تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     02-07-2018

انجام معلوم

تقریباً سب کے سب عاقبت نا اندیش نکلے۔ اپنے مالک و خالق اور اپنی قوم پر بھروسہ کرنے کی بجائے ، انہوں نے حربوں اور ہتھکنڈوں پہ انحصار کیا۔ انجام معلوم۔
تدبیر کنند بندہ ، تقدیر کنند خندہ! آدمی تدبیر کرتا ہے اور تقدیر اس پہ ہنستی ہے ۔ کسی کا خواب پورا نہ ہو سکا۔ کسی کا منصوبہ پروان نہ چڑھ سکا۔ نواز شریف اور نہ عمران خان ، آصف علی زرداری اور نہ مولانا فضل الرحمن۔ میاں صاحب کی جماعت میں بھگدڑ ہے۔ کل ایک اخبار کا دعویٰ یہ تھا کہ جنوبی پنجاب سے ان کے 21 امیدوار بھاگ نکلے۔ چوہدری نثار علی خان کی طرف سے ، جیپ کا نشان وصول کرنے کے بعد ، کچھ اور لوگوں کو بھی یہی عطا ہوا۔ ظاہر ہے کہ یہ حسنِ اتفاق نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ ایک گروپ تشکیل کے مرحلے میں ہے۔
اب تک خاکسار کی اس خبر کی تردید نہیں کی گئی کہ گزشتہ ماہ لاہور کے ایک گھر میں نواز شریف اور زرداری کی خفیہ ملاقات ہوئی۔ عمران خان کو اصرار ہے کہ الیکشن کے آخری مرحلے میں دونوں پارٹیاں اتحاد کر لیں گی۔ اگر ایسا ہوا، تو اس کا مطلب کیا ہو گا ؟ یہی کہ امریکہ ، برطانیہ اور بھارت پہ مشتمل عالمی اسٹیبلشمنٹ‘ الیکشن 2018 ء کو سبوتاژ کرنے یا اپنی پسند کے لوگوں کو اقتدار میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جن صاحب کے گھر پہ یہ ملاقات ہوئی تھی، اتوار کو اعلانیہ انہوں نے پاک فوج کو ہدف کیا، اپنی شاندار سرکاری نوکری دائو پر لگا کر ۔ خسارے کا سودا کرنے والے وہ ہیں نہیں۔ متبادل یقینی طور پہ زیادہ پرکشش ہو گا۔ عمران خان کے برسر اقتدار آنے میں ، خطرات بھی ان کے لئے بہت ہیں۔ لندن اور واشنگٹن میں ان کی جائیدادیں ہیں۔ واشنگٹن والے مکان پہ ایک کروڑ 25 لاکھ ٹیکس کے واجبات کا نوٹس، ایف بی آر کے دفتر میں پانچ سال سے پڑا سسک رہا ہے۔
یہ اقتدار کی بے رحمانہ جنگ ہے۔ اس میں کوئی اصول اور نظریہ نہیں ہوتا۔ کوئی اخلاق اور کوئی کردار نہیں ہوتا۔ 
کیا عمران خان وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟
اگرچہ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال ان کے لئے بہتر ہوتی جا رہی ہے مگر اب بھی اس میں شکوک و شبہات ہیں۔ اس لئے کہ بلوچستان، کراچی اور فاٹا کے ظفر مند ان کے پیروکار نہیں ہوں گے... اور نہ جنوبی پنجاب والے، حالانکہ وہ ان کی پارٹی میں شامل ہو چکے۔ 
عمران خان وہ نہیں جو کبھی تھے ۔ ان کی پارٹی بھی وہ نہیں جو کبھی تھی۔ اپنے حلیفوں اور قابلِ انتخاب امیدواروں پہ مکمل انحصار کی پالیسی نے جو قوت انہیں بخشی ہے، وہی ان کی کمزوری بھی ہے۔ سیاست میں حلیف ہوتے ہیں، دوست کوئی نہیں ہوتا۔ 
بظاہر اپنی آزاد روی سے وہ دستبردار ہو چکے مگر سب جانتے ہیں کہ آدمی کی فطرت کبھی نہیں بدلتی۔ اب بھی ان کے مزاج اور اندازِ کار کے باب میں اندیشے پائے جاتے ہیں۔
فرض کیجئے کراچی ، بلوچستان ، فاٹا ، جنوبی اور وسطی پنجاب سے ، چھوٹی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کے طور پر جیتنے والوں کی تعداد تحریکِ انصاف سے بڑھ جائے؟ 
میرا خیال ہے کہ چوہدری نثار علی خاں وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ ہفتے کو ان کے اس جملے کا چرچا زیادہ رہا: ایک گدھے کو اگر کرسی پہ بٹھا دیا جائے تو پھر بھی وہ گدھا ہی رہے گا۔ شاید ان کا وہ فقرہ زیادہ اہم ہے: دنیا بھر میں پاکستان کا موقف میں زیادہ خوبی کے ساتھ پیش کر سکتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے اس دعوے میں اپنا موازنہ نواز شریف اور زرداری کے ساتھ نہیں کیا۔ ان دونوں کے بارے میں چوہدری صاحب کی رائے یہ ہے کہ وہ تخت پر براجمان ہونے کا موقع کھو چکے۔
میاں محمد نواز شریف کے ''نظریاتی‘‘ حلیف محمود اچکزئی، بلوچستان کی پشتون پٹی میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ پچھلی بار جمعیت علمائے اسلام کے ناراض پشتونوں نے اچکزئی کے امیدواروں کو ترجیح دی تھی۔ اب کی بار ان کے امکانات زیادہ نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ مولوی صاحبان سے بھی'' نظریاتی‘‘ نکلے۔
ان دونوں لیڈروں، عہد فاروقی کا نظام واپس لانے کے دعویدار‘ حضرت مولانا فضل الرحمن اور سر تا پا ''اصول پسند‘‘ اچکزئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ملک کی سلامتی اور قومی مفادات کے باب میں وہ اتنے ہی حساس ہیں ، جتنے کہ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین۔ ہر چند ایسے بے باک وہ کبھی نہ تھے کہ کھلم کھلا بھارتیوں کی تائید کرنے لگیں؛ اگرچہ فاٹا کو ضم کرنے کے ہنگام ، عوامی تائید اور قومی مصلحت کی بجائے نقد داد کو انہوں نے ترجیح دی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اب جمعیت علمائے اسلام کی اصولی حلیف ہے، محض انتخابی نہیں۔ یہ انکشاف جماعت اسلامی کے ایک ممتاز لیڈر جناب مشتاق احمد نے سوشل میڈیا کے لئے اپنے ایک طویل پیغام میں کیا ہے۔ ان کا ارشاد یہ ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی دو برس سے متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے لئے ریاضت فرما رہے تھے۔
کیا جماعت اسلامی پاکستان پہ اب جماعتِ اسلامی پختون خوا غالب ہے؟ مگر یہاں سوال دوسرا ہے، کیا نظریاتی طور پر بھی ؟ آٹھ عشرے قبل بلند ہمت سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنے مکتب فکر کے قائدین سے جو بغاوت کی تھی، کیا اس سے رجوع کرنے کا فیصلہ ہو چکا؟
الیکشن میں وہ کچھ کما پائیں یا نہیں، ظاہر ہے کہ محمود اچکزئی نواز شریف کے حلیف رہیں گے۔ کیا مولانا فضل الرحمن بھی؟ سوات کی اس نشست سے اپنے امیدوار کو انہوں نے دستبردار ہونے کا حکم دیا ہے، شہباز شریف جہاں سے امیدوار ہیں! تو کیا الیکشن کے بعد متحدہ مجلس عمل بھی نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہو گی، جو اس خطے میںعالمی اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈا قبول کر چکے؟ بھارت کی بالا دستی کا!
میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کا اجتماعی ضمیر اس طرح کے اقدامات کی حمایت نہیں کرے گا۔ پنجاب اور سندھ میں خاکسار تحریک بنتی ہوئی جماعت اسلامی اس کی تاب نہیں لا سکے گی۔ 
اب اس مفروضے پر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں کہ دیہی سندھ میں پیپلز پارٹی کی انتخابی فتح یقینی ہے۔ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس صوبائی اسمبلی کی ایک درجن سے زیادہ سیٹیں بھی اگر جیت سکا تو پیپلز پارٹی صوبے میں حکومت کیسے تشکیل دے گی؟
نواز شریف سے مل کر یا ان کے اصل مخالفین کے قدموں میں بیٹھ کر جناب آصف علی زرداری کا صدرِ پاکستان بننے کا خواب پورا ہو گا؟ بہت مشکل ہے۔ نواز شریف کو کرپشن کا بادشاہ کہا جاتا ہے تو زرداری صاحب کو شہنشاہ۔ عوامی نعرہ کرپشن کا خاتمہ ہے۔ عوامی جذبات سے انحراف کیا جا سکتا ہے مگر ایک حد تک !
کیا نواز شریف لندن سے واپس آئیں گے ؟ ہوش مند اخبار نویسوں اور سیاسی کارکنوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ ابھی تو نہیں۔ ان میں سے اکثر کی رائے میں، موصوف کی ہمت ٹوٹ چکی۔ قانون دانوں سے بات ہوئی تو ان میں سے بعض نے کہا کہ سزا ان کی عدم موجودگی میں بھی سنائی جا سکتی ہے۔ ایسے میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کیا کرے گی؟ محاورہ یہ ہے کہ مردوں کا بوجھ (DEAD WEIGHT) کوئی نہیں اٹھایا کرتا۔
سیاست بدل گئی ، زمانہ بدل گیا۔ نئے عہد کے تقاضے کچھ اور ہیں مگر سیاسی پارٹیاں، بیتے ہوئے دنوں ، انہی ہتھکنڈوں میں زندہ ہیں۔ ملک کو نئی سیاست درکار ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے لئے نئی زندہ ، منظم ، متحرک جمہوری جماعتیں بھی۔
انتخابی مہم میں اب تک جو کچھ سامنے آیا ہے، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں نے وقت کا فرمان پڑھنے سے انکار کر دیا ہے۔
تقریباً سب کے سب عاقبت نا اندیش نکلے۔ اپنے مالک و خالق اور اپنی قوم پر بھروسہ کرنے کی بجائے ، انہوں نے حربوں اور ہتھکنڈوں پہ انحصار کیا۔ انجام معلوم۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved