کل شام ہمارے دوست محمود الحسن کا فون آیا کہ شمس الرحمن فاروقی صاحب نے آپ کے نام سے ایک غزل منسوب کر کے بھیجی ہے‘ جو واٹس ایپ کر رہا ہوں۔ زہے نصیب! کس منہ سے شکر کیجئے اس لطف خاص کا۔
غالبؔ نے تو سرکار کی طرف سے چکنی ڈلی کا تحفہ موصول ہونے پر ایک پورا قطعہ بند لکھ مارا تھا کہ تحفہ تو تحفہ ہی ہوتا ہے، چھوٹا ہو یا بڑا۔ پہلے وہ غزل ملاحظہ ہو:
(برادرم ظفر اقبال کے لیے)
نہ رونق کوئی باقی تھی نہ میلے رہ گئے تھے
بس آخر کار ہم دونوں اکیلے رہ گئے تھے
ہمارے پاس جو تھا جیب میں وہ کھو چکا تھا
ہماری مٹھیوں میں چند دھیلے رہ گئے تھے
مزے جتنے تھے جینے کے وہ ہم نے چکھ لیے تھے
بس اب اک جان تھی اور سو جھمیلے رہ گئے تھے
ہماری کھیتیاں کھلیان سب خالی پڑے تھے
ہمارے پاس بندر اور طویلے رہ گئے تھے
جو اچھے اچھے تھے سارے کے سارے بک گئے تھے
بقایا چند ڈھیلے ڈھالے کیلے رہ گئے تھے
کسی داسی کی زد میں سنت جی مارے گئے تھے
نشانی اُن کی چند احمق سے چیلے رہ گئے تھے
خدا جانے بھلا ایسے میں ان کا کیا بنا تھا
بہت سی بکریوں میں چند لیلے رہ گئے تھے
فاروقی چونکہ مجھ سے عمر میں تین چار برس چھوٹے ہیں اس لیے اگر یہ گستاخی بھی ہو تو مجھے اس کا حق پہنچتا ہے کہ ایک تو وہ مطلع کا پہلا مصرعہ
نہ رونق کوئی باقی تھی نہ میلے رہ گئے تھے
براہ کرم اسے تبدیل کر لیں کہ اس میں رونق کا قاف اور کوئی کا کاف عیب تناصر پیدا کر رہے ہیں۔ یہ مصرعہ اس طرح سے بھی ہو سکتا تھا ع
نہ رونق تھی کوئی باقی نہ میلے رہ گئے تھے
علاوہ ازیں تیسرے شعر سے لے کر ساتویں تک‘ چاروں شعر اجتماعِ ردیفین کی زد میں آ گئے ہیں‘ جو کہ اساتذہ کی طرف سے معائب سخن میں شمار کیا گیا ہے‘ یعنی شعر کے دونوں مصرعے مطلع نہ ہونے کے باوجود مطلع لگیں‘ جبکہ فاروقی کا شمار تو خود اساتذہ میں ہوتا ہے۔نیز یہ کہ کیا آخرِکار کو بغیر اضافت باندھا جا سکتا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ یہ غزل انتہائی مایوسی کے کسی لمحے میں تخلیق کی گئی ہے‘ جبکہ مایوس ہونا بے تو کلّی بلکہ گناہ گردانا گیا ہے۔ لیکن آپ نے تو مایوسی باقاعدہ پھیلائی ہے بلکہ مجھ ایسوں کو اس میں (زبردستی) شامل بھی کر لیا گیا ہے۔ کیا فاروقی کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ دنیا بے حد خوبصورت ہے اور زندگی ایک بہت بڑی نعمت؟
چنانچہ اظہار تشکر یا ہدیۂ تبریک کے طور پر کچھ اشعار کم و بیش انہی کے الفاظ میں عرض کیے ہیں اور اسے جوابِ آں غزل ہرگز نہ سمجھا جائے!
وہی رونق ہے باقی اور میلے بھی وہیں ہیں
اکٹھے بھی وہی ہیں اور اکیلے بھی وہی ہیں
ہماری جیب پہلے کی طرح پوری بھری ہے
ہماری مٹھیوں میں پیسے دھیلے بھی وہی ہیں
مزے جتنے ہیں جینے کے، ابھی ہم چکھ رہے ہیں
اگرچہ چھوٹے موٹے سے جھمیلے بھی وہی ہیں
ہماری کھیتیاں کھلیان ہیں ویسے کے ویسے
ہمارے ریچھ، بندر اور طویلے بھی وہی ہیں
پھلوں سے ایکدم بھرپور ہے خوانچہ ہمارا
انار، انگور، تربوز اور کیلے بھی وہی ہیں
وہی ہیں سنت جی اور ان کی داسی بھی وہی ہے
وہ احمق ہوں کہ دانشمند، چیلے بھی وہی ہیں
وہی ہیں بکریاں جو چرتی چگتی پھر رہی ہیں
اور ان کے ساتھ سارے ان کے لیلے بھی وہی ہیں
بات صرف اتنی ہے کہ گلاس اگر آدھا خالی ہو تو اسے آدھا بھرا ہوا بھی کہہ سکتے ہیں، ورنہ تو ہم نے ابھی بہت کچھ کرنا ہے، فاروقی کو ایک ‘دو ناول لکھنا اور مجھے ایک اور کلیات پیش کرنا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں کہا گیا قطعہ تھا
ظفرؔ ہم کیا، ہماری شاعری کیا
ابھی تو ہاتھ سیدھے کر رہے ہیں
سو، جناب! ہم آپ کو بھاگنے نہیں دیں گے۔ مایوسی کا یہ ایک لمحہ تھا جو یقینا گزر چکا ہو گا اور آپ معقول حد تک نارمل ہو چکے ہوں گے‘ لیکن طرفہ تماشا ہے کہ اپنے ساتھ آپ مجھے بھی ریٹائر کر رہے ہیں۔ کبھی شاعر ادیب اور وکیل بھی ریٹائر ہوا ہے؟ میری تو خیر ہے، لیکن آپ اللہ میاں سے اس یاس افشانی کی معافی ضرور مانگیں!
ریکارڈ کی درستی
برادرم دلاور علی آزرؔ نے فون پر بتایا ہے کہ اگلے روز کالم میں جو اشعار پرویز ساحرؔ کے نام سے نقل کیے گئے تھے وہ ایک بھارتی شاعر راجیش ریڈی کے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو دونوں حضرات سے معذرت، لیکن اشعار پرویز ساحر ہی نے پوسٹ کیے تھے اور انہیں شاعر کا نام بھی لکھنا چاہیے تھا یا ہو سکتا ہے انہوں نے لکھا ہو اور یہ کوتاہی مجھ سے ہو گئی ہو۔ پرویز ساحر بذات خود ایک عمدہ شاعر ہیں وہ کسی دوسرے شاعر کے اشعار کو اپنے نام سے منسوب کر ہی نہیں سکتے۔
آج کا مقطع
یہ قطرہ ہے جسے دریا بنا رہا ہوں ،ظفر
اور اس کے بعد اسے میں نے پار کرنا ہے