تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     01-07-2018

رام پور ‘ کشن گنگا اور چیف جسٹس

چیف جسٹس جناب جسٹس میاں ثاقب نثار نے 28 جون کو ملک میں پانی کی کمی کے حوالے سے کالا باغ ڈیم پر جو کچھ کہا‘ وہ ان کی ہی نہیں بلکہ ہر اُس پاکستانی کے دل کی آواز ہے‘ جو ملک میں سستی بجلی اور ہر گھر میں ضروریات کے لیے صاف ستھر ے ا وروافرپانی کی سپلائی چاہتا ہے‘ جو پاکستان میں فیکٹریاں‘ کارخانے ا ور پر رونق بازار دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن ہوا یہ کہ جیسے ہی چیف جسٹس آف پاکستان نے کالا باغ ڈیم کی بات کی تو وہ عالمی ساہوکار‘ جن کے اس ملک میں فرنس آئل سے چلنے والے اور ہوش اڑا دینے والے بلوں کا باعث بننے والے پاور ہاوسز ہیں‘ کالا باغ کا نام سنتے ہی تڑپ کر رہ گئے ؛چنانچہ چیف جسٹس صاحب کے خلاف سوشل میڈیا مہم میںیک لخت اس قدر تیزی دیکھنے میں آ رہی ہے کہ لگتا ہے پانی سے بجلی پیدا کرنے کے کسی منصوبے کو روکنے کے لیے بھارت سمیت تمام ملکی اور غیر ملکی دشمن طاقتوں نے بوریوں کے منہ کھول دیئے ہیں۔ یہ تو ابھی ابتدا ہے۔ چیف جسٹس صاحب کو اس سے بھی زیا دہ تنقید کے لیے تیار رہنا ہو گا۔جناب چیف جسٹس پر تنقید کرنے والے حضرات کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ 21ستمبر 2017ء کو تامل ناڈو‘ کرناٹک ‘ کیرالہ ‘ پانڈے چری اور شلانگ کے درمیان بہنے والے Kaveri River پر بھارت کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے دیئے گئے احکامات سامنے رکھیں۔ 
سب سے زیادہ حیران کن وہ اطلاع تھی کہ نواز لیگ تو ایک طرف پی پی پی کی جانب سے بھی کہا جا رہا ہے کہ چیف جسٹس کا کالا باغ ڈیم یا پانی سے کیا واسطہ‘یہ کوئی چیف جسٹس کا کام تھوڑی ہے کہ وہ ایسے معاملات میں دخل اندازی کریں۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم گزشتہ کئی برس سے کراچی میں پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہوئے شہریوں کو نہیں دیکھ رہے؟کیا عدلیہ کے جج صاحبان کی آ نکھیں اور کان نہیں ہوتے کہ وہ اس طرح کے قومی معاملات سے لاتعلق بیٹھے رہیں؟اگر گزرے کل کا چیف جسٹس سموسہ دو روپے مہنگا ہونے پرسووموٹو نوٹس لے سکتا ہے تو آج کا چیف جسٹس مہنگی بجلی‘ مہنگے پٹرول اور پانی کے لیے ترستے ہوئے لوگوں کی پکار سن کر کیسے چپ رہ سکتا ہے۔محض لفاظی نہیں بلکہ تصدیق کی جا سکتی ہے کہ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے حلقے میں منچھر جیل سے چند کلو میٹر پر واقع گوٹھوں کے لوگ اپنے مُردوں کو صاف پانی سے غسل دینے کے لیے شہروں سے پانی لے کر آتے ہیں‘ ( ہمارے حکمرانوں کو شرم آنی چاہئے)۔
آج بگلیہار سے وولر بیراج اور کشن گنگا سے رام پور پاور ہائوسز تک بھارت کی ہر قانون شکنی اور ہٹ دھرمی کے خلاف پوری قوم ایک آواز ہیں ‘ہم سب کو مشرقی پنجاب میں اکالی دل کے جلسے میں نریندر مودی کا وہ خطاب کبھی نہیں بھولنا چاہیے‘ جس میں اس نے کہا تھا کہ وہ پاکستان کو پانی کے ایک ایک قطرے سے محروم کر کے رہے گا۔تو کیا مودی کے یہ الفاظ جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے نہیں سنے ہوں گے؟انہوںنے اگر پاکستان کو درکار پانی کی طرف توجہ دی ہے تو انہیں ارسا اور سندھ طاس منصوبے کی جانب بھی توجہ دینی ہو گی‘ جس کے ضامن عالمی بینک کے چیف ایگزیکٹو آفیسر اور پاکستان کے اعلیٰ اختیاراتی وفد کے درمیان21 مئی2018 ء کوکشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پاور اور رام پور الیکٹرک پاور کی تعمیر پر پاکستان کے تحفظات پر تفصیل سے بات چیت کی گئی اور پاکستان کی جانب سے دیئے جانے دلائل سننے کے بعد عالمی بینک نے پاکستان کے اٹارنی جنرل کو لکھے جانے والے خط میں دو شرائط یا دو تجاویز پیش کرتے ہوئے پاکستان سے اس کی حتمی رائے طلب کی ۔
اگرچہ نریندر مودی کشن گنگا کے پہلے مرحلے کا چند روز ہوئے افتتاح بھی کر چکا ہے‘ لیکن اس کی حتمی تکمیل کا معاملہ ابھی تک ورلڈ بینک کے پاس تصفیہ طلب ہے؛لہٰذا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر دیا جانے والا یہ تاثر قطعی غلط ہے کہ پاکستان اپنا مقدمہ ہار چکا ہے۔ کشن گنگا اور رام پور پر عالمی بینک نے کسی بھی فریق کے حق میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں دیا۔عالمی بینک کے پاکستان کو لکھے گئے خط میں فریقین کے تحفظات اور دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے ایک سمری تیار کی گئی ہے اور اس سمری کی روشنی میں جو دو تجاویز سامنے رکھی گئی ہیں ان پر پاکستان کے اٹارنی جنرل اور وزارت پانی و بجلی دونوں‘ ملکی ماہرین سے مل کر سوچ بچار کر رہے ہیں۔عالمی بینک نے بھارت کے ساتھ کشن گنگا اور رام پور ہائیڈل پاورسٹیشن پر پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے تحفظات کو سامنے رکھتے ہوئے جو دو تجا ویز پاکستان کے سامنے رکھی ہیں‘ان میں سے ایک کے مطا بق کیا پاکستان بھارت کے تجویز کئے گئے غیر جانبدار ماہرین کو اس تصفیہ کے حل کے لیے تسلیم کرنے کو تیار ہے؟ اور اگر ایسا نہیں تو پھر بھارت پاکستان کی درخواست پر کشن گنگا اور رام پورکے لیےCourt of Arbitration قبول کرے گا۔یہ ہے عالمی بینک کا وہ فیصلہ جو پاکستان ا ور بھارت دونوں کے سامنے رکھا گیا ہے اور یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ عالمی بینک نے یا عالمی عدالت انصاف نے بھارت کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کوئی بھی پاکستانی انٹر نیٹ پر عالمی بینک کے ایسے کسی بھی فیصلے کو تلاش کر کے دیکھ سکتا تھا‘ لیکن ایسا ہرگزنہیں ہے‘ ابھی عالمی بینک کا خط حکومت پاکستان کے زیر غور ہے اور جلد ہی اس پر منا سب فیصلہ کرتے ہوئے عالمی بینک کو با قاعدہ آ گاہ کر دیا جائے گا۔
چناب پر بھارت درجنوں کے حساب سے چھوٹے بڑے ڈیم اور پاور پراجیکٹس تعمیر کر چکا ہے اور مزید پر اس نے کام شروع کر دیا ہے ۔ ساتھ ہی اس نے دریائے جہلم پر بھی ڈیم اور پاور ہائوس بنانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ بات صرف کشن گنگا‘ ریتل یا رام پور پاور ہائوس کی نہیںبلکہ اس سے بہت آگے بڑھ چکی ہے ۔اب لگتا ہے کہ بھارت سبھی عالمی قواعد و قوانین اور بین الاقوامی سرحدوں اور معاہدوں کو اپنے لئے بوجھ سمجھتے ہوئے ایک ایک کر کے اسے اتارتا جا رہا ہے۔اری ہائیڈرو پاور پلانٹ: یہ بارہ مولہ سے سولہ میل نیچے بہائو کی جانب تعمیر کیا جا رہا ہے۔ لوئر جہلم ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ: یہ بارہ مولہ سے آٹھ میل نیچے کی جانب ہے۔ سامبل ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹ: یہ دریائے جہلم کی معاون گزرگاہ سامبل کے قریب تعمیر کیا جا رہا ہے۔ پہلگام پاور سٹیشن: اننت ناگ اسلام آباد میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ استھان پاور پلانٹ: یہ کشن گنگا سے ملحق استھان نالے کے اوپر قائم کیا گیا ہے۔بانڈی پورہ پاور ہائوس: مد متی نالے کے اوپر بنایا گیاہے۔ ڈچھی گام پاور ہائوس: دیگوان نالے کے ا وپر بن رہا ہے۔کارن ہائیڈل پاور ہائوس: کشن گنگا سے نکلنے والے تیز بہائو والے نالے پر بنایا گیا ہے۔ کشن گنگا کے ایک دوسرے نالے پر کماہ کے نام سے پاور ہائوس تعمیر کیا جا رہا ہے۔ ڈھڈی نالے پر ماٹچھل پاور ہائوس کی تعمیر کی گئی ہے۔ دریائے پونچھ سے نکلنے والے سورن دریا پر پامل ہائیڈرو الیکٹرک پاور ہائوس کی تعمیر کی گئی ہے۔بیٹر نالے پر پونچھ ہائیڈرو الیکٹرک پاور ہائوس کی تعمیر جاری ہے۔وانگھٹ نالے پر اپر سندھ ہائیڈرو الیکٹرک پاور ہائوس تعمیر کیا جا رہا ہے۔ کشن گنگا‘ریتل اور رام پور کے علا وہ دریائے جہلم اور سندھ کے پانیوں پر یہ وہ13 ہائیڈل پاور ہائوسز ہیں‘ جن میں کچھ بھارت تعمیر کر چکا ہے اور کچھ زیر تکمیل ہیں۔ اب سوچئے کہ کیا بھارت سندھ طاس منصو ے کے کسی بھی حصے کا رتی بھر لحاظ کر رہا ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved