تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     30-06-2018

سرخیاں‘ متن‘ ٹوٹا اور محمد اورنگزیب

ن لیگ اور اس کے رہنمائوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے: نواز شریف
مستقل نا اہل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''صرف ن لیگ اور اس کے رہنمائوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے‘‘ اگرچہ ایک لحاظ سے تو ٹھیک ہی ہے ‘کیونکہ عرصہ دراز سے ن لیگ ہی بالخصوص پنجاب میں برسر اقتدار چلی آ رہی ہے اور اس دوران جو جو کچھ بھی ہوا ہے‘ اس کا ملبہ اس پر ڈالا جائیگا۔ ورنہ کیا جماعت اسلامی والوں کو نشانہ بنایا جاتا؟ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''دھاندلی کی نئی تاریخ لکھی جا رہی ہے‘‘ اور اس سے بڑی دھاندلی اور کیا ہو سکتی ہے کہ خلائی مخلوق‘ جو ہمیشہ ہمیں کامیاب کرواتی رہی ہے‘ اب اس نے پرائے پُٹھوں کو چن لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دانیال عزیز اور عباسی کی نا اہلی پر افسوس ہوا‘‘ بلکہ عباسی صاحب تو توہین عدالت کیس میں بھی پھنس گئے ہیں‘ اگر پہلی نا اہلی سے بچ گئے‘ تو اس میں دھر لیے جائینگے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
کوئی کہے کہ تم صادق اور امین نہیں ہو‘ یہ باعث شرم ہے: خاقان عباسی
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ''کوئی شخص کہے کہ تم صادق اور امین نہیں ہو‘ یہ باعث شرم ہے‘‘ کیونکہ صادق اور امین نہ ہونا بجائے خود ڈوب مرنے کا مقام ہے ‘لیکن آدمی کہاں کہاں شرم کرتا پھرے‘ کیونکہ اگر سارے کام ہی بے شرمی کے کیے ہوں‘ تو ایک دم تبدیلی کیسے آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''جان بوجھ کر الیکشن کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے ''اور ‘ ہماری یہ کوششیں کامیاب بھی ہوتی نظر آ رہی ہیں ‘کیونکہ ہارنے کے بعد کم از کم یہ تو کہہ سکیں گے کہ الیکشن ہی متنازعہ تھے۔ ہم نے تو ہارنا ہی تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''مجھ سے سوال تو کرو‘ کوئی الزام تو لگائو‘‘ حالانکہ ایل این جی کے گھپلوں پر ہی سینکڑوں سوالات موجود تھے ‘لیکن ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کی یادداشت ہی باقی نہیں رہی ہے اور جس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لوگ ہمارے کارنامے بھی بھول جائیں گے۔ آپ اگلے روز کہوٹہ میں آفتاب کیانی کی رہائش گاہ پر عوامی اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
زرداری نے جیبیں بھرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''زرداری نے جیبیں بھرنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا‘‘ جبکہ ہم نے اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کیا ہے اور آئندہ بھی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں‘ لیکن نیب کی انتقامی کارروائیاں آڑے آ رہی ہیں‘ جس کی باسی کڑھی میں ایسا ابال آیا ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور اب پہچانی ہی نہیں جاتی کہ وہی نیب سے جو ہر کام ہم سے پوچھ کر کیا کرتی تھی‘ بلکہ اب تو کام کرنے کے بعد بھی ہم سے نہیں پوچھتی۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی کی حالت یہ ہے کہ آج ان سے ٹکٹ لینے والا کوئی نہیں‘‘ جبکہ امیدوار دو دو کروڑ لیے ہمارے پیچھے پیچھے پھر رہے ہیں اور ہم انہیں اکاموڈیٹ بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے پاکستان کی حالت تبدیل کر دی ہے‘‘ جسے دیکھ کر سب کو اس پر رحم آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''انشاء اللہ 25 جولائی کو شیر دہاڑے گا‘‘ اور لوگ اپنی جان بچانے کے لیے گھروں کے اندر ہی بیٹھ جائیں گے۔ آپ اگلے روز ماڈل ٹائون سیکرٹریٹ میں کارکنوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
مریم نواز کا مستقبل؟
جس طرح مریم نواز اپنے والد کا مستقبل ہو کر رہ گئی ہیں‘ اسی طرح حمزہ شہباز‘ میاں شہباز شریف کی امیدوں کا واحد مرکز ہیں؛ اگرچہ نواز لیگ کی طرف سے مریم نواز کو الیکشن میں اتارا ضرور جا رہا ہے‘ لیکن اس کا ایک فیصد بھی امکان نہیں کہ ان کے چچا اور کزن ان کی ذرہ بھر مدد کریں گے‘ بلکہ انہیں شکست سے دو چار کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور ہر حربہ استعمال کیا جائے گا‘ کیونکہ مریم نواز کو الیکشن میں کامیاب کرانا ان کے لیے اپنے ہی پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گا۔ وہ سمجھتے اور جانتے ہیں کہ نواز شریف کی گیم اب ختم ہو چکی ہے اور وہ مریم نواز کو کامیاب کروا کر اسے ایک نئی زندگی دینے اور اپنا مستقبل مخدوش کرنے کا راستہ کبھی نہیں اپنا سکتے۔ دوسری طرف یہ بات بجائے خود ایک حقیقت سے کم نہیں ہے کہ ریفرنسز میں نواز شریف کے ساتھ ساتھ مریم نواز بھی اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائیں اور ان کی یہ سر دردی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔ ع
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے 
اور اب آخر میں کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
وہ عجب رہ گزار تھا جس کا
مستحق ہر گزرنے والا تھا
میرے رستے کو کر دیا ہموار
مجھ سے بہتر گزرنے والا تھا
ہم وہی کر نہیں سکے صاحب
کام جو کر گزرنے والا تھا
رات بد مست رہے ثابت و سیار کے ساتھ
صبح ہوتے ہی زمانے کی طرف لوٹ آئے
بھیک اس شہر میں ملنا کوئی آسان نہیں
یعنی مجبور کمانے کی طرف لوٹ آئے
اپنا کردار نبھانے کی تگ و تاز میں زیبؔ
ہم کہانی سے فسانے کی طرف لوٹ آئے
آئنے پر نشان کھینچتی ہے
یہ زمین آسمان کھینچتی ہے
اشک کو دریا بنایا‘ آنکھ کو ساحل کیا
میں نے مشکل کام کو کچھ اور بھی مشکل کیا
کوئی لکنت ہے میرے اشکوں میں
میں تسلسل سے رو نہیں سکتا
کچھ نہ ہونے کی بات کیسے کروں
ہو رہا ہے جو ہو نہیں سکتا (محمد اورنگزیب ‘کراچی)
آج کا مقطع
محبت سر بسر نقصان تھا میرا ظفرؔ اب کے
میں اس سے بچ بھی سکتا تھا‘ مگر ہونے دیا میں نے

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved