اقبال ؔغالب آئے اور محمد علی جناح بھی ، عجیب تر یہ ہے کہ جوں جوں وقت بیت رہا ہے، اللہ کے دونوں بندوں کی مقبولیت کا دائرہ پھیلتاجا رہا ہے ۔ مگر افسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں، مگر افسوس !
بوسے اور سجدے پہ بہت بات ہو چکی۔ خیال ہے کہ جلد بھلا دی جائے گی۔ سنسنی پسندی کا جو مزاج مرتب ہو چکا ، بھوک اس میں بہت ہوتی ہے۔ آسانی سے مٹتی بھی نہیں۔ اس عجیب و غریب مرض کی طرح ، پیاسا کتنا ہی پانی پئے، خواہش بڑھتی جاتی ہے۔ کل کوئی اور موضوع ہوگا‘ کل کچھ اور نکتہ آفرینی۔ اس قوم پہ اللہ رحم کرے‘ اپنے بنیادی مسائل کے لئے ‘ جس کے پاس کوئی وقت نہیں۔ عمل کے لئے ایک ذرا سی توانائی صرف کرتے بھی کوفت میں رہتی ہے‘ جذبات کی نمائش کے لئے ‘اس کی مہلت البتہ ازل تابہ ابد ہے ۔
یہ اوریا مقبول جان کا ایک برقی پیغام ہے، ''ویسے عمران خان کی بھی کمال قسمت ہے۔ افغانستان میں طالبان کی حمایت کرے تو ایک طبقہ اسے خارجیوں کا ساتھی اور ایجنٹ کہتا ہے۔ بابا فرید کی چوکھٹ پہ اگر بوسہ دے تو دوسرے طبقے کو شرک و بدعت کی بحثیں یاد آتی ہیں۔ یہ تمام علماء متحدہ مجلس عمل میں اکٹھے ہوتے ہیں تو کسی کا کسی کو شرک دکھائی دیتا ہے ، نہ کسی کو کوئی گستاخ رسول ، گستاخ صحابہ یا منکرِ اہل بیت نظر آتا ہے۔ جب یہ لوگ بے نظیر یا نوازشریف سے اتحاد کرتے ہیں تو کسی کو سہون شریف یا مزار داتا گنج بخش پر ان لیڈروں کے بوسے نظر آتے ہیں اور نہ غسل کے واقعات ۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اللہ کسی مولوی کے دل میں کسی سے بغض پیدا نہ کرے ۔ جہنم واصل تو شاید نہ کراسکے، دنیا ضرور برباد کرسکتا ہے ۔ ‘‘
اوریا کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ ہمیشہ آگ میں کودنے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اگر کہیں پہلے سے الائو نہ بھڑک رہا ہو تو خود بھڑکا لیتا ہے۔ افسر تھا تو وزیراعلیٰ کو نا خوش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔ اخبار نویسی شعار کی تو کبھی کسی کو معاف نہ کیا۔ کسی نہ کسی درجے میں یہ سب قابل فہم تھا۔ مگر آج جو حرکت اس نے کی ہے ، ہر گز اسے اندازہ نہیں کہ اس کی کیا قیمت اسے ادا کرنا ہوگی۔
مولوی تو معزز لوگ ہوتے ہیں، بابا ئے اردو جناب عبد الحق ایسے لوگوں ، محمد علی جوہر ایسے جیّد لیڈروں کو مولوی یا مولانا کہا جاتا ۔ حالانکہ محمد علی جوہر خطیب اور انشا پرداز تھے ۔ انشا پردازانگریزی کے اور خطابت کا موضوع سامراجی اقتدار تھا۔مذہبی معلومات بھی یقینا بہت ہوں گی کہ صاحبِ مطالعہ و ادراک تھے ۔ ان معنوں میں مولوی بہرحال نہ تھے کہ کسی مدرسے کے فارغ التحصیل ہوں۔رہے بابائے اردو تو معروف معنوں میں بعض اعتبار سے انہیں لبرل کہا جا سکتا ہے؛ اگرچہ آج کے بگڑے ہوئے ، پاکستانی لبرل سے کوئی نسبت ان کو نہیں دی جاسکتی۔ ان میں تھوڑے ہی کھرے لبرل ہیں۔قابل ذکر تعداد میں بھاڑے کے ٹٹو ہیں ۔ کچھ تباہ کن احساس کمتری کے طفیل مرعوبت کا شکار ۔ اپنے وطن میں انہیں عیب ہی عیب نظر آتے ہیں۔ اپنی قوم میں اصلاح اور بالیدگی کا امکان دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔ با ایں ہمہ کئی اعتبار سے مولوی حضرات سے وہ بہتر ہیں۔ مثال کے طور پہ اس قدر بغض و عناد وہ ہرگز نہیں پالتے۔ اسّی برس ہونے کو آئے ، غالباً اسلامیہ کالج لاہور کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی نے کہا تھا : کوٹ اور پتلونیں معاف کر دیتی ہیں، جبیّ اور عمامے کبھی نہیں کرتے ۔
ابھی یہ سید صاحب کے سفر کا آغاز تھا ۔ ابھی ان سنگین مراحل سے وہ گزرے نہ تھے ، بعد کو جن کا سامنا ہوا۔ جب انہیں یہودیوں سے بدتر کہا گیا۔
سب دوسرے لوگوں کی طرح خاکسار کو بھی مولوی صاحبان سے واسطہ رہا۔ بھلے آدمی بھی ان میں ہوتے ہیں ۔ ہر کہیں ہوا ہی کرتے ہیں۔ مگر ایک تعداد ایسی ہے کہ جوں ہی اختلاف کی جسارت کی جائے، بلا تاملّ کردار کشی پہ تل جاتے ہیں۔ مبالغہ تو خیر اتنا ہی ان کے لئے روا ہے ، جتنا شاعروں کو ۔ گاہے کذب بیانی پہ اتر آتے ہیں ۔
کوئی آدمی اپنی فطرت میں برا نہیں ہوتا۔ پیدائشی طور پر پہ کوئی پارسا بھی نہیں ہوتا۔ مزید یہ کہ اچھا یا برا کردار علاقوں ، قبیلوں اور گروہوں کا نہیں، فرد کا ہونا ہے۔ بنیادی طور پہ یہ ایک شخصی چیز ہے۔ ہر طرح کے لوگ مولوی صاحبان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ مخلص بھی ، خود غرض بھی ، شاکی بھی ، شکر گزار بھی۔ جزوی طور پر ہی سہی ،ایک استثنیٰ بھی ہے ۔ جب وہ ایک مکتب فکر کے حامل ہوں۔ جب کسی خاص مقصد کے لئے جتھہ وہ بنا لیں تو خیر کی امید ان سے کم ہی رکھنی چاہئے۔ خواہ ان کا تعلق کسی بھی مکتب فکر سے ہو۔
فاطمی سلطنت ہو ، شاہ اسمعیٰل صفوی کا ایران یا افغانستان کے طالبان ، حتیٰ کہ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کا محدود ساراج ، مولوی صاحبان کو جب اور جہاں بھی اقتدار ملا، اختلاف کرنے والوں پہ زندگی کے راستے تنگ ہوتے گئے ۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے باب میں کسی قدر حسن ظن تھا۔ اس دن تمام ہوا جب عمران خان کو پنجاب یونیورسٹی میں انہوں نے مارا پیٹا۔ اوّل یرغمال بنایا، پھر اس قدر توہین کی، زیادہ سے زیادہ اس ماحول میں جتنی وہ کرسکتے تھے ۔ اسی پہ اکتفا نہ کیا ۔ پنجاب پولیس کے حوالے کیا، جو اسے ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ معاملے کے کچھ دوسرے پہلو اور بھی زیادہ اذیت ناک تھے ۔ جس شخص کے ساتھ کمال بدسلوکی کے وہ مرتکب ہوئے، ان کا مخالف نہیں، حلیف تھا۔ عمر بھر کیسی ہی حماقتیں اس نے کی ہوں، مگر جماعت اسلامی اور اس کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی کا حریف وہ کبھی نہ تھا۔ سید صاحب کے باب میں ، اس سے قبل کوئی گستاخی اس نے روا رکھی اور نہ بعد میں۔ رہی سیاست تو وہ ایک دوسری چیز ہے۔ عملاً وہ ایک کاروبار کی طرح ہوتی ہے۔ اصول سے زیادہ اس میں نفع و نقصان کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ نپولین کا وہی قول : سیاست میں حلیف ہوتے ہیں یا دشمن ،دوست کوئی نہیں ہوتا۔
خاکسار نے عمران خان کو مولانا فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد کے ساتھ نہایت خوشگوار ماحول میں بات چیت کرتے دیکھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن اس سے کرکٹ کے بارے میں سوالات کرتے رہے اور کس قدر قاضی صاحب بھی۔ پھر وہ دن بھی دیکھے کہ
گرجے ہیں بہت شیخ سرِ گوشۂ منبر
کڑکے ہیں بہت اہِل حکم سرِ دربار
یہودی کہا ، یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیا۔ اب وہ بدعتی اور مشرک ہے۔ اوریا مقبول جان ان لوگوں کو سمجھانے نکلے ہیں۔ اللہ ان پہ رحم کرے، انہیں خود اپنا فہم روشن کرنے کی ضرورت ہے ۔
صرف چند ایک ہی استثنیٰ ہیں، ایک کا نام ہے اقبال ۔ مولوی ان کا کچھ نہ بگاڑ سکے ، رہے قائد اعظم تو کتنے ہی کٹھ ملاّ ان کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔ ایک تازہ خیال ابھی ابھی دل میں اگا ہے ۔ یہ شان تو فقط مومن کی ہو سکتی ہے کہ زمانے پہ غالب آ جائے ۔
اقبال ؔغالب آئے اور محمد علی جناح بھی ، عجیب تر یہ ہے کہ جوں جوں وقت بیت رہا ہے، اللہ کے دونوں بندوں کی مقبولیت کا دائرہ پھیلتاجا رہا ہے ۔ مگر افسوس کہ کم ہی لوگ غور کرتے ہیں، مگر افسوس !