تحریر : محمد اعجاز میاں تاریخ اشاعت     04-07-2018

جمہوری مداری اور جمورے ...!

وطن ِ عزیز کے قیام کے بعد ایک مرتبہ‘ عسکری حلقوں کی جانب سے سیاسی مشورہ دینے کی کوشش کی گئی ‘تو بانیٔ پاکستان قائداعظمؒ نے سختی سے روک دیا۔ قائد اعظمؒ نے فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھا‘ لیکن بد قسمتی سے نوزائیدہ مملکت اپنے قیام کے بعد اندرونی اور بیرونی خطرات میں گھر گئی۔1948 ء کی بھارت کے ساتھ جنگ‘ مسئلہ کشمیر‘ صوبائی علیحدگی پسندوں کی شورشوں‘ آئین کی عدم موجودگی اور سیاسی بلوغت نہ ہونے کے ماحول نے سکیورٹی اداروں کے اثر و رسوخ کو بڑھا دیا۔ داعی ٔاجل نے قائد اعظمؒ کو زیادہ مہلت نہ دی اور آنے والے چند سالوں میں سیاستدانوں کی کمزوری کے باعث یہ عمل دخل بڑھتا گیا۔ اس طرح ایک غیر مستحکم سیاسی کلچر نے جنم لیا؛ حتیٰ کہ1958 ء میں ایوب خان نے ایوانِ اقتدار میں ڈیرے جما لیے ۔ اس کے بعد یونہی سلسلہ چل نکلا۔ ایوب خان جاتے ہوئے اقتدار سپیکر کے حوالے کرنے کی بجائے یحییٰ خان کے سپرد کر کے اپنے ہی تشکیل کردہ آئین کی دھجیاں اڑا گئے ۔ اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے مارچ 1969 ء کو جنرل یحییٰ خان کو اقتدار سونپ دیا گیا‘ جنہوں نے ایک بار پھر پاکستان کے آئین کو منسوخ کرتے ہوئے مارشل لاء لگا دیا۔
1970 ء کے انتخابات کے بعد ''اُدھر تم‘ اِدھر ہم‘‘ کے نعرے کے بعد ملک دو لخت ہو گیا اور اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کے سپرد کر دیا گیا۔ 1973 ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پاکستان کا تیسرا متفقہ آئین بنایا گیا‘ جس کے تحت 1977 ء کو دوبارہ انتخابات منعقد ہوئے اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر کامیاب ہوئی ‘لیکن حزب ِ اختلاف نے حکومت پر قومی اسمبلی کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے اور جلسے جلوس ر ہنگامے شروع ہونے لگے‘ جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک مرتبہ پھر آمریت کا دروازہ کھلا۔ جولائی 1977 ء کو ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کر کے ایک مرتبہ پھر پاکستان کے آئین 1973 ء کو معطل کر دیا اور بعد ازاں عدلیہ کے فیصلہ کے نتیجہ میں ذوالفقار بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا اور 1988 ء تک برسر اقتدار رہے ۔جنرل ضیاء الحق کی طیارہ حادثہ میں وفات کے بعد 1988 ء کو دوبارہ جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے ۔ الغرض حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں‘ ماورائے آئین اقدامات ہوتے رہے ۔ 1997 ء میں میاں نواز شریف بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے اور عنان ِاقتدار سنبھالی‘ لیکن چند سال بعد یہ بھاری اکثریت کا گھمنڈ اُن پر ہی بھاری پڑ گیا‘ کیونکہ میاں نواز شریف اپنے آپ کو امیر المومنین بنانے کے چکر میں ریاستی اداروں سے ٹکر لے بیٹھے اور اسی چپقلش میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو اچانک معزول کر دیا‘ جو اس وقت بیرونی دورے سے پاکستان واپس آ رہے تھے ۔ میاں نواز شریف نے سازش کے تحت مشرف کے طیارے کو لینڈنگ کی اجازت نہ دی۔ میاں نواز شریف کے اس آمرانہ اقدام نے ملک کو مارشل لاء کی اندھیروں میں دھکیل دیا۔ اس طرح نومبر 1999 ء کو پاک فوج نے نواز حکومت کو اقتدار سے الگ کر دیا۔ ایک بار پھر سے آئین کی شامت آئی‘ جو جنرل پرویز مشرف کے ماتحت 2008 ء تک چلتا رہا۔ جنرل مشرف نے ایوب خان کے BD سسٹم کے طرز کا لوکل سسٹم رائج کر کے ایک نام نہاد سیاسی کٹھ پتلیوں کا ایک کلچر پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ 
2007 ء میں بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008ء میں پیپلز پارٹی کی این آر او زدہ حکومت ‘معرض ِوجود میں آئی اور آصف علی زرداری کی آشیر باد تلے پورے پانچ سال کرپشن‘ لوٹ مار‘ بجلی و گیس کا بحران دے کر اور ملکی اداروں کا بیڑہ غرق کر کے لولی لنگڑی جمہوریت کا بھرم رکھ کر رخصت ہوئی‘ جس کے بعد 2013ء میں عام انتخابات ہوئے‘ جس میں میاںنواز شریف ایک بار پھر بر سر اقتدار آئے اور آتے ہی چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے ‘ دہشت گردی پر قابو پانے اور عوامی مسائل حل کرنے کے بلند و بانگ دعوے کیے ‘ لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہی نام نہاد جمہوری فطرت غالب آئی اور ڈان لیکس کا شوشہ چھوڑ دیا گیا؛حالانکہ ڈان لیکس جیسی چیزوں کا ترقی یافتہ ممالک میں بھی تصور نہیں۔ جیسا کہ امریکی تاریخ میں کسی صدر نے سی آئی اے کی خارجی ریشہ دوانیوں کا کبھی تذکرہ نہیں کیا‘ بلکہ ریاست نے ہر پلیٹ فارم پر ان کا دفاع کیا ہے ۔ اس کے بعد پانامہ لیکس کا معاملہ‘ ختم نبوت کے حلف نامہ میں تبدیلی‘ جیسے معاملات نواز حکومت کے لیے وبال ِجان بنتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ میاں نواز شریف کو پانامہ لیکس کی پاداش میں نا اہلی کی صورت میں اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ سیاستدان جمہوریت کا دم تو بہت بھرتے ہیں‘ لیکن جس آئین کے دائرے میں فوج کو لانا چاہتے ہیں‘ اس میں خود نہیں رہتے ۔ سیاست میں جاگیر داروں‘ سرمایہ کاروں کا راج ہے ۔ نچلے اور متوسط طبقات پر سیاست کے دروازے بند ہیں‘ جس کا نتیجہ یہ ہے‘ جو مسائل آج سے ستر سال قبل موجود تھے‘ وہ جوں کے توں‘ بلکہ بدترین صورت میں موجود ہیں۔
اس جمہوری نظام نے ستر سالوں میں کوئی ویژنری لیڈر نہیں‘ بلکہ جمہوری جمورے پیدا کیے ہیں‘ جن میں سوائے جمہوریت کے سب کچھ ہے۔ اور ملک مسلسل جمہوری جموروں اور مداریوں کے تسلط میں ہے ۔ یہ نام نہاد جمہوریت کے ٹھیکیدار فوج کو اپنے نظام پٹوار میں شامل کر کے ایک ایسی بادشاہت لانا چاہتے ہیں‘ جس میں صرف مریم‘ حمزہ‘ بلاول اور ان کی اولادیں بمعہ ان کے مالشیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ملک میں لوٹ مار کر کے سرمایہ باہر منتقل کر سکیں۔ اس نظام نے جمہوری جموروں کے تحفظ کے سوا آج تک کچھ نہیں کیا۔ جہاں تک فوج کی مداخلت کی بات ہے‘ جس کا رونا اکثر جمہوری جمورے روتے رہتے ہیں۔ یہ مداخلت کسی نہ کسی حد تک دنیا کی ہر مملکت میں رہتی ہے ۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں منصوبہ بندی اور پالیسی سازی میں پینٹا گان کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا گیا۔ کم از کم خارجی معاملات میں پینٹا گان‘ کلیدی کردار ادا کرتا ہے ‘لیکن ہمارے ملک میں سول و عسکری تعلقات میں بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے‘ جب یہ جمہوری جمورے اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھتے ہوئے‘ یہ خواہش کرتے ہیں کہ ہر ادارہ انہیں سیلوٹ کرے اور ان کی جی حضوری کرے اور یہ ساری مداری پانچ سال تماشہ لگانے کے بعد لوٹ مار کرکے اور اپنے اثاثوں کو وسعت دے کر بیرون ملک نکل جائیں‘ حالانکہ ان کی اپنی حالت تو یہ ہے کہ جمہوریت کے دعویدار ایک کرکٹ میچ تک فوج کی مدد کے بغیر کروانے کی اہلیت نہیں رکھتے ۔ کسی قدرتی آفت کی صورت میں فوج کی مدد کے بغیر عوام کو ریلیف نہیں دے سکتے ۔ افسوس تو یہاں تک ہے کہ یہ جمہوری نظام عام انتخابات کروانے میں بھی فوج کا محتاج ہے ۔
لیکن اب صورتحال یکسر بدل رہی ہے ۔ اداروں پر سے جمہوری جموروں کا تسلط ٹوٹ رہا ہے ۔ عدلیہ آہستہ آہستہ جمہوری چمک سے آزاد ہوتی نظر آ رہی ہے ۔ جیسا کہ عدلیہ کا حالیہ کردار سب کے سامنے ہے ۔ عدالتی فعالیت اور مفاد عامہ کے تحفظ کی سوچ نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا ہے ۔ اب آزاد عدلیہ‘ آزاد میڈیا اور سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے عوام کافی حد تک ان جمہوری جموروں کی ریشہ دوانیوں کو سمجھ چکے ہیں اور ان کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔ مشرف کی جلا وطنی فوجی طالع آزمائوں کے لیے عبرت کا نشان ہے اور اب عسکری قیادت کسی بھی قسم کے ایڈونچر سے پرہیز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ باجوہ ڈاکٹرائن "Non interference in politics & support state institutions for rule of Law" کامیابی کے ساتھ گامزن ہے ۔ اب وقت ہے کہ تمام ادارے اپنی حدود اور استعداد کے مطابق ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں اپنی وسیع تر خدمات پیش کریں۔
ان تمام جمہوریت کی ناکامیوں کی وجہ ہمارا فرسودہ انتخابی نظام ہے‘ جو صرف ان جمہوری مداریوں اور ان کے جموروں کے مفاد کے تحفظ اور فروغ کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے ۔ جان بوجھ کر انتخابی اصلاحات کی تمام کاوشوں کو ناکام بنا دیا گیا۔ اس ملک میں ایک سو خاندان اور برادریوں کے جمہوری جموری ایک مداری کو ہی اپنا لیڈر منتخب کریں گے اور کسی ویژنری کو ملک کی تقدیر بدلنے نہیں دیں گے ۔ اس کا ایک ہی حل ہے کہ انتخابی اصلاحات کے ذریعے جمہوری دھاندلی اور سرمایہ کاری بندی ہو سکے اور 'خلائی مخلوق‘ جمہوری مداریوں اور جموروں کے تسلط سے جمہوریت آزاد ہو سکے اور عام آدمی جمہوری نظام کا حصہ بن سکے اور اس کی گورننس عام آدمی کی امنگوں کی ترجمان ہو ‘تا کہ آنے والے وقت میں ادارے مضبوط ہو سکیں اور قوم صحیح طور سے جان سکے کہ کون سی قیادت کام کرنے کی اہل ہے اور کون نا اہل ہے ۔ تبھی مستقبل میں ہمیں ویژنری لیڈر میسر آ سکیں گے‘ ورنہ ایسی جمہوریت کی کوکھ سے جمہوری مداری اور ان کے جمورے ہی پیدا ہوں گے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved