تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-06-2018

… کسی ہم دمِ دیرینہ کا ملنا

کل ہم ایک ''ملک‘‘ کی سیر کو گئے۔ یہ سیر ہم نے ایک ایسے دوست کی مدد سے کی‘ جس سے ہماری ''صوتی‘‘ ملاقات کم و بیش 32 سال بعد ہوئی۔ انگریزی میں کہتے ہیں 
Past is another country.
یعنی یہ کہ ماضی محض گزرا ہوا زمانہ نہیں‘ بلکہ ایک الگ ملک کی طرح ہے۔ جب ہم ماضی کی طرف جاتے ہیں ‘تو ایک الگ طرح کے ملک کی سیر کر رہے ہوتے ہیں۔ صوتی ملاقات نے یہی سیر کرائی۔ 
ایس ایس سی‘ یعنی میٹرک کرنے کے بعد 1983ء کے آخر میں ہم نے گورنمنٹ پریمئر کالج میں داخلہ لیا۔ یہ ادارہ کاروباری اور تجارتی امور کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے اُس دَور کے نمایاں ترین اداروں میں سے تھا۔ 
کالج کی زندگی کا ایک الگ لطف ہے۔ یہ لطف ہم نے بھی پایا۔ پریمئر کالج سے بی کام کرنے تک دوستوں کے دو سے زائد گروہوں سے ہم وابستہ رہے۔ پہلے گروہ میں مقصود الحسن‘ عامر پرویز‘ سراج العارفین‘ افتخار‘ اقبال احمد انصاری‘ اقتداء اور دیگر کے ساتھ ساتھ الیاس بھی تھا۔ 
صلاحیت تو خیر سبھی میں تھی۔ اور ہم بھی‘اللہ نظر بد سے بچائے‘ کچھ کم باصلاحیت نہ تھے‘ مگر الیاس ذرا مختلف تھا۔ وہ یوں کہ تعلیم کاروباری اور تجارتی امور کی پارہا تھا‘ کھلاڑی ہاکی کا تھا اور ساتھ ساتھ گانے بجانے کا شوق بھی تھا۔ سب حیران تھے کہ یہ بندہ ہے یا ملغوبہ؟ اور بنے گا کیا؟ سب کی اولین خواہش تو یہ تھی کہ اللہ کا بندہ بن جائے! اس کے بعد جو کچھ بھی ہوگا ‘دیکھا جائے گا۔ 
خیر‘دو دن قبل مقصود الحسن کی وساطت سے خاکسار کا فون نمبر پاکر الیاس نے کال کی۔ ہمیں انتہائی خوش گوار و مسرت آمیز حیرت ہوئی۔ ہونی ہی تھی۔ خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ نے خوب کہا ہے ؎ 
اے ذوقؔ! کسی ہم دمِ دیرینہ کا ملنا 
بہتر ہے ملاقاتِ مسیحا و خِضر سے 
اس شعر کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ اس کا بھرپور لطف وہی لے سکتا ہے‘ جس کا کوئی ہم دمِ دیرینہ کہیں اِدھر اُدھر ہوگیا ہو اور ایک مدت کے بعد اچانک آن ملے۔ ''ٹائم ٹریول‘‘ اور کیا ہوتا ہے؟ انسان کسی بچھڑے ہوئے دوست کو پاکر پلک جھپکتے میں کئی گزرے ہوئے زمانے پھلانگتا ہوا‘ کسی ایسے زمانے میں پہنچ جاتا ہے ‘جس میں وہ اور دوست بہم رہے ہوں۔ 
الیاس نے کال کیا کی‘ کئی زمانوں سے گزرنے پر مجبور کردیا۔ ہم چشم زدن میں 1985 کے کراچی میں پہنچ گئے۔ تب کراچی کے حالات میں بگاڑ کا پیدا ہونا ابھی شروع ہوا تھا۔ سیاسی اُتھل پُتھل کے باوجود وہ دَور سنہری یادوں کا خزانہ ہے۔ مقصود‘ الیاس‘ اقبال انصاری‘ عامر پرویز اور سراج العارفین کے ساتھ گزارا ہوا‘ وہ زمانہ آج بھی حافظے کی دیواروں پر اَنمٹ نقوش کے مانند ثبت ہے۔ الیاس کی آواز سنتے ہی دل کی وہ حالت ہوئی کہ بیان کرنا چاہو‘ تو بیان نہ ہو پائے۔ ع 
آج کئی کہانیاں یاد سی آگے رہ گئیں 
اور جناب‘ بہت سی کہانیاں اس بات کی محتاج ہی کب ہوتی ہیں کہ اُنہیں بیان کیا جائے۔ کہانی تو وہی ہے‘ جو بے کہے بیان ہو اور بیان کرنے کی کوشش کیجیے تو اَن کہی رہ جائے! اور پھر کہانیاں بھی اُس دورِ عمر کی کہ جب رگوں میں دوڑنے والا خون گرمی اور جوش سے یوں عبارت ہوتا ہے کہ ہر بات اچھی لگتی ہے‘ ہر معاملہ لطف دیتا ہے‘ ہر تعلق زندگی سا ہوکر وجود کا حصہ بننے لگتا ہے۔ 
کسی بھی تعلق سے کشید کیا جانے والا لطف دراصل اُس تعلق کی نوعیت پر منحصر ہے۔ دوستی البتہ ایسا تعلق ہے جو تعقل‘ منطق‘دلائل اور جواز سے پرے ہے۔ بچپن کے بعد لڑکپن اور پھر اُٹھتی جوانی کی دوستیاں زندگی بھر ساتھ رہتی ہیں‘ ساتھ دیتی ہیں۔ جب بھی دل گھبرائے‘ کسی دیرینہ رفیق سے مل لیجیے۔ اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو یاد ہی کرلیجیے۔ گھبراہٹ‘ پریشانی اور الجھن یوں ہوا ہوجائے گی‘ گویا تھی ہی نہیں۔ 
الیاس اسلام آباد میں ہے اور وہاں اسٹیٹ ایجنٹ کا کام کر رہا ہے۔ ہم estate کی بات کر رہے ہیں‘ آپ کہیں state نہ سمجھ لیجیے گا! اللہ بھلا کرے اس بندے کا کہ اس کی معرفت ''پریمیرینز‘‘ کے واٹس ایپ گروپ تک رسائی ہوئی۔ دوستوں نے ہیلو ہائے‘ مبارک سلامت کی بوچھار کردی۔ ہمارا تو حال مت پوچھیے۔ ایسے نہال ہوئے کہ بس۔ 
کالج کا زمانہ رنگ برنگے سپنوں سے عبارت ہوتا ہے‘ جو سبھی کی آنکھوں میں سجے رہتے ہیں۔ خدا جانے کیا کیا بننے کی تمنا دل میں انگڑائیاں لیتی رہتی ہے۔ ''پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا‘‘ والا معاملہ دل و دماغ پر تھوڑا بہت دباؤ یا بوجھ ضرور ڈالتا ہے‘ مگر پاپاؤں کی ہر خواہش تو پوری ہو نہیں سکتی‘ جس نے یہ کائنات خلق کی ہے‘ اُسے بھی کچھ کرنا ہوتا ہے۔ جوڑوں کی ترتیب و تشکیل کی طرح نئی نسل کو کیا بننا ہے‘ اس کا فیصلہ بھی آسمانوں پر ہوتا ہے۔ اور آسمانوں کا ہر فیصلہ ہماری مرضی سے کہیں زیادہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ اللہ ہمارے حق میں کیا چاہتا ہے۔ 
کالج کے زمانے میں سبھی کچھ نہ کچھ بننا چاہتے تھے۔ ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ دِلی خواہش ‘اگر پوری ہوئی تو صرف خاکسار کی۔ ہم نے سوچے سمجھے بغیر کامرس کالج میں داخلہ لے لیا تھا۔ ذہن میں صحافت تھی۔ لکھنے لکھانے کا شوق بہت چھوٹی عمر سے تھا۔ کالج میں لی جانے والی کلاسز میں ڈیبٹ کریڈٹ‘ ٹرائل بیلنس‘ انکم اسٹیٹمنٹ اور بیلنس شیٹ‘ مینجمنٹ اور آڈیٹنگ سے متعلق دی جانے والی تعلیم کے دوران ہم کچھ نہ کچھ سوچتے رہتے تھے۔ ذہن میں نئے موضوعات ابھرتے رہتے تھے۔ اور ہم نے فرسٹ ایئر ہی سے اخبارات میں لکھنا شروع کردیا تھا۔ کراچی کے موقر روزناموں نے شوقِ پرواز کو کھلی فضاء فراہم کی۔ 
کالج کے زمانے کے دوستوں سے رابطہ ہوا‘ تو سب نے اپنے اپنے ''کیریئر‘‘ کے بارے میں بیان کیا۔ اجتماعی رائے یہ رہی کہ سبھی کسی نہ کسی حوالے سے کامیاب رہے ہیں اور اچھی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ہم نے بھی کبھی نہیں سوچا کہ اللہ نے ہمیں ہماری مرضی کے مطابق نہیں نوازا۔ حق یہ ہے کہ ہم نے قرطاس و قلم کو اپنانے کی خواہش کی تھی اور یہ خواہش یوں پوری ہوئی کہ مزید کچھ چاہنے کا خیال تک ذہن کے پردے پر نمودار نہیں ہوا۔ کالم نگار یا لکھاری بننے کی خواہش تھی سو پوری ہوئی۔ کامیابی اور کیا ہوتی ہے! 
مقصود الحسن اور الیاس سے ملاقات کب ہو پاتی ہے کچھ پتا نہیں۔ تب تک صوتی ملاقاتوں پر گزارا ہے۔ الیاس سے ملنے کی بڑی خواہش ہے۔ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ اُس میں پہلے سُر اور تال باقی ہے یا پھر وہ ڈی کے باہر ہی فاؤل کر بیٹھا ہے! مقصود الحسن کا بھی شکریہ کہ اُن کی بدولت ہم اہلِ خانہ کے سامنے سُرخ رُو ہوئے۔ اب ہم سینہ تان کر کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ایک دوست ہیوسٹن‘ امریکا میں آباد ہے! فی زمانہ وہی پاکستانی اہلِ خانہ کی نظر میں سربلند ہے‘ جس کا کوئی دوست امریکا میں ہو اور بُھولا بھی نہ ہو!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved