تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     29-06-2018

Obsessionکا علاج

انسان وہ واحد مخلوق ہے جس میں روحانی صحت کا تصور پایا جاتاہے ۔ گوکہ کائنات کا ذرّذرہ ہ ‘ تمام 92عناصر ‘ جن سے یہ کائنات بنی ہے ‘ خدائے بزرگ و برتر کی تسبیح کرتے رہتے ہیں‘ لیکن ہم انہیں خدا کا ذکرکرتے ہوئے دیکھ نہیں سکتے۔ ہماری آنکھوں اور دل و دماغ پہ خصوصی طور پہ پردے ڈال دیے گئے ہیں ۔ اگر ہم یہ دیکھ سکتے کہ پرندے اور درخت خدا کی عبادت کر رہے ہیں اور اگر ہم جنت اور دوزخ کو دیکھ سکتے ‘ اگر ہم خدا کو دیکھ سکتے تو ایمان جبر ہو جاتا ۔ اس کے برعکس‘ خدا نے خود پہ حجاب ڈال دیے ۔ اپنی نشانیاں ہر کہیں رکھ دیں ۔ یہ نشانیاں انسان کے اپنے جسم‘ دماغ ‘ زندہ چیزوں اور بظاہر بے جان اشیاء میں بھی ہر کہیں موجود ہیں ۔ انسان کو ایک ایسی عظیم الشان عقل دی گئی اور خدا کی نشانیاں ہر کہیں اس قدر وضاحت کے ساتھ موجود ہیں کہ جو شخص بھی ذرا سا غور کرے ‘ وہ خدا پر ایمان لے آئے ۔ چاہے وہ ان پڑھ ہی کیوں نہ ہو ۔ ان پڑھ لوگوں میں بھی عقل موجود ہوتی ہے ۔ صرف تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے اس کی جہت (Dimension)بدل جاتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ گاہے ایک نا خواندہ شخص پڑھے لکھوں کو ایسے چکر دے جاتاہے کہ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں ۔ ہاں ‘ یہ البتہ ایک الگ بات ہے کہ اگر کوئی ساری زندگی خدا کے وجود پر غور کی ضرورت ہی محسوس نہ کرے ۔ یہ سوال اس کے نزدیک کسی اہمیت کا حامل ہی نہ ہو کہ کائنات‘ زندگی اور انسان کا کوئی رب ہے یا یہ سب کچھ اپنے آپ وجود میں آیا ہے ۔ تو جو خدا کو غیر اہم سمجھے‘ خدابھی اسے نظر انداز کر دیتاہے ۔ ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جو خدا کی یاد کے لیے وقت نہیں نکالتا‘ اسے دنیا میں اتنا الجھا دیاجاتاہے کہ اس کے کام کبھی ختم ہی نہیں ہوتے اور وہ اتنی محنت اور بھاگ دوڑ کے باوجود سکون سے محروم ہی رہتاہے ۔
انسان اور باقی مخلوقات میں فرق یہ ہے کہ انہیں دو میں سے ایک ‘ ہدایت اور گمراہی میں سے ایک کا انتخاب کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ‘ جب کہ انسان کو یہ اختیار دے کر اس کی روحانی صحت اس کے ساتھ منسلک کر دی گئی ہے ۔ جیسے انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کاٹھیک ہونا ضروری ہے ‘ اسی طرح اس کی ایک روحانی صحت بھی ہوتی ہے ۔ جب وہ نیکی کا کام کرتاہے ‘ جب وہ خدا کو یاد کرتاہے تو اس صحت میں اضافہ ہوتاہے ۔ حدیث کے مطابق‘ انسان کا ایمان بڑھتا اور گھٹتا رہتاہے ۔ وہ Fixedنہیں ہے۔ جب انسان کوئی برائی کرتاہے‘ گناہ کرتاہے ‘ جرم کرتا ہے تو پھر اس صحت میں کمی آتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکو اور جرائم پیشہ افراد ہمہ وقت خوف کا شکار رہتے ہیں ۔ 
زندگی کی حفاظت کرنے والے سب سے بنیادی جذبے کا نام خوف ہے ۔ خوف پیدا کرنے کے لیے انسان کے اندر درد کا نظام رکھا گیا ہے ۔ اگر ایک انسان گرم چیز کو چھو لے یا نوکدار شیشے کو پکڑے تو اس کا ہاتھ کٹتا ہے ‘ جلد تکلیف محسوس کرتی ہے اور درد کا پیغام دماغ تک جاتاہے ۔ دماغ میں اس درد کی وجہ سے خوف پیدا ہوتاہے کہ آئندہ ایسی چیز کو نہیں پکڑنا تاکہ درد سے بچا جا سکے ۔ اسی طرح جب انسان ایک غلط اقدام اٹھاتاہے تو اس سے پیدا ہونے والی پیچیدگیاں ‘ اس کے منفی نتائج خوف پیدا کرتے ہیں اور آئندہ وہ ایسا اقدام کرنے سے رک جاتاہے ۔ 
انسان کے اندر بہت سی خواہشات رکھی گئی ہیں ۔یہ خواہشات اسے گناہ اور جرم پہ اکساتی ہیں ۔ عقل روکنے کی کوشش کرتی ہے کہ پکڑے جائو گے‘ سزا ملے گی ۔ جب انسان گناہ اور دولت کے لالچ میں ایسا اقدام اٹھا لیتاہے ‘ وہ قتل کر دیتا ہے ‘ بدکاری کرتا ہے یا کوئی اور جرم تو پھر وہ روحانی طور پر کمزور ہوتا چلا جاتاہے ۔ اس کے اندر خوف پیدا ہوجاتاہے ۔ اگر میں نے ناجائز کاموں سے پیسہ اکھٹا کیا ہے تو پھر مجھے یہی خوف کھا جائے گاکہ میرے جرائم کسی کو پتہ نہ چل جائیں ‘ میری دولت ضبط نہ کر لی جائے ‘ میرے جرائم لوگوں کے علم میں نہ آجائیں ۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ یہ خوف اپنی حد سے بڑھتا چلا جاتاہے ۔ گناہ اور جرم کے علاوہ نفسیاتی مسائل اور کم علمی بھی انسان کو ایک ایسی بیماری کا شکار کر سکتی ہے ‘ جہاں یہ خوف بڑھتے بڑھتے ایک obsessionبن جاتاہے ۔ انسان جب obsessionکا مریض بنتاہے تو پھر وہ شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتاہے ۔ اسے کوئی بھی کام کرتے ہوئے تسلی نہیں ہوتی۔وہ روزمرہ زندگی کے امور سر انجام دینے کے قابل نہیں رہ جاتا۔ وہ کہیں کسی تہہ خانے میں ایک تاریک کمرے میں لیٹے رہنے کی خواہش کرتاہے‘ جبکہ بازار میں نکلنا اور دوسروں کا سامنا کرنے کی ہمت باقی نہیں رہتی۔
کم علمی کیسے انسان کو Obsessionمیں لے جاسکتی ہے ؟ ایسے کہ جب انسان کو خدا کی رحمت پر یقین نہ ہو اور وہ یہ سمجھے کہ اس سے اتنے بڑے گناہ اور جرم سرزد ہو چکے ہیں ‘ جن کی اب معافی نہیں ہو سکتی ؛حالانکہ خدا نے اپنے اوپر رحم کرنا فرض کر لیاہے اور وہ ہر گناہ اور جرم کو بخش دینے کی طاقت رکھتاہے ۔ 
ایک لڑکا لاہور سے اسلام آباد آتا ہے ۔وہ مجھے کہتاہے کہ میں اپنے کمرے سے نکلتے ہوئے دروازہ تھوڑا سا کھول کر آتا ہوں تاکہ بلی کو اندر باہر آنے جانے میں آسانی ہو ۔ میں آتے ہوئے دروازہ کھول کر آیا تھا لیکن مجھے خوف ہے کہ کہیں دروازہ ہوا سے بند نہ ہو گیا ہو اور بلی اندر بھوک پیاس سے مر نہ جائے ۔میں نے دروازے میں اینٹ بھی رکھی تھی لیکن پھر بھی وہم طاری رہتاہے ۔ میں بار بار دروازے کو دیکھ کر تسلی کرتا ہوں ‘ پھر بھی شک رہ جاتاہے ‘ خوف محسوس ہوتا ہے کہ ایک جاندار اگر میری وجہ سے مر گیا تو میری بخشش نہیں ہوگی ۔ 
اسی طرح بڑے بڑے انسانوں میں چھوٹے چھوٹے خوف ہوتے ہیں ۔ ان کا دماغ وہیں پر اٹک جاتاہے ۔ اس سے آگے نہیں بڑھتا ۔ یہ خوف انسان کی زندگی کھا جاتاہے ۔ الطاف حسین کی آواز سننے اور انہیں دیکھنے والا ایک عام شخص بھی یہ اندازہ لگا سکتاہے کہ وہ ذہنی طور پر بیمار ہیں ‘کہ کئی بار ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے‘ جو کہ اچھے مزاج کے ‘اچھے اور نیک لوگ تھے لیکن وہ بھی obsessionکا شکار تھے ۔ 
obsessionسے انسان نکل سکتاہے‘ روحانی طور وہ مضبوط ہو سکتاہے ‘ اگر وہ اس کا تہیہ کر لے ۔ اگر وہ خدا سے معافی مانگ لے ‘ دوسروں کا جو نقصان کیا ہے ‘ اس کی تلافی کر دے یا مستقبل میں تلافی کی نیت کر لے ۔ اگر وہ روزانہ خدا کو یاد کرنا شروع کر دے ۔ بعض لوگوں کے لیے medicationضروری ہوتی ہے ۔ ایسی ادویات جو کہ انسان کو obsessionسے نکلنے میں مدد دیتی ہے ۔ ان لوگوں کو جو گھنٹوں اپنے ہاتھ دھوتے رہتے ہیں ‘جبکہ قرآن کا ایک حصہ ‘ چند سیپا رے حفظ کرنا‘ روزانہ اسے کچھ دیر دہرانا obsessionکو اس طرح سے دھو دیتاہے جیسے سرف سے کپڑے دھلتے ہیں ۔ قرآن کے الفاظ کو اپنے دماغ کے خلیات میں محفوظ کرنا انتہائی برکت کا باعث ہوتا ہے ۔ اگر انسان روزانہ کا ایک گھنٹا بھی قاری صاحب کی نگرانی میں قرآن کو یاد کرنے کے لیے مختص کرے تو چند ماہ میں تین چار سیپارے یاد ہو سکتے ہیں ۔ یہ چند مہینے آپ کی پوری زندگی کو بدل سکتے ہیں۔

 

 

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved