زمانوں کا کام آنا اور جانا ہے۔ بعض زمانے اس لیے ہوتے ہیں کہ ٹھہر جائیں‘ کبھی نہ جائیں۔ شعراء کی زبانی کہیے‘ تو ایک زمانہ ایسا ہے کہ لاکھ ٹالیے‘ ٹلتا نہیں۔ ؎
ایک بس عہدِ فرقت نہ ٹل پائے گا
اور تو سب زمانے گزر جائیں گے
کچھ کچھ یہی معاملہ بڑھاپے کا ہے۔ یہ بھی ایسا زمانہ ہے کہ جاتا نہیں اور جاتا ہے‘ تو انسان کو ساتھ لے جاتا ہے۔ ؎
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
ایک زمانہ اور بھی ہے‘ جو حافظے کا حصہ بنتا ہے‘ تو پھر کبھی پل پل استثنیٰ لیتا رہتا ہے یعنی مٹنے کا نام نہیں لیتا۔ اور حق تو یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے نقوش گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ انسان اس زمانے کی چار دیواری میں بار بار پناہ لیتا ہے‘ کیونکہ یہیں اُسے وہ ذہنی و قلبی سکون نصیب ہوتا ہے‘ جس کی تلاش میں لوگ دشت و صحرا کی خاک چھانتے پھرتے ہیں‘ پہاڑی چوٹیاں سَر کرنے کی لگن سے سرشار رہتے ہیں۔ ہم بات کر رہے ہیں کالج کے زمانے کی۔
کالج کا زمانہ جوش و خروش‘ امنگوں‘ آرزوؤں اور امیدوں سے عبارت ہوتا ہے۔ اس دور کی نزاکتوں کو وہی سمجھ سکتا ہے‘ جس نے یہ دور دیکھا ہو‘ اس سے بھرپور حظ اٹھایا ہو۔ یہ ایک ایسا عہد ہے‘ جس میں کئی عہد سانس لیتے ہیں۔ اس ایک زمانے کے بطن سے متعدد زمانے یوں ہویدا ہوتے ہیں کہ انسان کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا۔
کل ہم نے الیاس کا ذکر کیا تھا‘ جو آج بھی ہمارے حافظے کی دیواروں پر انتہائی گہرے نقش کی صورت موجود ہے۔ الیاس کھیلتا بھی تھا اور گاتا بھی تھا ۔ یہ ہم کبھی طے نہ کر پائے کہ وہ کھیلتا اچھا تھا یا گانے میں زیادہ دم تھا۔ ان دونوں معاملات سے بڑھ کر بھی ایک معاملہ تھا ... یہ کہ وہ زندہ دل تھا۔ وہ آج بھی اگر ہمارے حافظے میں زندہ ہے‘ تو محض اپنی زندہ دِلی کے توسط سے۔ کالج کے پورے دَور میں اُسے کسی بھی دوست نے کبھی ملول‘ رنجور یا پریشان نہیں دیکھا۔ جب ملا‘ ہنستا گاتا ملااور اس کا نتیجہ بھی کچھ نہ کچھ تو نکلنا ہی تھا۔ یہ کہ وہ زیادہ پڑھ نہ سکا! یہ بھی اچھا ہی ہوا۔ اس ملک میں بہت پڑھنے والے کیا پاتے ہیں؟ اچھا ہے کہ انسان ہنستے گاتے زندگی بسر کرے اور گزر بسر کے لیے جو بھی شعبہ اپنائے اُسے دل و جان سے اپنا بنائے‘ بھرپور کے ساتھ کام کرے اور پورا دم لگاکر کچھ کر دکھائے۔
ناسٹیلجک ہونا انسان کی سرشت میں ہے۔ غور کیا جائے‘ تو ہر انسان کے پاس گزرا ہوا زمانہ ہی سب سے بڑے اثاثے کی حیثیت رکھتا ہے۔ صورتِ حال جب بھی ناقابل ِبرداشت ہوتے ہے ‘تب انسان گزرے ہوئے زمانے کے قلعے میں داخل ہوکر خود کو بہت سے خطرات سے محفوظ کرلیتا ہے۔
وسیم اکرم نے کرکٹ چھوڑ دی ہے۔ اب وہ میدان کا حصہ نہیں رہے ‘اس لیے اُن کی طرف سے یارکر کا خطرہ ہے‘ نہ باؤنسر کا‘ مگر دوسرے کئی وسیم ہیں‘ جو یارکر بھی مارتے ہیں اور باؤنسر بھی۔ ایسا ہی ایک یارکر کل وسیم نے بھی کرایا۔ یہ وسیم بھی پریمئر کالج ہی کا ہے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ جب شادی بیاہ کے معاملات موجودہ نہج کو نہیں پہنچے تھے۔ میرج ہال یا لان عام نہیں ہوئے تھے تب شادی گھروں کے سامنے کسی کھلے پلاٹ پر ہوا کرتی تھی۔ تب تیار شدہ دیگیں نہیں لائی جاتی تھیں ‘بلکہ کھانا بھی گھر کے سامنے ہی پکایا جاتا تھا۔ خاندان کی لڑکیاں شادی کے کھانے کے لیے پندرہ دن تک چاول چُنتی رہتی تھیں۔ شادی کی تقریب میں جب کھانا کُھلتا تھا‘ تب ایک رسم بہت اہتمام سے ادا کی جاتی تھی اور اس میں تھوڑا بہت جھگڑا بھی ہو جاتا تھا۔ دیگ پر عموماً بڑے داماد یا بہنوئی کو بٹھایا جاتا تھا۔ دیگ سے کھانا نکالنے کی ڈیوٹی کو چونکہ باعثِ افتخار گردانا جاتا تھا‘ اس لیے دیگ پر بیٹھنے کے لیے جھگڑا بھی ہوتا تھا‘ کئی منہ پُھول جاتے تھے اور بات چیت کسی اگلی شادی تک بند ہو جایا کرتی تھی۔
ایسا ہی کچھ وسیم کے معاملے میں بھی ہوا۔ کل واٹس ایپ گروپ میں وسیم شیخ‘ قدرت اللہ خان اور بدرالزماں کی انٹریز دیکھیں۔ ہم نے ''وچھوڑا‘‘ ختم کرنے کی غرض سے وسیم کو کال کی تو اُس نے شکوہ کیا کہ سارے یاروں کا ذکر کر ڈالا اور ہمی کو بھول گئے! وسیم کا استدلال یہ تھا کہ کالج کے زمانے میں ہر چھوٹی بڑی شرارت میں سب سے بڑا حصہ اُس کا ہوا کرتا تھا‘ مگر یاروں کے تذکرے میں اُسی کو نظر انداز کردیا گیا۔ ہم نے ترپ کا پتّا پھینکتے ہوئے کہا کہ بھائی! دل چھوٹا نہ کرو۔ ہم ''شیطانِ بزرگ‘‘ کا تذکرہ الگ سے اور اہتمام کے ساتھ کریں گے! اللہ کا شکر ہے کہ ایک زمانے کے بعد‘ ہمارا کوئی تیر نشانے پر لگا اور بات وسیم کی سمجھ میں آگئی۔ اُس کی سمجھ میں ہماری بات کا آ جانا بھی کم حیرت انگیز نہ تھا۔ کالج کے زمانے میں وہ کوئی بھی بات بہت مشکل سے سمجھ پاتا تھا۔ شکر ہے ‘اتنی مدت میں اِتنی تبدیلی تو آئی! اور یوں بھی وسیم کی تشفّی لازم سی ہوگئی تھی۔ کل ملتے ہی وسیم نے طوفان میل والی رفتار پکڑی اور پھر جو بولنا شروع کیا‘ تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ چشم زدن میں ہمارے کانوں سے دھواں نکلنے لگا‘ دم بھر میں کانوں کے ساتھ ساتھ دماغ کا بھی سانس پُھول گیا! چار منٹ کی گفتگو میں اُس نے اِتنی باتیں کیں ‘جو ہم بلا مبالغہ‘ دو تین دن میں بھی نہیں کرتے! ہم نے بتانا بھی چاہا کہ بھائی! ذرا آہستہ چلو‘ ہمارا صابن slow ہے‘ مگر وہ سانس لیتے ‘تو ہم کچھ کہہ پاتے نا!
صفیؔ لکھنوی خوب کہہ گئے ہیں ؎
غزل اُس نے چھیڑی‘ مجھے ساز دینا
ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا
جب کوئی غزل چھیڑتا ہے‘ عمرِ رفتہ کو آواز دیتا ہے‘ تو ہم تادیر اپنے آپ سے دُور رہتے ہیں‘ کسی اور ہی دنیا میں کھو جاتے ہیں اور کسی اور ہی زمانے کا حصہ ہو رہتے ہیں۔ 35 سال پہلے کے دوست پھر ہماری زندگی کا حصہ بنے ہیں ‘تو زندگی میں تھوڑی سی معنویت بڑھی ہے۔ کالج کے آشیانے کے سارے ہی تنکے بکھرے ہوئے ہیں۔ کوئی امریکا میں آباد ہوچکا ہے‘ تو کوئی انگلینڈ میں‘ کوئی اسلام آباد میں بسا ہے ‘تو کوئی لاہور میں۔ خیر‘ یادیں اور تعلق دونوں ہی غنیمت ہیں۔ بہت سوں کے نزدیک ماضی میں رہنا ذہنی خلل ہے۔ ہم زندگی بھر کے مشاہدے کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس سے سکون میسر ہو‘ اُس ذہنی خلل کو بھی اللہ کا احسان سمجھ کر قبول کرنا چاہیے۔ علامہ جمیل مظہری بھی تو کہہ گئے ہیں ع
اگر نہ ہو یہ فریبِ پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
اس سے پہلے کہ دم نکل جائے‘ ایسی یادوں اور ایسے یاروں کا دم غنیمت ہے جن کی بدولت دم میں دم آئے اور زندگی کا کچھ حصہ تو سکون سے گزرے۔