تھامسن رائیٹرز کے نئے سروے کے مطابق بھارت اس وقت دنیا بھر میں خواتین کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ملک ہے۔ دوسرے نمبر پر افغانستان جبکہ تیسرے نمبر پر صومالیہ ہے جہاں جنگوں اور ریاستی ٹوٹ پھوٹ کے بد ترین اثرات خواتین پر مرتب ہوئے ہیں۔ سعودی عرب پانچویں جبکہ پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت میں خواتین کی زندگی اور عز ت کو سنگین خطرات لاحق ہیں‘ لیکن اِس جبر و تشدد کا اصل نشانہ غریب اور محنت کش طبقات کی خواتین ہیں جنہیں نہ صرف جنسی بلکہ معاشی و سماجی جبر و استحصال کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ اِن خواتین کو اذیت ناک محرومی‘ تلخ مشقت اور غلامی جیسے حالاتِ زندگی میں دھکیل دیا گیا ہے۔ دہلی کو تو گزشتہ کئی سالوں سے 'جنسی بلادکار کا دارالحکومت‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے ''بھارت میں خواتین کی بے عزتی‘ سماجی ذلت‘ ان پر جنسی حملے‘ ان کو ہراسان کیا جانا‘ پیدائش سے پہلے بچیوں کا اسقاطِ حمل اور چھوٹی عمر میں قتل بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہیں... دنیا کی تیز ترین ترقی کرتی یہ معیشت جہاں اب خلائی ٹیکنالوجی کی طرف بڑھ رہی ہے وہاں خواتین پر یہ تشدد (حکومت کے لئے) باعث شرم ہے‘‘۔ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2007ء سے 2016ء تک خواتین کے خلاف جرائم میں 83 فیصد اضافہ ہوا۔ بھارت میں ہر ایک گھنٹے میں جنسی زیادتی کی چار وارداتیں ہو رہی ہیں‘ اور یہ صرف وہ کیس ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں۔
14 اور 15 اگست کی درمیانی رات نہرو نے جو ''آزادی‘‘ کی تقریر کی تھی اس میں مقدر پر حاوی ہونے کا عندیہ دیا گیا تھا۔ اس دوران جہاں لاکھوں معصوم انسانوں کا قتلِ عام ہو رہا تھا وہاں بے شمار خواتین کی عزتیں بھی پامال کی جا رہی تھیں۔ زندہ بچ جانے والیوں کی اکثریت عمر بھر کے لئے نفسیاتی طور پر مجروح ہو گئی۔ لیکن جنون اور رجعت گزشتہ 71 سالوں میں کم ہونے کی بجائے دونوں طرف زیادہ وحشت ہی اختیار کرتی گئی ہے۔ یہ اِن حکمران طبقات اور ان کے بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کی گزشتہ سات دہائیوں کی کارکردگی کا جمع حاصل ہے۔ پورا جنوبی ایشیا اِس مذہبی و فرقہ وارانہ جنون کے سماجی‘ اخلاقی اور سیاسی جبر سے کراہ رہا ہے۔
انقلابِ روس کے قائد لیون ٹراٹسکی نے واضح کیا تھا کہ ''ماں کسی بھی معاشرے کا سب سے کلیدی نقطہ ہوتی ہے جہاں تمام رشتے اور سماجی عوامل ایک دوسرے سے ملتے اور بچھڑتے ہیں۔ اس لئے جس معاشرے میں ماں آزاد نہ ہو وہ کبھی سہل‘ مستحکم اور آزاد نہیں ہو سکتا‘‘۔ اِس حقیقت کے تناظر میں مذکورہ بالا سماج کس حد تک انسانی ہیں‘ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ بالخصوص بھارت اور بالعموم پورے جنوبی ایشیا کی بات کی جائے تو خواتین کی حالت اس لئے بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے کہ یہاں کے حکمران طبقات اِن ممالک کو ترقی دے کر جدید‘ ترقی یافتہ اور خوشحال سماجوں میں نہیں ڈھال سکے۔ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی رکھنے والے اِن خطوں میں دنیا کی آدھی غربت پلتی ہے۔ بھارت‘ جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت قرار دیا جاتا ہے‘ دنیا کی سب سے وسیع غربت کا گڑھ بھی ہے۔ بھارت کی نام نہاد ترقی نے وہاں کے محنت کشوں کو مزید مفلوک الحال ہی کیا ہے۔ جبکہ اسی دوران وہاں جاپان سے بھی زیادہ ارب پتی پیدا ہوئے ہیں۔ سرمایہ داری کے تحت جس ہندوستان کے بلند معاشی گروتھ ریٹ کا چرچا کیا جاتا ہے وہاں آدھی آبادی آج بھی بجلی اور بیت الخلا سے محروم ہے اور تقریباً 90 کروڑ لوگ کسی نہ کسی سطح پر غربت کا شکار ہیں‘ لیکن پہلے سے محرومی کی اذیتوں سے دوچار اِن کروڑوں محنت کش خاندانوں میں عورت دوہرے تہرے استحصال کا شکار ہو جاتی ہے۔
جب سماج آگے نہیں بڑھ پا رہے ہوتے اور محنت کشوں کی تحریکیں ابھر نہیں رہی ہوتیں یا ابھر کر بھی قیادت کے فقدان سے پسپائی سے دوچار ہو جاتی ہیں تو ایسے حالات میں سوچوں اور رویوں پر مایوسی اور پراگندگی حاوی ہو جاتی ہے‘ جو اپنا اظہار کئی دوسری رجعتی شکلوں کے علاوہ مردانہ شائونزم کے رویوں میں بھی کرتی ہے۔ یہ نفسیات محنت کش مردوں میں بھی سرایت کر جاتی ہے اور وہ اپنی فرسٹریشن خواتین پر نکالتے ہیں۔ پدرسری معاشروں کے یہ قدیم رجحانات جب جدید دور میں عود کر آتے ہیں تو زیادہ ہولناک شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ سماج جب تعفن کا شکار ہو جائیں تو جنسی ہوس بھی سنگین کیفیت اختیار کر جاتی ہے۔ یہ کیفیت صرف جنسی ہراسانی اور ریپ ہی نہیں بلکہ خواتین سے متعلقہ گندی گالیوں اور غلیظ لطیفوں تک کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ پھر سرمایہ داری کی منافع خوری کے اپنے ہتھکنڈے بھی ہیں جہاں محنت کش خواتین کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے اور انہیں مردوں کے مقابلے میں کم اجرتیں دی جاتی ہیں۔ اس سے عورت کی سماجی حیثیت مزید گر جاتی ہے۔
ان حالات میں دنیا کی سب سے بڑی حقوقِ نسواں (Feminism) کی تحریک بھی بھارت میں چل رہی ہے۔ اس کے باوجود خواتین کی حالت بد سے بدتر ہی ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آزادیٔ نسواں کے معاملے کو مروجہ سماجی و معاشی نظام کے تضادات‘ سماج کی عمومی بد حالی اور طبقاتی جبر و استحصال سے کاٹ کر محض جنسی بنیادوں تک ہی محدود کر دیا جاتا ہے۔ فیمنسٹ تحریک کی علم بردار خواتین بھی زیادہ تر بالا دست طبقات اور بالائی متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ نہ تو مروجہ طرزِ پیداوار (نظام) کی بنیادوں کو چیلنج کرتی ہیں نہ ہی بالعموم ان ایشوز پر بات کرتی ہیں جو محنت کش طبقات کی خواتین کو درپیش ہوتے ہیں۔ امیر طبقات کی خواتین کے مسائل وہ ہو ہی نہیں سکتے جن کا شکار محروم طبقات کی خواتین ہوتی ہیں۔ جنوبی ایشیا میں نصف سے زائد خواتین آئرن اور وٹامنز کی کمی کا شکار ہیں۔ دوسری طرف مکیش امبانی کی بیوی کے لئے سونے اور ہیروں سے خصوصی طور پر تیار کیا گیا موبائل فون پچھلے دنوں بھارتی میڈیا کی شہ سرخیوں میں رہا جس کی قیمت کا تخمینہ 48 ملین ڈالر (315 کروڑ بھارتی روپے) لگایا گیا ہے۔ اس کی بیٹی نے پچھلے دنوں ایک پارٹی میں 98 کروڑ کا لباس زیب تن کر رکھا تھا۔ کیا یہ خواتین کبھی اس استحصالی نظام کا خاتمہ چاہ سکتی ہیں جس نے کروڑوں دوسری خواتین کو مناسب خوراک‘ صاف پانی اور علاج جیسی بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم کر رکھا ہے؟ امبانی فیملی نے بے شمار محنت کش مرد و خواتین کے استحصال سے جو بے حساب دولت اکٹھی کی ہے‘ اس میں سے وہ 'ریلائنس فائونڈیشن‘ کے تحت خیراتی کام بھی بہت کرتے ہیں! اس فائونڈیشن کی بانی اور سربراہ بھی نیتا امبانی صاحبہ ہی ہیں۔ 'مخیر‘ خواتین و حضرات کی یہ واردات ہر جگہ ہی موجود ہے۔ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی پارلیمانی نشستوں سے لے کر سرکار اور کاروبار کے عہدوں تک سب مراعات امیر خواتین کو ہی ملتی ہیں۔ کوٹے بھی اسی بالا دست طبقے کی خواتین کے کام آتے ہیں۔ محنت کش طبقے کی خواتین کی کہیں کوئی نمائندگی‘ کوئی شنوائی نہیں ہے۔
جہاں خواتین کی مجبوری اور ہر طرح کے استحصال کو صرف طبقاتی بنیادوں تک محدود کرنے کی سوچ درست نہیں ہے وہاں صرف مردوں کے خلاف مہمات چلا کر بھی خواتین کی آزادی اور نجات ممکن نہیں ہے۔ مروجہ سرمایہ دارانہ نظام کے ڈھانچوں اور اس کے ارتقا کے ناگزیر سماجی و ثقافتی مضمرات کو سمجھ کر ہی آزادیٔ نسواں کی جدوجہد کے لئے کوئی درست راستہ اور لائحہ عمل مرتب کیا جا سکتا ہے۔ اس جستجو کو سارے سماج کو یکسر بدل دینے کی انقلابی جدوجہد کے ساتھ جوڑ کر ہی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اور ضروری نہیں کہ انقلابی تحریکوں کی قیادت صرف مرد ہی کریں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انقلابِ فرانس سے لے کر انقلابِ روس تک میں محنت کش طبقات کی خواتین نے ہراول کردار ادا کیا ہے۔ انقلابی تحریکوں کی قیادت میں خواتین کی بھرپور شمولیت ہی انہیں فتح یاب کر سکتی ہے۔