تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     04-07-2018

جسے میخانہ کہتے ہیں

1973ء کے مقدس دستور نہیں‘ ملک کو پاکستانی فوج نے بچا رکھا ہے۔ آئین کی تکریم ‘اگر دلوں میں ہوتی تو سیاست کا بازار کیا مچھلی بازار بنا ہوتا‘ جہاں پگڑی اچھلتی ہے‘ جسے میخانہ کہتے ہیں۔
کرپشن سوا‘ میاں محمد نوازشریف اور ان کے ساتھیوں سے اصل شکایت دوسری ہے؛ چنانچہ ان کی حمایت میں بروئے کار شمشیر برادروں سے بھی۔ قومی دفاع کے معاملات میں وہ حسّاس واقع نہیں ہوئے۔ استعمار سے مرعوب یاوابستگان بعض لبرلز اور کٹھ ملائوں کا معاملہ الگ ہے۔ اس کے سوا وہ کریں بھی تو کیا کریں۔ اپنے وطن کو دل و جان سے انہوں نے قبول ہی نہیں کیا۔ ان کے سوا بھی ایک مخلوق ہے‘ اپنی اغراض سے جنہوں نے شریف خاندان کا دامن تھام رکھا ہے۔ ظل ِالٰہی کا درجہ انہیں دے رکھا ہے۔ تعجب اس پر بھی کوئی نہیں۔ باقیوں کا حال بھی یہی ہے۔ غلامی کی صدیوں کے اثرات اور شخصیت پرستی۔
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے ناامیدی
مجھے بتا تو سہی‘ اور کافری کیا ہے
بار بار عرض کیا‘ عقل کبھی تنہا نہیں ہوتی۔ پوری طرح کبھی آزاد نہیں ہوتی۔ کوئی نہ کوئی مثبت یا منفی جذبہ اس کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ کسی کی ذات اگر کسی گروہ سے وابستہ ہے تو ہر حال میں وہ اس کا دفاع کرنے اور اس کے مخالفین کی مزاحمت کرنا چاہے گا۔ ''کپتان اور درویش‘‘ کے موضوع پر میں کبھی نہ لکھتا۔ مصروفیات اب زیادہ ہیں۔ اُردو اخبارات کے نوّے فیصد کالم اب پڑھ نہیں سکتا۔ باایں ہمہ دیکھتی آنکھوں مکھّی کون نگل سکتا ہے؟۔
عمران خان پہ تنقید روا ہی نہیں‘ اب ضروری بھی ہے۔ ان کی سیاست کا دفاع یہ ناچیز اب نہیں کرنا چاہتا... اور اس کی قیمت بھی ادا کر رہا ہے۔ تحریک ِ انصاف اور دوسری پارٹیوں میں اب کوئی بڑا فرق باقی نہیں۔ اس کے سوا کہ دفاعی معاملات میں بہرحال وہ محتاط ہیں۔ جناب آصف علی زرداری کے حالیہ انٹرویو سے واضح ہے کہ کسی وقت بھی انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے زیراثر‘ میاں محمد نوازشریف سے وہ سمجھوتہ کر سکتے ہیں۔ بارہا انہوں نے کیا ہے۔ یہ ان کی سیاسی ضرورت ہے کہ میاں محمد نوازشریف کے برعکس فی الحال خطّے میں بھارتی بالادستی کی وہ حمایت نہیں کر رہے۔
ایجنڈا ان کا واضح ہے۔ ہر حال میں سندھ کا اقتدار انہیں بچانا ہے۔ عملی طور پر مطالبہ ان کا یہ ہے کہ سندھ میں متعین رینجرز بہرحال ان کی قانون شکنی کو نظرانداز کریں۔ جب اور جس طرح وہ چاہیں‘ صوبے میں پولیس اور افسر شاہی کو استعمال کریں۔ اپنے مخالفین کی تذلیل‘ اپنی سیاست کے فروغ اور اپنی جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے۔ دعویٰ ان کا یہ ہے کہ ان کے مخالفین کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ کرپشن اور من مانی کا لائسنس مانگتے ہیں‘مکمل آزادی! 
اپنی خبر پہ ناچیز کو اب بھی اصرار ہے کہ لاہور میں عالمی استعمار کے ایک پسندیدہ کردار کے ہاں‘ میاں محمد نوازشریف سے‘ ان کی خفیہ ملاقات ہوئی۔ الگ الگ ذرائع کی معلومات اس بارے میں قدرے مختلف ہیں۔ زیادہ قابلِ اعتماد ذریعے کا کہنا یہ ہے کہ الیکشن کے بعد ان دونوں معزز رہنمائوں نے مرکز میں متحدہ حکومت تشکیل دینے کا پیمان کیا۔ دوسرے کا دعویٰ یہ ہے کہ صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر وہ نوازشریف کے مخالفین سے بھی معاملہ طے کر سکتے ہیں۔ شرط یہ ہوگی کہ صدرِ پاکستان کا منصب طشتری میں رکھ کر انہیں پیش کردیا جائے۔ صوبہ سندھ ان کے سپرد رہے‘ جہاں پولیس اور انتظامیہ کی مدد سے وہ الیکشن جیتیں۔ گنے کے کاشتکاروں کا خون پیتے رہیں۔ موصوف اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات سردخانے میں پڑے ہیں‘ وہیں پڑے رہیں۔
نون لیگ اگر کمزور ہو کر منتشر ہو جائے اور پی ٹی آئی اپنے تضادات کی نذر ہو سکے تو آئندہ انتخابات میں بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کریں۔ جب تک ممکن ہو ملک ان کی چراگاہ بنا رہے۔ جب یہ ممکن نہ رہے تو سمندر پار جا اتریں‘ جہاں ان کی جائیدادیں دنیا بھر کے بڑے بڑے شہروں میں بکھری پڑی ہیں۔ جہاں وہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی صاحبزادی صنم بھٹو اور ان کی اولاد کی طرح آزاد زندگی بِتا سکیں۔ فرق یہ ہے کہ صنم بھٹو کے پاس دولت کے انبار نہیں؛ اگرچہ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ ہاتھی مرکے بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔
دولت اور اقتدار کے بھوکے ذہنی مریض ہوتے ہیں۔ جتنا زیادہ بھوکا‘ اتنا زیادہ ذہنی مریض۔ یوں بھی کھرب پتیوں کا کوئی وطن نہیں ہوتا۔ انگریزی میں کہتے ہیں: frontiers They have no flags and۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ 2013ء میں برسراقتدار آنے کے بعد بھی میاں صاحب محترم نے ہر عید لندن میں منائی۔ حیلے بہانے سے آئے دن برطانیہ کے دورے کرتے رہے۔ میاں صاحب اور زرداری صاحب کا زیادہ سامان سمندر پار دھرا ہے۔ زرداری صاحب کا بیشتر دبئی میں اور میاں صاحب کا برطانیہ میں۔آدمی وہیں آسودہ ہوتا ہے‘ جہاں اس کا سامان ہو‘ دھن دولت ہو۔
اب یہ آشکار ہے کہ لندن میں ان کی اور بھی بہت سی جائیدادیں ہیں۔ اگر یہ الزام نادرست ہوتا تو برطانوی اخبار ڈیلی میل پر وہ دعویٰ دائر کرتے‘ ایک ارب ڈالر ہر جانے کا۔ برطانیہ پاکستان نہیں ہے کہ معتوب ہو کر بھی آپ برسوں تک مقدمے کو گھسیٹتے رہیں۔ زیادہ سے زیادہ تین چار ماہ میںفیصلہ ہو جاتا ہے۔
یہ بھی خوش فہمی ہے کہ جمعرات یا جمعہ کو احتساب عدالت کا فیصلہ میاں صاحب کے خلاف ہوا تو برطانیہ میں ان کی جائیداد خطرے میں ہوگی۔ کیا اب تک انہوں نے اس کا بندوبست نہیں کیا ہوگا؟ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل پر بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ فرض کیجئے نہیں ہیں۔ مگر یہ توساری دنیا نے دیکھا کہ کرنسی کے انبار تو الطاف حسین کے گھر سے برآمد ہوئے ۔ موصوف گھبرا گئے تھے۔ برطانیہ سے فرار ہونے کی کوشش کی۔ اپنے کارکنوں سے‘ یہ تک کہہ دیا کہ وہ گرفتار ہو سکتے ہیں۔ آخر کار ہوا کیا؟۔
عمران خان ناچیز سے بحث کیا کرتے کہ برطانوی نظامِ انصاف بہت کارگر ہے۔ الطاف حسین بچ نہیں سکتے۔ عرض کیا: بے شک بڑی حد تک بے عیب ہے۔ مگر استعماری طاقتوں میں حکومت کے اندر بھی ایک حکومت ہوتی ہے۔ ایم آئی سکس نے الطاف حسین کو اس طرح نکال لیا‘ جس طرح مکھن سے بال۔
اس خطۂ ارض میں نوازشریف بھارتی بالادستی کے امریکی نظریے سے متفق ہیں۔ عاصمہ جہانگیر‘ پرویزرشید اور نجم سیٹھی ایسے کردار سوچ سمجھ کر ان کے ساتھ کھڑے رہے؛ حتیٰ کہ خطرات مول لیے۔ سب مغرب نواز این جی اوز ان کے ساتھ ہیں۔ ایک بار نہیں بار بار یہ ثابت ہو سکا کہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے لیے میاں صاحب نرم گوشہ رکھتے ہیں؛ حتیٰ کہ پاکستان کے باب میں نظریاتی ترجیحات سے بھی پاکستانی فوج کو وہ بھی کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔یہ فوج کمزور ہوتی تو دہشت گردی سے نمٹ نہ سکتی۔پاکستان ‘شام ‘لیبیا یا عراق بن چکا ہوتا۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے اور تمام مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں کہ مشرکین سے مصالحت ممکن ہے‘ ہم آہنگی نہیں۔ فرمان یہ ہے کہ وہ کبھی تم سے راضی نہ ہوں گے۔ میاں صاحب ‘مگر یہ فرماتے ہیں کہ بھگوان اور رب میں کوئی فرق نہیں ''بس بیچ میں ایک لکیر ہے‘‘۔ ایک بار جس کے ساتھ عناد کا رشتہ قائم ہو جائے‘ اسے معاف کر دینے کا میاں صاحب کوئی تصور نہیں رکھتے۔ یہ ''اصول‘‘ مستقل طور پر اب ان کے مدنظر ہے کہ دشمن کا دشمن‘ دوست ہوا کرتا ہے۔ پاک فوج عالمی استعمار کا ہدف ہے اور میاں صاحب کا بھی۔
اپنے جذبات کی آگ میں‘ جس بنیادی بات کو ہم نظرانداز کرتے ہیں‘ وہ یہ ہے: 1973ء کے مقدس دستور نہیں‘ ملک کو پاکستانی فوج نے بچا رکھا ہے۔ آئین کی تکریم اگر دلوں میں ہوتی تو سیاست کا بازار کیا مچھلی بازار بنا ہوتا‘ جہاں پگڑی اچھلتی ہے‘ جسے میخانہ کہتے ہیں۔
پس تحریر: ''درویش اور کپتان‘‘ کے عنوان کا سلسلہ وار کالم فی الحال ملتوی‘ انشاء اللہ جلد ہی لکھوں گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved