جمائما کیا اس لیے عمران خان کو چھوڑ گئیں کہ ''صاحب‘‘ کے طرزِ زندگی پہ انہیں کوئی اعتراض تھا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ جمائما نے عمران کو نہیں چھوڑا‘ بلکہ باہم مشورے سے انہوں نے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔ جس کی تفصیل آگے عرض کروں گا۔ اپنے میاں کو جمائما ''صاحب‘‘ کہا کرتیں۔ اس کا انکشاف‘ اس سرد شام کو ہوا‘ جب ای الیون اسلام آباد والے گھر ناچیز کپتان سے ملنے گیا۔ صبح سویرے اس کے ساتھ میری بات ہوئی اور ملاقات کا وقت طے ہوا تھا۔
یہ 2002ء تھا۔ آدھی رات اِدھر‘ آدھی اُدھر‘ گزشتہ شب الیکشن جیتنے پر خان کو مبارک دی تو اس نے کہا تھا: ابھی نہیں۔ نتیجہ ابھی نہیں آیا۔ ابھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی آواز میں اندیشہ تھا۔ یہ کہ ناراض ہو جانے والا فوجی حکمران کوئی کرشمہ کر سکتا ہے۔ حیرت سے میں نے کہا: اتنی واضح اکثریت کے بعد‘ جب اتنے تھوڑے سے پولنگ سٹیشن باقی ہیں‘ آپ ہار کیسے سکتے ہیں۔ اس نے کہا '' پھر بھی!‘‘
سحر بات ہوئی تو اس نے کہا: شام کو آنا‘ میں آرام کرنا چاہتا ہوں اور کچھ وقت بچوں کے ساتھ بِتانا چاہتا ہوں۔ مارگلہ کے دامن میں‘ جنگلوں پر روشنی کی آخری چھینٹیں تھیں۔ سورج غروب ہونے والا تھا‘ جب دستک دی۔ سامنے ٹیرس پر جمائما کھڑی تھیں۔ ان کی آواز صاف سنائی دی ''صاحب کا دوست آیا‘ چائے کا بندوبست کرو‘‘۔ اردو میں اس نے کہا‘ وہی انگریزی لہجہ مگر ایک ایک لفظ ہموار۔
بتایا گیا ‘ خان پیغام چھوڑ گیا ہے‘ ابھی کچھ دیر میں آیا چاہتا ہے۔ ملازم کو چائے بنانے سے منع کیا۔ عرض کیا کہ اس کا انتظار کروں گا۔ جمائما میرے لیے اجنبی نہ تھیں۔ کپتان کی طرف جانا ہوتا تو ملاقات کبھی دراز بھی ہو جاتی‘ بلکہ اکثر۔
ان کے احوال سے‘ ان کے تعلق کی باہمی نوعیت سے ناچیز آشنا تھا۔ ذاتی دوستوں سے کم ہی کوئی بات عمران چھپا کر رکھتا ہے۔ اگر ایک دوست کی ذاتی زندگی کو بیان کرنا بدذوقی کا اظہار نہ ہوتا تو میں بیان کر دیتا‘ بے شمار دلچسپ واقعات۔ میانوالی جانا ہوتا تو کبھی اس کے ساتھ بیس‘ بائیس گھنٹے بھی گاڑی میں گزر جاتے۔ صبح چھ بجے روانہ ہوتے‘ شب دو اڑھائی بجے لوٹتے۔ تبادلۂ ِخیال اس دوران جاری رہتا۔ مگر آج پہلی بار انکشاف ہوا کہ غیاب میں وہ اسے ''صاحب‘‘ کہتی ہے۔ سامنے تو ظاہر ہے کہ '' عمران‘‘ ہی۔
یہ دعویٰ غلط ہے کہ عمران پہ اس کے کچھ‘ کوئی ایسے اعتراضات تھے‘ جس طرح کے بعض دوسرے لیڈروں پہ ان کے اہلِ خانہ کو۔ ان میں سے ایک کراچی اور لاہور کا مکین ہے۔ ذاتی زندگیوں پہ گفتگو روا ہوتی تو ان میں سے ایک صاحب کے واقعات‘ اس قدر تفصیل سے لکھے جا سکتے ہیں کہ ہالی وڈ کے لیے ایک فلم کی کہانی رقم ہو سکے۔
عمران اور جمائما کو ایک دوسرے سے بے وفائی کا شکوہ نہ تھا۔ جمائما کا واحد اعتراض یہ تھا کہ عمران اسے وقت نہ دے سکتا۔ لاہور کی ایک سویر یاد آتی ہے۔ پہلے سے وقت طے کیے بغیر‘ اس سے ملنے گیا۔ وہ نمودار ہوا تو ورزش کا لباس پہنے‘ پسینے میں شرابور۔ ڈرائنگ روم میں ہم نے چائے پی اور گھنٹہ بھر کی گفتگو کے بعد‘ اسلام آباد میں ملاقات کا پیمان ہوا۔ ملازم اس دوران جمائما کا رقعہ لایا۔ میاں بیوی کو غالباً اکٹھے کہیں جانا تھا۔ اب وہ انتظار میں تھی۔ عمران نے اس سے معذرت کی۔ معذرت کے اس کے انداز میں ایک ہلکا سا احتجاج بھی تھا۔ یہ کہ مہمان کی موجودگی کو گوارا کیا جائے۔ جواب میں جمائما نے ایک اور رقعہ بھیجا‘ جسے پڑھ کر وہ ہنس دیا۔ اب میں سوچتا ہوں مجھے نہ پوچھنا چاہیے تھا‘ مگر میں پوچھ بیٹھا تو شرماتے ہوئے اس نے کہا: اس نے لکھا ہے I Love You۔ یہ ایک طرح کی معذرت تھی اور یاد دہانی بھی۔
قیاس اور گمان کی بنیاد پر اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے تو اسے روکا نہیں جا سکتا۔ ملک میں یہ لامحدود آزادی کے ایّام ہیں۔ خاص طور پر ان سیاسی لیڈروں کی ذاتی زندگیوں پر بات کرنے کے لیے‘ جو آپ کو ناپسند ہوں۔ جن کے مخالفین سے آپ کا رشتہ پیوند ہو۔
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
پروفیسر احمد رفیق اختر کے ساتھ‘ عمران خان کی ملاقات‘ 2002ء کے اوائل میں ہوئی۔ اس ناچیز ہی نے انہیں اس کا مشورہ دیا تھا۔ اس دن وہ کوئٹہ میں تھا۔ طے پایا کہ اگلے دن شام کو گوجر خان جایا جائے۔ تحصیل کے کسی گائوں میں اسی روز میلے کا انعقاد تھا۔ شہاب الدین غوری کے مزار سے پرے کھیلوں کے مقابلے ‘ جن میں لگ بھگ ایک لاکھ افراد شریک ہوا کرتے۔ مہمانِ خصوصی کے طور پر کپتان کو اس میں شرکت کرنا تھی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ میلے کے بعد‘ سورج ڈھلے‘ گوجر خان کا رخ کیا جائے۔
تین چار گاڑیوں پہ مشتمل مختصر سا قافلہ شہاب الدین غوری کے مزار پہ رکا‘ جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے تعمیر کرایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے اجدادافغان فاتح کے ساتھ ہندوستان آئے تھے۔ نوتعمیر مزار کے اجلے صحن میں کھڑے ہو کر ہم سب نے فاتحہ پڑھی اور مرکزی دروازے کی طرف واپس مڑے۔ اچھی طرح سے یاد ہے کہ باہم کوئی بات نہ ہو رہی تھی۔ وہ کیفیت جو مزارات پہ قلب و دماغ میں جنم لیتی ہے۔ مٹی اوڑھ کر سونے والوں کے جوار میں۔ زندگی موت سے ہار گئی ہے اور زندگی کو موت سے ہار جانا ہے۔
اچانک ایک خیال نے دل میں گھر کیا اور اس پر عمل کرنے کا فوراً ہی ارادہ کرلیا۔ عمران سے میں نے کہا: میلے میں مجھے کیا کرنا ہے۔ ہائوہو اور شوروغوغا سے‘ عمر بھر کبھی دلچسپی نہیں رہی۔ ایک گاڑی مجھے دے دو۔ میں گوجر خان جاتا ہوں۔ پروفیسر صاحب کا ٹھکانہ ڈرائیور دیکھ لے گا۔ شام کو اس کے ساتھ تم لوگ چلے آنا۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا۔ رفاقت کے چھ برس بیت چکے تھے‘ ایک دوسرے کی افتادِ طبع سے ہم واقف تھے۔
عارف کے ساتھ‘ یہ اس کی پہلی ملاقات تھی۔ 2013ء تک یہ سلسلہ جاری رہا؛ تاآنکہ وہ واقعہ پیش آیا‘ جس کے بعد‘ میں نے کبھی اسے گوجر خان جانے کی دعوت نہ دی۔ بعدازاں ایک آدھ بار مشورہ ضرور دیا‘ مگر یہ کہا کہ اسے تنہا جانا ہوگا۔
عمران خان اس کے لیے کبھی فرصت نہ پا سکا یا اس کی ہمت جمع نہ کر سکا‘ ناچیز کہہ نہ سکتا؛ البتہ یہ عرض کر سکتا ہے کہ اس اثنا میں ان دونوں کی جتنی ملاقاتیں ہوئیں‘ وہ ان سب میں موجود تھا۔ زیادہ تر گوجر خان‘ دو بار راولپنڈی چکلالہ سکیم نمبر3 اور دو ہی بار عمران خان کے بنی گالہ والا گھر میں۔
سب معروف لوگوں میں سے ‘جنرل اشفاق پرویز کیانی کے سوا‘ عمران خان شاید وہ واحد آدمی ہیں‘ جن کے ہاں درویش نے قدم رکھا۔ یہ تاثر غلط ہے کہ بادشاہوں سے فقیر اعتنا نہیں کیا کرتے؛ البتہ اس امر کو پوری طرح وہ ملحوظ رکھتے ہیں کہ کسی طرح کا کوئی ذاتی مفاد ان سے وابستہ نہ کریں۔ فقیر کا قول یہ ہے: دوسروں کو ہر رعایت صوفی دے سکتا ہے‘ مگر خود کو کبھی نہیں۔ اپنی ذات کی نہیں‘ اس پیغام کی تکریم کا انہیں احساس ہوتا ہے‘ جو اللہ کے بندوں تک وہ پہنچاتے ہیں‘ انس اور الفت کے ساتھ۔ کوئی آدمی کتنا ہی بڑا‘ کتنا ہی دنیاوی طور پر غالب و افضل ہو‘ عامیوں پر اسے ترجیح نہیں دیتے۔ توجہ البتہ کبھی زیادہ بھی دیتے ہیں‘ اگر کوئی معرکہ وہ سر کر سکتا ہو۔ اگر مخلوق ِخدا کی کوئی خدمت بجا لا سکتا ہو۔
شام ڈھلے عمران خان نمودار ہوا۔ تیسرے منزل پر ان کے کمرے میں داخل ہو کر‘ ان کی پائنتی پر بیٹھ چکا تو انہوں نے اس سے ایک عجیب سوال کیا۔ ایسا سوال‘ جس کی ہرگز مجھے امید نہ تھی۔ آج صرف یہ عرض کرنا تھا۔
درونِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا
چراغِ رہ گزر کو کیا خبر ہے؟
(جاری)