ‘تو پھر اسی شخص سے حسد ہونے لگتاہے ۔ ایسی عجیب ہیں‘ یہ کیفیات ۔ حسد اور دوسرے کے نقصان کی اس خواہش کا پیدا ہونا‘ تو فطری ہے کہ نفس میں دوسرے سب لوگوں پر اپنی بالادستی کی بہت گہری خواہش رکھی گئی ہے‘ لیکن اس کیفیت کی مزاحمت کرنا اور اس کے مطابق عمل نہ کرنا انسان کے اختیار میں ہے ‘ اگر انسان اپنی اس خواہش کو دبا کردوسرے کو مبارک باد دے ‘ اس کی محنت اور صلاحیت کی تعریف کرے اور اس کی کامیابی کو تسلیم کرے‘ تو پھرکچھ دیر میں وہ حسد کی اس کیفیت سے نکل جاتاہے ‘ اگر وہ ایک شخص کو اپنا حریف بنا لے‘ تو پھر مستقل طور پراس کی ہر کامیابی سے اسے حسد محسوس ہوتاہے ۔
اگر تجسس نہ ہوتا ‘تو ایک بچّہ ساری زندگی ایک ہی جگہ پہ بیٹھا رہتا۔ کسی چیز کا جائزہ نہ لیتا ‘ اسے پکڑنے اور برتنے کی کوشش نہ کرتا ‘ بستر سے نیچے اترنے کی کوشش نہ کرتا اور ساری زندگی کچھ بھی نہ سیکھ سکتا ۔ جب انسان تجسس کی وجہ سے کسی ایسے اصول کو سمجھ لیتاہے ‘ جس کی بنیاد پر یہ کائنات قائم ہے تو اسے اس جان لینے کی ‘ آگہی کی بے تحاشامسرت حاصل ہوتی ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ انسان اپنے اس تجسس پر اب تک بے تحاشا دولت صرف کر چکا ہے ۔امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کا سالانہ بجٹ 20ارب ڈالر ہے ۔ اربوں ڈالر خرچ کر کے ایک مشن چاند پہ اترتاہے ۔ وہاں سے میٹریل اکھٹا کرتاہے اور زمین پر لوٹ آتا ہے ۔جاپان کا بھیجا ہوا مشن ہایا بوسا 2005ء میں خلا میں اڑتے ہوئے ایک شہابِ ثاقب پہ اترا۔ وہاں سے کچھ مواد اکھٹا کیا اور 2010ء میں واپس زمین پہ اتر آیا۔اب آپ اندازہ لگائیں کہ انسان زمین سے لوہا اور ایندھن نکال کر میزائل بنا کر اڑاتاہے ۔ اس کے ساتھ آلات نصب کرتاہے ۔ وہ کئی سال میں ہزاروں کلومیٹر کا سفر طے کرتاہے اور شہابِ ثاقب سے مواد اکھٹا کر کے زمین پر لے آتاہے ۔ اس سب کی پشت پر توانائی فراہم کرنے والی driveکیا ہے ؟ تجسس !
لوہے کو اڑانا‘ ایندھن کی مدد سے ۔ آج ‘اگر سوچیں تو یہ بات کس قدر عجیب لگتی ہے ۔انسان نے پرندے اڑتے ہوئے دیکھے ۔ اس نے تیل میں جلنے کی صلاحیت دیکھی۔ اس نے توانائی کی قسمیں دریافت کیں۔ اس نے توانائی کی ایک قسم کو دوسری میں بدلنا سیکھا ۔آخر اس نے لوہے کو اڑانا سیکھ لیا۔ اسے ایک مقرر جگہ سے دوسری مقرر جگہ تک لے جانا سیکھ لیا ۔ آخر وہ اس کام میں اس قدر ماہر ہوگیا کہ زمین سے اڑنے والا ایک میزائل اور خلائی جہاز نے ہزاروں کلومیٹر سفر طے کر کے ایک برق رفتاری سے اڑتے ہوئے شہابِ ثاقب کے اوپر اپنے آلا ت اتارے ‘ مواد او رمعلومات اکھٹی کیں اور دوبارہ ہوا میں بلند ہوا ۔ طویل سفر طے کر کے واپس زمین کی فضا میں داخل ہوا اور آسٹریلیا میں آکر اتر گیا۔ آخری درجے کی مہارت ‘ جس کی پشت پر چالیس پچاس ہزار سال کا انسانی تجربہ موجود تھا۔
یہ وہ صورتِ حال ہے ‘ جس میں ایک سوچنے والا ذہن گنگ ہوکر رہ جاتاہے ۔ انسان تو تجسس کی وجہ سے یہ سب کچھ کر رہاہے‘ لیکن جانوروں میں بھی تجسس موجود ہوتاہے ۔ یہ الگ بات کہ اس تجسس کی حدود یہیں ختم ہوجاتی ہیں کہ سامنے پڑی ہوئی چیز کھانے کے قابل ہے یا نہیں ۔
ہمارے استاد کہتے ہیں کہ یہ تجسس انسان کو خدا تک لے جا سکتاہے ۔ اس لیے کہ انسان جب کوئی بھی کوئی نئی چیز‘ نئی دھات‘ نیا عنصر ‘ کچھ بھی نیا دیکھتاہے ‘تو تجسس کی وجہ سے اس کا جائزہ لیتاہے ‘ پھر دوسروں کو اس کے بارے میں بتانے لگتاہے ۔ خاص طور پر ان کو ‘ جو اس کے دل کے قریب ہوتے ہیں ۔چاہے ‘وہ کوئی خزانہ دیکھے اور چاہے whatsppپر کوئی وڈیو۔ یہی وجہ ہے کہ یہ وڈیوز پورا دن آپ موصول کرتے اور بھیجتے رہتے ہیں۔ انسان تجسس کی مدد سے‘ اپنی پانچ حسیات کی مدد سے ہر چیز کا جائزہ لیتاہے ‘ اگر وہ اسے خوبصورت پاتاہے ‘تو تیزی سے اس کی طرف لپکتا ہے ۔ چاہے وہ سونا ہو یا ایک حسین و جمیل عورت۔
لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا ہے کہ یہ تجسس رکھا ہی کیوں گیا ؟ ہمارے استاد اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ خدا نے انسان کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے تجسس رکھا ہے ۔ بچے کے ہاتھ میں دو کھلونے ہوں اور وہ تیسرے زیادہ خوبصورت کھلونے کو دیکھے تو پہلے والے کو گرا کر نئے والے کو‘ زیادہ خوبصورت چیز کو پکڑنے کی کوشش کرتاہے ۔ خدا اس قدر خوبصورت ہے کہ جو انسان اس کی طرف متوجہ ہو ‘ وہ پھر دنیا کی سب چیزوں کوشاید بھول جاتاہے ۔ اس لیے یہ تجسس رکھا گیا تھا ‘ انسانی دماغ میں ۔ تو خدا بھی اس صورتِ حال سے محظوظ ہو رہا ہے۔
رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کے وہ یہ کہتے ہیں
ادھر جاتاہے دیکھیں یا ادھر پروانہ آتا ہے
شمع یہ دنیا ہے ۔ ایک طرف دنیا‘ دوسری طرف خدا ۔ تیسری طرف اپنی خواہشات کے بھنور میں ڈوبتا ابھرتا انسان ...کیاخوب تماشہ ہے !
مزید برأں یہ کہ جتنا میں سمجھ سکا ہوں ‘ انسانی دماغ ایک وقت میں ایک ہی چیز کو انتہائی توجہ دے سکتاہے ‘ اگر تو وہ دولت کو دے رہا ہے ‘تو پھر اس کا زیادہ تر وقت مال کمانے میں ہی صرف ہوگایا پھر وہ زیادہ تر وقت حسین عورتوں کے گردگھومتا رہے گا یا پھر اگر وہ خدا کی طرف متوجہ ہو گیا تو پھر وہ باقی کسی بھی چیز کو اہمیت نہیں دے گا ۔ باقی کام بھی کرے گا‘ لیکن اس کی زیادہ توجہ ایک طرف ہی لگی رہے گی۔ کوشش یہی ہوگی کہ باقی چیزوں کو کم از کم وقت میں نمٹا کر اپنی اصل ترجیح کی طرف لوٹ سکے ۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ ہم سب کام جلدی جلدی نمٹا کر فیس بک کی طرف لوٹتے ہیں ۔
حسن و عشق کی اس داستان میں انسان شاید صرف ایک پروانہ ہی ہے !