تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     30-06-2018

رجب طیب اردوان کی فیصلہ کُن فتح

سلطنتِ عثمانیہ کے زوال اور مصطفی کمال اتاترک کے ترکی کو سیکولر ریاست قرار دینے اور اسلامی شعائر کو مٹانے کی ہر ممکن سعی کرنے کے سو سال کے اندر ترکی نے کروٹ بدلی ہے اور اگرچہ آج بھی آئینی اعتبار سے ترکی ایک سیکولر اسٹیٹ ہے ‘لیکن عملاً سیکولرازم کی گرفت کمزور پڑ رہی ہے اور مذہب کی گرفت روز بروز مضبوط ہورہی ہے، تبدیلی کے آثار ''دیدۂ کور ‘‘کے علاوہ سب کو نظر آتے ہیں ۔ رجب طیب اردوان نے استنبول کی میئر شپ کے دوران اپنی کارکردگی سے لوگوں کو متاثر کیا اور پھر وہ ملک کی وزارتِ عظمیٰ اور صدارت کے منصب تک پہنچے اور اپنے راستے کی ہر رکاوٹ کو کامیابی سے عبور کرتے چلے گئے ‘اُن پر آخری وار فوجی بغاوت تھی‘ جس پر انہوں نے عوام کی اپنی ذات اور جمہوریت سے والہانہ وابستگی کے طفیل قابو پالیا‘ لوگ بے اختیار گھروں سے نکل آئے اور فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور فوجی اپنے عوام کے سامنے بے بس ہوگئے۔ ترکی میں سیکولرازم کی کسٹوڈین فوج اور عدالت تھی ۔ انہوں نے آخرکار ان اداروں پر قابو پالیا اور انہیں جمہور اور جمہوریت کے تابع کردیا۔بزعمِ خویش ترکی کے ایک مُصلح رہنما فتح اللہ گولن نے پہلے رجب طیب اردوان کا ساتھ دیا اور پھر اُن کے مخالف ہوگئے ۔انہوں نے اعلیٰ معیار کے تعلیمی اداروں کا جال پھیلا کر ایک پوری نسل تیار کی اور اُسے فوج ،عدلیہ اور انتظامیہ میں کامیاب حکمتِ عملی کے تحت داخل کردیا‘ تاکہ جب وہ کوئی اقدام کریں‘ تو ریاست کے تمام ستون اُن کے ہم آواز ہوں‘ لیکن رجب طیب اردوان نے اُن کی ''حزمت تحریک‘‘ کو بھی قابو کرلیا ۔
انہوں نے ملک کو پارلیمانی نظام سے ایسے صدارتی نظام میں تبدیل کردیا ہے ‘ جس میں صدر کا منصب بہت سے اختیارات کا حامل ہے اور اب وہ نظام میں جو بھی اصلاحات لانا چاہئیں‘اُن کی راہ میں بظاہر کوئی آئینی اور قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔قریباً تریپن فیصد ووٹ لے کر وہ پہلے ہی مرحلے میں صدارتی انتخاب جیت چکے ہیں اور اُن کے قریب ترین حریف محرم اِنجے کے حاصل کردہ ووٹ اُن سے بیس فیصد کم ہیں اور انہوں نے کھلے دل سے اپنی شکست کو تسلیم کرلیا ہے۔مغربی میڈیا رجب طیب اردوان کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان برپا کیے ہوئے تھا اورمغرب کی آنکھ گہری نظر سے ان انتخابات کا جائزہ لے رہی تھی ‘ لیکن انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے کوئی بڑا الزام سامنے نہیں آیا۔اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ یہ انتخاب صاف اور شفاف تھے۔رجب طیب اردوان نے اپنے آپ پر اور اپنے عوام پر اعتماد ہی کے سبب ایک سال پہلے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات منعقد کرادیے اور ترک عوام نے انہیں اس اعتماد میں سرخرو کردیا۔ یہ غیر معمولی واقعہ ہے ۔رجب طیب اردوان اور اُن کے خاندان پر بدعنوانی کے الزامات بھی لگے۔ہم پاکستان میں بیٹھ کر اُن الزامات کی نفی یا اثبات نہیں کرسکتے ‘لیکن ترک عوام نے اُن الزامات کو یکسر اہمیت نہیں دی اور اپنا فیصلہ اُن کے حق میں صادر کردیا ۔اس سے معلوم ہوا کہ عوام کی نظر میں ترجیح الزامات کو حاصل نہیں ہوتی ‘ بلکہ عوام یہ دیکھتے ہیں کہ کسی کا اقتدار اُن کے لیے فیض رساں ہے یا نہیں‘جسے ہمارے ہاں سیاسی اصطلاح میں ''Delivery‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔سو بلامبالغہ کہاجاسکتا ہے کہ رجب طیب اردوان نے نہ صرف اپنے وطن کے اندر اپنے حریفوں کو شکست دی‘بلکہ اہلِ مغرب کے میڈیا اور اُن کی امنگوں کو بھی شکست دی‘ جبکہ ترکی مغرب کا ہمسایہ ہے اور جزوی طور پر یورپ کا حصہ بھی ہے۔
ترکی کی معیشت بیمار تھی ‘ترک کرنسی (سکہ ٔ رائج الوقت )لیرا‘بے توقیر تھا۔ ''لِیر‘‘یعنی کپڑے کے چھوٹے ٹکڑے یا چیتھڑے کو کہتے ہیں ‘ سوترک لیرا ‘ اپنی بے توقیری کے سبب لیر لیر تھا‘یعنی درزے کے کپڑے کے پھینکے ہوئے کترن کی طرح تھا‘مگر رجب طیب اردوان نے ترکی کی معیشت کو مستحکم کیا ۔اپنی کرنسی کو باوقار بنایا ‘آئی ایم ایف کے چنگل سے ملک کو نکال دیا اور آئی ایم ایف سے اُن کی شرائط پر کچھ لینے کی بجائے انہیں کچھ دینے کی پیشکش کردی ‘ملک کو جی ٹونٹی یعنی دنیا کی بیس بڑی معیشتوں کا رکن بنادیا اور اب انہوں نے اپنا ہدف اُس سے بہت بلند مقرر کیا ہے ۔2008ء میں عالمی معیشت کو جو دھچکا لگا ‘تو امریکہ ویورپ سمیت دنیا کے اکثر ممالک کی معیشتیں ڈانواں ڈول ہوگئیں‘ لیکن ترکی اس سے متاثر نہیں ہوا ۔ہمارے وطنِ عزیز کے بعض لبرل دانشور‘ جو ترکی کے دورے کرچکے ہیں ‘بھی فتح اللہ گولن کے اسیر ہیں ‘لیکن ہمارے لیے حیرت کا باعث یہ امر ہے کہ وہ امریکہ میں عیش وعشرت کے ماحول میں رہ رہے ہیں ‘اپنے لوگوں کے درمیان ترکی میں موجود نہیں ہیں اور امریکہ ومغرب اُن کے پشتیبان ہیں ‘ سو اہلِ مغرب جس کے پشتیبان بن جائیں ‘وہ مسلمانوں کا رول ماڈل یا مثالیہ (Hero)کیسے قرار پاسکتا ہے ؟اسی لیے ترکی میں فتح اللہ گولن کی فکر کے حامیوں کو ''گولنسٹ‘‘کہاجاتا ہے ‘تاہم لمحہ ٔ موجود میں رجب طیب اردوان نے اپنے تمام داخلی اور خارجی مخالفین پر فتح پالی ہے‘ مستقبل کے پردوں میں کیا مستور ہے‘ غیب کا علم اللہ کے پاس ہے۔
ترک چونکہ ایک قوم ہیں اور ترک قوم البانیہ سے لے کر سنکیان تک پھیلی ہوئی ہے ۔جغرافیائی اعتبار سے بھی ملک اور علاقے آپس میں مربوط ہیں‘ لہٰذاعالمی سیاست میں ترکی کی برتری کے امکانات (Potential)اور مواقع(Opportunities) موجود ہیں۔ترکی ہر سال نمازِ تراویح کی امامت کے لیے قریباً ایک ہزار بہترین حفاظ و قراء کرام یورپ اور ایشیائے وُسطیٰ کے ممالک میں اپنے خرچ پر بھیجتا ہے اور یہ اُن خطوں کے ساتھ مذہبی رشتے استوار کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے ۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد سلفیوں نے ایشیائے وُسطیٰ کے ممالک میں نفوذ کی کوشش کی ‘ لیکن چونکہ وہ سرمائے کے بل پر اپنی فکر اور مذہبی نظریہ بھی برآمد کرتے ہیں اوراُس زمانے میں جہاد اور سلفیت لازم وملزوم تھے‘اس لیے وہاں کے حکمران اس سے بدک گئے‘ الرجک ہوگئے اور اس کا نقصان یہ ہوا کہ انہوں نے تمام مذہبی طبقات پر پابندی عائد کردی ۔ازبکستان میں اٹھارہ سال تک کے نوجوانوں کا مساجد میں داخلہ بند کردیا گیا‘لیکن ترکی کے اثرات کے پھیلائو میں ایسی کوئی بات حائل نہیں ہے اورترک نسل کے تمام خطے مسلکاً حنفی ہیں ‘ اس لیے مسلکی خلافیات کے خدشات بھی کم ہیں ؛اگرچہ سلفی اپنے انداز میں اپنے نظریات کے حامل لوگ ہرجگہ حکمت وتدبیر کے ساتھ تیار کرتے رہتے ہیں ۔
رجب طیب اردوان نے نرسری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک معیاری تعلیم کو عام کیا اور معاشرے کے زیریں طبقات کے لیے اعلیٰ تعلیم کے دروازے کھول دیے ‘سب کو یکساں علاج کے مواقع فراہم کیے ہیں ‘ترک عوام کی اوسط آمدنی میں اضافہ ہوا ہے ۔ داخلی امن وامان کی وجہ سے ترکی کی قومی آمدنی کا ایک بڑا حصہ سیاحت ہے ۔دنیا بھر سے وہاں سیاح آتے ہیں اور اُن کے ذریعے سیاحت ‘ ہوٹلنگ ‘ مترجمین (Interpreters)اورکاروباری طبقات کے لیے مواقع پیدا ہوتے ہیں ۔ رجب طیب اردوان شام کے قضیے میں بھی کافی حد تک ملوث ہیں ‘انہوں نے شامی مہاجرین کا بوجھ بھی اپنے سر لے رکھا ہے اور اس حوالے سے وہی کردار ادا کر رہے ہیں‘ جو پاکستان نے جہادافغانستان کے زمانے میں ادا کیا تھا اور جس کے اثرات سے ہم ابھی تک نکل نہیں پائے ‘مجھے خدشہ ہے کہ کہیں ترکی بھی اس حوالے سے ایک ناقابلِ حل صورت سے دوچار نہ ہوجائے‘ترکی کے لیے کردوں کا مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے اور اب بھی ہے ۔طیب اردوان پر آمریت اورشخصی نمودکا بھی الزام لگایا جاتا ہے ‘کہاجاتا ہے کہ میڈیا بھی پوری طرح آزاد نہیں ہے‘لیکن بعض اوقات خیر غالب برائیوں پر پردہ ڈال دیتی ہے اور شاید جناب طیب اردوان کے حق میں بھی ایسا ہی ہورہا ہو۔
جنابِ طیب اردوان مسلم دنیا کے واحد حکمران ہیں کہ جنہوں نے حالیہ برسوں میں امتِ مسلمہ کے مظلومین کے حق میں توانا آواز بلند کی ہے اور اس ضمن میں امریکہ اور مغرب کی ناراضی کی پروا نہیں کی‘ یہی وجہ ہے کہ مسلمانانِ عالَم انہیں احترام اور محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں ‘وہ ایک علامت اور استعارہ بن چکے ہیں ‘کیونکہ مسلم دنیا میں کوئی بھی اس حوالے سے اُن کا ہمسر اور نظیر نہیں ہے ۔ظاہر ہے اتنی واضح اور جارحانہ خارجہ پالیسی وہی رہنما اختیار کرسکتا ہے‘ جو عزیمت واستقامت اور قوتِ ایمانی سے معمور ہو ‘ورنہ مصلحت اندیش حکمران ہمیشہ امریکہ اور مغرب کے زیرِ اثر رہتے ہیں ‘انہیں نہ مغربی آقائوں کے حضور پذیرائی ملتی ہے اور نہ ہی مسلمانانِ عالَم کے دل میں وہ محبت واحترام کی جگہ بنا پاتے ہیں ۔کسی ملک کے حالات کی مکمل حقیقی اور ہر لحاظ سے جامع تصویر وہی پیش کرسکتا ہے ‘ جو ملک کے اندر جائے‘ عام آدمی اور تمام طبقات سے گھل مل جائے اور ان کے دل ودماغ میں اتر کر احوال سے آگاہی حاصل کرے۔ ہمارے سامنے میڈیا کے ذریعے جو تصویر آتی ہے‘ہم اُسی پر قناعت کرنے پرمجبور ہیں ۔میں بارہا لکھتا رہا ہوں کہ دنیا کو ہم پر اعتبار نہیں ہے ۔اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ فائننشل ایکشن ٹاسک فورس ‘جس میں ہمارے دوست ملک بھی شامل ہیں ‘نے ہمیں گرے لسٹ میں ڈال دیا ہے ‘یعنی ہم نے اپنے کردار کے بارے میں جتنی صفائی پیش کی۔انہوں نے اسے پذیرائی نہیں بخشی ‘ہم پر اعتبار نہیں کیا ‘بلکہ ہمیں مشتبہ قرار دیا ہے؛ تاوقتیکہ ہم اپنے عمل سے اپنے آپ کو لگائے گئے الزامات سے پاک صاف ثابت نہ کردیں۔
سرِدست آپ اپنے وطن ِ عزیز میں منعقد ہونے والے ''شفاف اور غیر جانبدار‘‘انتخابات کا لطف اٹھائیے‘ نظارا کیجیے‘اس کی ضمانت نگراں حکومت ‘مقتدر اداروں اور عدلیہ نے دے رکھی ہے ۔یہ شش‘ بلکہ ہشت جہات سے شفاف ہیں ،سب چیز ہرجانب سے آر پار شفاف نظر آرہی ہے۔ ممدوحِ ملت شیخ رشید نے پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار پولنگ کا وقت رات بارہ بجے تک اور پی ٹی آئی نے رات آٹھ بجے تک بڑھا نے کا مطالبہ کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور ہم نے رات کو پردہ پوش بنایا ہے‘‘ (النبا:10)۔سو ‘رات کی پردہ پوشی میں مثبت نتائج کے امکانات مزید روشن ہوجائیں گے‘کیونکہ اچانک بجلی غائب ہونے پر تو سب کو یقین ہے۔

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved