ہم وطنوں کو مبارک ہو۔ پاکستان بدل گیا ہے۔ ایک زمانہ تھا۔ ہماری اسمبلیوں میں ارب پتی اور کروڑ پتی جایا کرتے تھے۔ کوئی غریب یا تھوڑی پونجی والا الیکشن نہیں جیت سکتا تھا۔ 1970ء میں پیپلزپارٹی نے چند غریبوں کو ٹکٹ دیئے ۔ کچھ منتخب بھی ہو گئے۔ اسمبلیوں میں جانے کے بعد انہوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ غریبی سے جان چھڑانے لگے۔ ان پر خدا کا کرم ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے غریبی ان کے گھروں سے روتی دھوتی اور فریادیں کرتی نکل گئی۔ اب وہ غریبی کو دور سے دیکھ کر ہی منہ پھیر لیتے ہیں۔ اگلے الیکشن میں بھٹو صاحب نے ڈھونڈ ڈھونڈ کر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کو ٹکٹ دیئے۔ پیپلزپارٹی اتنی بے تحاشا جیتی کہ مخالفین نے بھٹو صاحب کی کامیابی پر بھی انگلیاں اٹھا دیں۔ بات یہاں تک بڑھی کہ بھٹو صاحب کو جان کے لالے پڑ گئے۔ لالے ہی نہیں میاں صاحبان بھی پڑ گئے۔ یہ جنرل ضیاالحق اور ان کی برادری کے لوگ تھے۔ اس کے بعد اقتدار پرسیاستدانوں کا قبضہ مستحکم ہونے لگا۔ بات اتنی بڑھی کہ جس کے پاس جتنا زیادہ سرمایہ ہوتا‘ الیکشن میں اس کی جیت اتنی ہی یقینی ہو جاتی۔ پہلے پہل پاکستانی سرمایہ کافی رہتا تھا۔ آگے چل کر وہ بھی ناکافی پڑ گیا۔ امیدواروں کو زیادہ دولت مندی ثابت کرنے کے لئے بیرونی سرمائے کی ضرورت پڑنے لگی‘ جو یورپ‘ امریکہ اور خلیج کی ریاستوں سے دھڑا دھڑ آنے لگا۔ اب ہر پارٹی ایسے امیدواروں کی تلاش میں رہتی ہے‘ جنہیں بیرونی سرمایہ فراوانی سے دستیاب ہو۔ اس کا ردعمل پیدا ہونا لازم تھا۔ جو کہ ہوا۔ جتنے زیادہ سرمایہ دار اسمبلیوں میں گئے‘ اتنی ہی زیادہ سرمایہ دار دوست پالیسیاں بننے لگیں۔ غریبوں کے لئے آمدنی کے ذرائع سکڑتے گئے۔ امیروں کے لئے کشادہ ہوتے رہے۔ سابقہ حکومت نے جاتے جاتے سمگل شدہ گاڑیاں اونا پونا ٹیکس دے کر چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔ جن کا حکومت میں اثرورسوخ تھا۔ انہوں نے پہلے ہی سے ہزاروں گاڑیاں سمگل کر کے بلوچستان میں کھڑی کر دیں۔ جیسے ہی پالیسی کا اعلان ہوا‘ لوگ خریداریوں کے لئے بھاگے۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال زیادہ اچھی نہیں۔ پیسے کا لالچ ہر ایک کو وہاں لے جانے لگا۔ جنہوں نے گاڑیاں سمگل کی تھیں‘ وہ چمن کی سرحد پر ہی ایک ایک گاڑی میں پانچ پانچ سات سات لاکھ کما کر فارغ ہو گئے اور نئے خریداررعایتی ٹیکس دے کر گاڑیوں کے مالک بن گئے۔جیسے جیسے رعایت ختم کرنے کی تاریخ نزدیک آتی گئی‘ مالکان گاڑیوں کی قیمتیں بڑھاتے رہے۔ آخری دن نزدیک آنے تک اصل خریداروں کی بچت کم ہونے لگی۔ پہلے جو گاڑی دس بارہ لاکھ میں خرید کر تھوڑے سے ٹیکس سے جائز ہو جاتی‘ اس پر پندرہ بیس لاکھ کا نفع ہوتا۔ لیکن آخر میں یہ نفع ڈیڑھ دو لاکھ کا رہ گیا۔ اصل فائدے میں وہ رہے‘ جو پالیسی کا اعلان ہونے سے پہلے گاڑیاں سمگل کر چکے تھے۔ یہ پالیسی جانے والی حکومت کا سرمایہ داروں کو آخری تحفہ تھا۔ اس تحفے میں کوئی غریب اپنا حصہ نہیں لے سکا۔ کسی غریب کے پاس پندرہ بیس لاکھ نہیں ہوتے۔ ہو جائیں‘ تو وہ غریب نہیں رہتا۔ دولت مندی اور حکمرانی کا گٹھ جوڑ اتنا مضبوط ہو گیا کہ غریب کے لئے اقتدار کی راہداریوں میں روزن دیوار سے جھانک کر دیکھنے کی بھی گنجائش نہ رہی۔ رواں صدی کے آغاز میں پاکستان کے اندر الیکٹرانک میڈیا کا دھماکا ہو گیا اور متوسط طبقہ دیکھتے ہی دیکھتے مکالمے کی دنیا پر چھا گیا۔ یہ ایسا طبقہ ہوتا ہے جو غریبی سے نکلنے کے لئے بے چین رہتا ہے۔ اسے حکمران طبقوں میں رسائی تو مل جاتی ہے۔ داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔ جس پر یہ طبقہ غضب ناک ہو کر سرمایہ داری اور حکمرانی کے گٹھ جوڑ پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ٹی وی چینلز کے اینکروں نے سرمائے اور حکمرانی کے اس گٹھ جوڑ پر بھرپور حملہ کر دیا۔ رائے عامہ کو ان طبقوں کے خلاف اتنا منظم اور مشتعل کر دیا گیا کہ اس طبقے کے حساس لوگوں کو‘عافیت اسی میں نظرآئی کہ سرمایہ داری سے لاتعلق ہونے کا تاثر پیدا کیا جائے اور دوسری طرف معاشرے کے دیگر طبقات جو خود بھی متوسط طبقے کا حصہ ہوتے ہیں‘ سرمائے اور حکمرانی کے گٹھ جوڑ پر کھل کر اظہار خیال کرنے لگے۔ عدلیہ‘ یونیورسٹیاں‘ نوجوان نسل اور خواتین جو فطری طور سے قلب گداز رکھتی ہیں‘ متوسط طبقے کی سوچ کو پھیلانے میں حصہ ڈالنے لگیں۔ گزشتہ ایک عشرے سے یہ عمل بہت ہی دھیرج اور غیرمعلوم طریقے سے جاری ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سرمایہ داری اور حکمرانی کے گٹھ جوڑ کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت سے خوفزدہ ہو کر‘ اس طبقے کا وہ حصہ جس کی بقا کا انحصار عوامی تائید و حمایت پر ہوتا ہے‘ اس نے خود کو سرمایہ داری کے الزام سے بچانے کے لئے‘ وہی نعرے لگانا شروع کر دیئے‘ جو الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے مقبول ہو چکے ہیں۔ عمران خان نے مذکورہ گٹھ جوڑ کے خلاف نعرے کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا اور اپنے بچوں کی اربوں کھربوں ڈالر کی دولت کو عوام کی نگاہوں سے اوجھل کر کے‘ حکومت اور سرمایہ داری کے گٹھ جوڑ پر بھرپور حملہ کر دیا۔ سیاسی مولویوںکی طرح عمران نے بھی ’’جائز‘‘ سرمایہ داری کا دفاع کر کے‘ اسی گٹھ جوڑ سے تعلق رکھنے والوں کو اپنا حمایتی بنانا شروع کر دیا اور ان کے جلسوں کی رونقیں دیکھ کر ‘ گٹھ جوڑ سے تعلق رکھنے والے کئی افراد ‘ ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اسے دیکھ کر گٹھ جوڑ پر حاوی بڑی جماعتیں بھی ہڑبڑا کر‘ ’’جواب دو۔ حساب دو‘‘ کی تحریک میں شامل ہونے لگیں۔ ’’جواب دو۔ حساب دو‘‘ کے اس ماحول میں سرکاری واجبات کی فہرستیں سامنے آ گئیں اور انتخابی امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں دولت کو سیاسی مقاصد کے تحت چھپا کر ‘ غریبی کا نقاب اوڑھنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے امیدواروں کی جو مالی حیثیت سامنے آ رہی ہے‘ اس میں آپ کو صاف نظر آئے گا کہ جانے پہچانے سرمایہ دار بھی‘ اپنی دولت مندی کو چھپانے کی شعوری کوشش کر رہے ہیں۔ یہ کوشش کبھی کبھی مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔ جیسے بجلی کے نادہندگان کی فہرست دیکھ کر ‘ امیدواروں کی حالت پر رحم آتاہے۔نائب وزیراعظم چوہدری پرویزالٰہی میری اور آپ کی طرح صرف 4225 روپے کے مقروض ہیں۔ حنا ربانی کھر 18647 روپے کا بل ادا کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ مخدوم امین فہیم ‘ اسحق ڈار‘ منظوروٹو‘ آفتاب شیرپائو‘ الیاس بلور‘ یہ سارے اتنے مسکین اور غریب ہیں کہ بجلی کا بل ادا نہیں کر سکے۔ ٹیلیفون کے نادہندگان کا حال اس سے مختلف نہیں۔ قمرزمان کائرہ 96807 روپے نہیں دے پائے۔ محکمے نے اگر قسطیں کر دیں‘ تو شاید بلوں کی ادائی ہو جائے۔ مخدوم امین فہیم کی تو حالت اور بھی خراب ہے۔ وہ بیچارے 37434 روپے نہ ہونے کی وجہ سے نادہندوں میں شامل ہو گئے۔ ندیم افضل چن 31034 روپے ادا کرنے سے معذور ہیں۔ جہانگیربدر 2855 روپے کے مقروض ہیں۔ ان سے زیادہ قرضہ تو جمشید دستی پر واجب ہے‘ جس کی مالیت 13152 روپے ہے۔ اپنے علاقے کے رئیس اعظم مخدوم شہاب الدین کی حالت دیکھ کر تو مجھے خدا کی بے پروائی سے شکایت ہو گئی۔ وہ صرف 846 روپے کے مقروض ہیں۔ اگر مجھے پہلے سے پتہ چل جاتا تو میں یہ رقم گھٹنوں کے بل جھک کر‘ ان کی خدمت میں پیش کر دیتا اور عرض کرتا کہ ’’مخدوم صاحب! مجھ سے آپ کی غریبی نہیں دیکھی جاتی۔ یہ رقم لیجئے اور قرض نادہندگان کی فہرست سے اپنا نام نکلوا دیجئے۔‘‘ سرمائے اور حکمرانی کے گٹھ جوڑ میں دراڑیں پڑتے ہوئے دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ اس گٹھ جوڑ کے خلاف عوامی مہم چلانا بہت مشکل ہے اور تبدیلی کا نعرہ بیکار ہو چکا ہے۔ تبدیلی آ گئی ہے۔ سارے امیرزادے‘ کنگال ہو گئے ہیں۔ جن پر دولت مندی کا الزام تھا‘ انہوں نے غریبی کی چادر اوڑھ لی ہے۔ جس امیر کو دیکھو‘ وہ ہر طریقے سے غریب دکھائی دینے کی کوشش کر رہا ہے۔کسی ستم ظریف نے اپنے ایک دوست مولوی صاحب کو تنگ کرنے کے لئے کہا ’’مولوی صاحب! آج کل تو جس چور کو پکڑیں‘ داڑھی والا ہوتا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے‘ جیسے مولویوں نے چوریاں شروع کر دی ہیں۔‘‘ مولوی صاحب نے جواب دیا’’مولوی چور نہیں ہوئے۔ چوروں نے داڑھیاں رکھ لی ہیں۔‘‘
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved