تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-07-2018

شکر ہے‘ گھنٹی بجی تو سہی!

آفاقی حقیقت؟ جیسی کرنی ویسی بھرنی۔ جیسا بویا جائے گا‘ ویسا ہی کاٹا جائے گا‘یعنی جیسے اعمال ویسا پھل۔ 
1966 ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''تیسری قسم‘‘ کے ایک مشہور گیت کا انترا کچھ یوں ہے: 
بھلا کیجیے بھلا ہو گا‘ برا کیجیے برا ہو گا 
وہیں لکھ لکھ کے کیا ہو گا‘ یہیں سب کچھ چکانا ہے 
سجن رے جھوٹ مت بھولو‘ خدا کے پاس جانا ہے 
آپ سوچ رہے ہوں گے‘ ہم بھی یہ کیا قصہ لے کر بیٹھ گئے۔ 
دل بہت خوش ہے۔ خوش کیوں نہ ہو کہ ع 
پیدا کہیں بہار کے ساماں ہوئے تو ہیں 
عوام میں بیداری کی لہر دوڑی تو ہے۔ ایک زمانے سے جس تبدیلی کا انتظار تھا‘ وہ کسی حد تک آگئی ہے اور دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔ یہ تبدیلی معیشتی ہے‘ نہ ریاستی۔ اور نہ اتنی بڑی کہ اس کے آنے کی خوشی میں بینڈ باجے والوں زحمت دی جائے۔ بہت کچھ اب تک نہیں بدلا ‘مگر تبدیلی کا عمل جہاں سے شروع ہونا چاہیے‘ وہیں سے شروع ہوا ہے۔ 
عوام بیدار ہوئے ہیں۔ عشروں کی نیند سے بیدار ہونے پر کچھ دیر تک تو انسان جھونکے مارتا رہتا ہے ‘مگر پھر جب بیدار مغز ہوکر کام شروع کرتا ہے تو معاملات درستی کی راہ پر گامزن ہونے لگتے ہیں۔ اہلِ پاکستان کی اس وقت یہی کیفیت ہے۔ 
ایک زمانے سے کہا جارہا تھا کہ اہل کراچی کا ضمیر سوگیا ہے۔ کسی کی رائے یہ تھی کہ خوف نے زندگی کے ہر معاملے کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ کسی کا خیال تھا کہ بے حسی کی چادر تان لی گئی ہے۔ کوئی کہتا تھا کہ اب کراچی میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہوسکے گی۔ سوال یہ ہے کہ ان بہت سے برسوں میں‘ جو کیفیت کراچی کی تھی‘ کیا وہی باقی ملک کی نہیں تھی؟ ہر جگہ زبردست کا ٹھینگا سَر پر ہی تھا‘ جس کا جتنا بس چلتا تھا ‘وہ اُتنا اندھیر مچاتا تھا اور اختیارات ہاتھ میں آتے ہی وسائل ڈکارنا شروع کردیتا تھا۔ ع 
''چاروں‘‘ طرف ''تھی‘‘ آگ برابر لگی ہوئی 
انتخابات سر پر ہیں۔ پولنگ ڈے نزدیک آرہا ہے۔ انتخابی مہم شروع ہوچکی ہے۔ امیدوار گھر گھر جاکر ووٹرز کو رجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس میں نیا کیا ہے؟ ہر بار ایسا ہی تو ہوتا ہے‘ مگر صاحب‘ کچھ تو نیا پن ہے۔ کوئی تو ایسی بات ہے‘ جسے سراہے بغیر رہا نہیں جاسکتا۔ نیا پن یہ ہے کہ لوگ احتساب کے mood اور mode میں ہیں۔ اُن کی زبانوں پر پہلے صرف شِکوے رہا کرتے تھے۔ اب سوال بھی ہیں۔ وہ ''کِھنچائی‘‘ کرنے کے مُوڈ میں ہیں۔ عوام کو اپنے سوالوں کے جواب چاہئیں۔ اور سارے سوال بنیادی مسائل کے بارے میں ہیں۔ 
ہر پارٹی کے امیدواروں کو عوامی رابطہ مہم کے دوران ووٹرز کے سوالوں کا سامنا ہے۔ کراچی میں بلاول بھٹو کو بھی تیکھے سوالوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے وقت پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو‘ چھوٹے پیمانے ہی پر سہی‘ عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔ ان پر آوازے کسنے کے ساتھ ساتھ کہا گیا کہ پیپلز پارٹی کے کرتوتوں سے دنیا واقف ہے۔ باباجی اُسے دوبارہ اقتدار نہیں دیں گے! کچھ دیر بعد وہ لیاری گئے‘ تو گو بلاول گو کے نعرے بھی لگائے گئے اور یہ سوال بھی داغا گیا کہ جب لیاری میں گولیاں چلتی تھیں‘ تب آپ کہاں تھے؟ احتجاج کے وقت عوام نے گندے پانی کی بوتلیں بھی اٹھا رکھی تھیں۔ 
نماز جمعہ کے بعد بولٹن مارکیٹ کی میمن مسجد میں ایم کیو ایم کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کو بھی عوام کے چُبھتے ہوئے سوالوں اور طعنوں کا سامنا رہا۔ کہا گیا کہ اسلحے کے زور پر کھالی چھینی جاتی تھیں۔ اب اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو‘ معافی مانگو۔ فاروق ستار نے سخت تلخ جملے بھی ہنستے ہوئے جھیلے اور اپنی طرف سے کوئی بدمزگی پیدا کیے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ 
پی ٹی آئی کے ڈاکٹر عارف علوی اور خرم شیر زمان کو بھی ووٹرز کے اشتعال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کراچی میں عوامی رابطہ مہم کے دوران عارف علوی کو لوگوں نے گھیر لیا اور پانچ سالہ کارکردگی پر طرح طرح کے سوال کیے۔ عارف علوی انہیں سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ جب لوگ چپ نہ ہوئے تو عارف علوی بھی چیخنے چلانے لگے اور پھر وہاں سے چلے گئے۔ اس سے قبل خرم شیر زمان کا بھی یہی معاملہ رہا تھا۔ 
سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ‘ قومی اسمبلی میں سابق اپوزیشن لیڈر سید خورشید احمد شاہ اور سندھ کابینہ کے سابق رکن سید ناصر حسین شاہ کو بھی اپنے اپنے حلقے میں ووٹرز کے تند و تیز سوالوں اور ریمارکس کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ مراد علی شاہ سے کارکردگی کے بارے میں سوال کرنے والا جب چپ ہونے پر راضی نہ ہوا تو وہ اُسے کے ڈانٹنے کے بعد بڑبڑاتے ہوئے چلے گئے۔ پنجاب میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت چل رہی ہے‘ جو بھی ووٹ مانگنے نکلتا ہے‘ اُسے عوام گھیر لیتے ہیں۔ جمال لغاری سے یہ سلسلہ شروع ہوا۔ 
عوام کو جب ایک مدت کے بعد احتساب کا موقع ملتا ہے‘ تو وہ شعور اور تعقل کی حدود میں نہیں رہتے اور کچھ بھی کر گزرنے پر بضد رہتے ہیں۔ اب کے ووٹرز کا کچھ ایسا ہی موڈ ہے۔ سیاست دانوں کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔ اب اُن سے حساب طلب کرنے کی ذہنیت پیدا ہوچکی ہے۔ یہ تبدیلی چونکہ اس قدر نمایاں طور پر پہلی بار پیدا ہوئی ہے‘ اس لیے لوگوں میں غیر معمولی جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ بہت سوں کو تو اس بات کا بھی اندازہ نہیں کہ ووٹ مانگنے آنے والوں سے بات کس طور کی جائے اور ان سے کارکردگی کا حساب کس طور لیا جائے۔ ایسے میں گیہوں کے ساتھ گُھن بھی پِس جاتا ہے‘ مگر کیا کیجیے کہ ع 
اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں 
اب تک تو عوام کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجتی رہی ہیں۔ شکر ہے‘ پہلی بار ان کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی بجی ہے‘ جو اب تک مینڈیٹ کے مزے لوٹتے رہے ہیں۔ ''کھمبا ووٹ‘‘ والی ذہنیت کے لیے عوام کا بیدار ہو جانا زہرِ قاتل ہے۔ سیاسی جماعتیں یہ سمجھتی رہی ہیں کہ کچھ بھی نہ کریں تب بھی ووٹ تو ملتے ہی رہیں گے۔ انتخابی عمل کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں بھی ''مینڈیٹ‘‘ یقینی بناتی رہی ہیں۔ یہ سلسلہ عوام کو توڑنا ہے۔ 
ایک زمانے کے بعد ہی سہی‘ عوام نے سوچنا اور بولنا سیکھا تو ہے۔ سوشل میڈیا کا کردار اس حوالے سے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ موبائل کیمرے نے بہت کچھ بہت آسان بنادیا ہے۔ اور کچھ ہو نہ ہو‘ ویڈیو تو فوری طور پر وائرل ہو ہی جاتی ہے۔ اس طوفان کو تھامنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ مین سٹریم میڈیا ساتھ نہ بھی دیں تو سوشل میڈیا پر وژیوئلز کی مدد سے عوام اپنی بات بخوبی بیان کرسکتے ہیں۔ دعا یہ ہے کہ ع 
بڑھتی رہے یہ روشنی‘ چلتا رہے یہ کارواں 
عوام کو یاد رکھنا ہے کہ دِیا جلائے رکھنا ہے۔ اُن کے باشعور ہونے ہی پر بہت سی ایسی تبدیلیوں کا مدار ہے‘ جن کے بارے میں اِس وقت سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ جب وہ اپنے حقوق کے حوالے سے بیدار ہوں گے‘ تو صرف سیاست دانوں کا نہیں‘ بلکہ ہر شعبے کے ذمہ داروں کا احتساب ممکن ہوسکے گا۔ مینڈیٹ پاکر عوام کو بھول جانے والوں کے ساتھ ساتھ اُن سب کا بھی گھیراؤ ہونا چاہیے‘ جو قدم قدم پر عوام کے وسائل کو درندوں کی طرح نوچ نوچ کر کھا جاتے ہیں۔ ہر شعبے اور ہر معاملے کا احتساب ہی اِس پہلے قدم کی منزل ہونا چاہیے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved