تاریخ کے قدموں پرقدم رکھتاہوا میں آج چیلیانوالہ کے میدان کی طرف جارہاہوں‘ جہاں فرنگیوں کے خلاف پنجابی مزاحمت کی سب بڑی جنگ لڑی گئی تھی۔ کھاریاں سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پرڈِنگہ اور وہاں سے 10کلو میٹر کی مسافت پر چیلیانوالہ کا قصبہ ہے ۔ یہ جون کامہینہ ہے اورہوا رُک رُک کرچل رہی ہے۔ گاڑی میں میرے سامنے نقشہ ہے ‘جس میں اہم مقامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ آج میں ان جگہوں کودیکھناچاہتاہوں تاریخ کو قریب سے چھو کرمحسوس کرنا چاہتا ہوں۔1849ء میں جنوری کے یخ بستہ مہینے میں واپس جاناچاہتا ہوں جب جدید ترین ہتھیاروں سے لیس تربیت یافتہ فرنگی فوج کو پنجاب کے شیرسنگھ اٹاری والا کی فوج نے بے بس کردیاتھا۔ ہماری گاڑی کھاریاں سے ڈنگہ جانے والی سڑک پرگاڑیاں رواں دواں ہے۔ یہ جون کا روشن اور گرم دن ہے ۔باہر کے منظر تیزی سے گزرتے جا رہے ہیں۔ میں سیٹ سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیتا ہوں ۔ میر ے ذہن کے پردے پر تاریخ کے ورق روشن ہونے لگتے ہیں۔یہ اٹھارویں صدی کا منظر ہے ۔ایسٹ انڈیاکمپنی نے ہندوستان کے بڑے حصے پر اپناتسلط جمالیاتھا ‘لیکن پنجاب میں رنجیت سنگھ کی حکومت قائم تھی اورابھی تک فرنگیوںکی دست بردسے محفوظ تھی۔رنجیت سنگھ نے سکھوں کے مخالف دھڑوں کوجمع کر کے 1801ء میںپنجاب میں ایک مضبوط سکھ سلطنت کی بنیاد رکھی‘ جس کی سرحدیں کشمیر اورافغانستان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ رنجیت سنگھ کی فوج میں مختلف قوموں کے لوگ تھے۔ تربیت دینے کے لیے انتہائی تجربہ کارجنگی ماہرین ایلارڈ (Allard)اور ونچورا (Ventura)تھے‘ ان کاتعلق بالترتیب فرانس اوراٹلی سے تھا۔ اس کے علاوہ اس کی فوج میں جرمنی‘ یونان‘ سپین‘ روس‘ سکاٹ لینڈ اوربرطانیہ کے ماہرین بھی شامل تھے ۔ان سب کو خطیر مشاہروں پربھرتی کیاگیا تھا۔ خالصہ فوج میں توپوںکی بڑی تعداد تھی‘ یوں معاشی اورعسکری حوالے سے یہ ایک مستحکم سلطنت تھی۔ رنجیت سنگھ کواس بات کااحساس تھا کہ اس کی سلطنت کی سرحدیں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کی سرحدوں کے قریب چلی گئی ہیں‘ یوں دونوں طرف ایک بے یقینی اور بے اعتمادی کی فضا تھی۔
رنجیت سنگھ کاانتقال1839ء میں ہوا‘ تواس کے بعد مختصر وقفوں سے مختلف سکھ حکمران تخت پربیٹھے تھے‘ ان میں کھڑک سنگھ‘ نہال سنگھ‘ چندکور‘ شیرسنگھ اور دلیپ سنگھ شامل ہیں۔ دلیپ سنگھ کو1843ء کوتخت پربیٹھایاگیا۔ رنجیت سنگھ کے انتقال کے بعد سکھ سلطنت کی گرفت کمزور پڑنے لگی اورپھر سکھوں اور انگریزوں کی پہلی جنگ(1845-1846ئ)کے نتیجے میں جو معاہدہ طے پایا‘ اس کے مطابق کچھ علاقوں پرسکھ دربارکاتسلط باقی نہیں رہاتھا۔ اُدھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت آہستہ آہستہ پنجاب کی طرف مقدم بڑھا رہی تھی‘پھر اچانک 1848ء میں ہونے والے ایک واقعے نے اس سفر کو تیز کردیا۔
اپریل1848ء میں ملتان میں سکھ حکومت کی طرف سے مقررکردہ گورنرمول راج تھا‘ جوہندوتھا اورایک طویل عرصے سے ملتان کاگورنرتھا۔برطانوی راج کی طرف سے دو نمائندے مول راج کے پاس بھیجے گئے‘ جنہوں نے اسے معزولی کا پیغام پہنچایا۔ مول راج نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا اور آنے والے دونوں نمائندوں کو قتل کرا دیا۔اس کے ساتھ ہی اس نے برطانوی راج کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔اس کی حمایت میں شیرسنگھ اٹاری والا نے بھی علمِ بغاوت بلند کر دیا اپنی فوج کارخ ہزارہ کی طرف کرلیا ۔ یہ صورت حال فرنگی اقتدار کے لیے ایک چیلنج تھی ‘جنرل گف(Gough) کی قیادت میں ایک جدید اسلحے سے لیس فوج کوپنجاب میں سکھوں کی بغاوت کے خاتمے کاحکم صادرہوا۔ جنرل گف اورشیرسنگھ کی فوج کا پہلا ٹکرائو2نومبر کو رام نگر (موجودہ نام رسول نگر) میں ہوا۔دوسرا ٹکرائو اسداللہ پور ( بعض کتابوں میں سعداللہ پور )کے مقام پرہوا۔ ان دوجھڑپوں سے جنرل گف کو بخوبی اندازہ ہوگیا کہ اس کاپالا ایک بہادر اورذہین جنگجو شیر خان اٹاری والا سے پڑا ہے۔ اب جنوری کامہینہ شروع ہوچکاتھا ۔جنرل گف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔ اس نے اپنے دل میں تہیہ کرلیا کہ اگلامعرکہ فیصلہ کن ہو گا۔اس فیصلہ کن معرکے کے لیے چیلیانوالہ کے میدان کا انتخاب کیا گیا۔
اچانک ہماری گاڑی ایک جگہ رُک گئی ۔ ''ہم ڈنگہ پہنچ گئے ہیں‘‘ ڈرائیور نے کہا،اورمیرے خیال کاسلسلہ ٹوٹ گیامیں نے کہا، ہماری منزل چیلیانوالہ ہے جوڈنگہ سے10کلومیٹر کے فاصلے پرہے۔ اب ہم چیلیانوالہ کی طرف جارہے تھے ۔ ہمارے دائیں بائیںگہرے سبز رنگ کے درخت تھے۔یہ سفر فوراً ہی کٹ گیا اور پھر میرے سامنے وہ علاقہ تھا جہاں اس خطے کی تاریخ کی ایک خونی جنگ ہوئی تھی۔
وہ 13جنوری کاایک سرددن تھا۔ جب جنرل گف کی فوج جوجدید ترین اسلحے سے لیس تھی‘ جوتربیت کے کئی مرحلوں سے گزری تھی اور جس کے لیے جنوری کاسردموسم بھی بہت سازگار تھا۔ مقابلے میں پنجابی فوج کی قیادت شیر سنگھ اٹاری والا کررہاتھا‘ جس کا باپ چھتر سنگھ بھی سکھ فوج کاایک نامور جنگجوتھا۔اس دن چشم فلک نے اس سارے علاقے کوخاک وخون میں نہاتے ہوئے دیکھا‘ توپ کے گولوں کی مہیب گھن گرج‘ بے قرار گھوڑوں کی ہنہناہٹیں‘ زخمیوں کی کراہیں۔ دن کے اختتام تک میدانِ جنگ لاشوں سے اٹ گیاتھا۔دونوں طرف بھاری جانی نقصان ہواتھا۔ پورے دن کی سخت لڑائی کے باوجود جنرل گف کی فوج ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔اگلے دن چیلیانوالہ کے آسمان سے بادل خوب برسے اور موسم مزید سردہوگیا۔ اونٹوں پرانگریزوں کی لاشیں لاد کر میدان ِجنگ سے واپس لے جائی گئیں۔ چیلیانوالہ میں پنجابی فوج نے جس بے جگری سے اپنی سرزمین کا دفاع کیا‘ وہ مزاحمت کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس لڑائی کے بعد جنرل گف کواپنے عہدے سے ہٹادیاگیا ‘یوں یہ ایک طرح سے اعتراف ِشکست تھا۔
انگریزوں نے اس جنگ کی ایک یادگار تعمیر کی ہے‘ میں اس یاد گار کے پاس کھڑا ہوں۔یہ ایک بلندقامت صلیب ہے اورپھرایک چاردیواری کے اندر ایک مینارہے‘ جس پرچاروں طرف چار زبانوں‘ انگریزی‘ فارسی‘ اردو اورگورمکھی میں چیلیانوالہ کی جنگ کی تاریخ13جنوری1849ء کندہ ہے اور اپنی فوج کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے۔ میں چہاردیواری سے باہر نکل آتا ہوں ۔باہر بڑ کے تین قدیم درخت ہیں ۔ یہ درخت بھی یقینا گواہ ہوں گے‘ جب شیرسنگھ نے جنرل گف کی فوج کوآگے بڑھنے سے روک دیا تھااور اس خیال کوغلط ثابت کیا تھاکہ فرنگی فوج ناقابلِ شکست ہے۔ بڑ کے بوڑھے درخت سر جھکائے کھڑے ہیں شاید وہ اور میں ایک ہی بات سوچ رہے ہیں۔ یہ تو فرنگیوں کی یادگاریں ہیں‘ مگران خاک زادوں کی یادگاریں کہاں ہیں‘ جو اس سرزمین سے اٹھے اور جنہوں نے اپنے خون کا نذرانہ دے کر اپنی مٹی کی حفاظت کی تھی‘ وہ جو اپنی آنکھوں میں حریت کے خواب لے کر نکلے تھے اور بے نشاں راہوں میںکہیں کھوگئے۔ اب شام کے سائے گہرے ہو رہے ہیں۔ مجھے واپسی کا سفر درپیش ہے۔ گاڑی پختہ سڑک پر رواں دواں ہے ۔ چیلیانوالہ کے ان بے نشاں زمین زادوں کو یاد کرتے ہوئے مجھے فیض احمد فیضؔ یاد آگیا‘ جس نے ایسے ہی آشفتہ سروں کے لیے کہا تھا:
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے