تحریر : حسن نثار تاریخ اشاعت     30-03-2013

آدھا ملک… آدھی آبادی

اس ’’خوشخبری‘‘ پر کسے یا کس کس کو ڈوب مرنا چاہیے؟ پاکستان کے حکمران طبقات کی کل کمائی کیا ہے؟ ان بانجھ‘ بنجر اور بے فیض آکاس بیلوں نے 65 سالوں میں اس ملک اور اس کے لاوارث عوام کے ساتھ کیا کیا ہے؟ پہلے یہ آدھا ملک کھا گئے اور اب یہ خبر آئی ہے کہ بچے کھچے آدھے ملک کی آدھی آبادی خطِ غربت کے نیچے ایڑیاں رگڑ رہی ہے۔ یہ اقبال کے شاہین نہیں‘ ذبح شدہ ایسی مرغیاں ہیں جو موجودہ نظام کے ’’ڈرم‘‘ میں پھڑپھڑا رہی ہیں۔ ’’خطِ غربت‘‘ جدید اقتصادیات کی اک ایسی اصطلاح ہے جسے سننے اور پڑھنے کے بعد اس پر سوچنے اور غور کرنے کا کوئی رواج نہیں تو میں عرض کرتا چلوں کہ یہ وہ حالت اور کیفیت ہے جس سے ہمارے آقاؐ نے پناہ مانگی کہ یہ تو انسان کو کفر تک بھی لے جا سکتی ہے تو کیا یہی اسلام کی تجربہ گاہ المعروف پاکستان بلکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا انجام ہونا تھا؟ وسائل کی غیر منصفانہ و بے رحمانہ تقسیم اشرف المخلوقات کو احقر المخلوقات میں تبدیل کر کے انہیں جانوروں سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ عموماً کثرتِ زر کا شکار بھی جانور اور قلتِ زر کا شکار بھی جانور بن جاتا ہے کہ جن کے پاس بنیادی ضرورتوں سے بھی کم ہو وہ انسانیت اور عزتِ نفس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ خوشامد‘ جھوٹ‘ کام چوری‘ حرام خوری‘ ہیرا پھیری ان کی بُنت و ہیئت میں شامل ہو جاتی ہے اور جن کے پاس ان کی ضروریات سے بے شمار زیادہ جمع ہو جائے وہ عموماً عیش و آرام‘ غرور و نخوت‘ سہل پسندی کے عوارض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دینِ کامل کے بنیادی ترین مقاصد میں سے ایک یہ تھا کہ انسانی معاشرہ میں دولت اور طاقت کے ارتکاز کا خاتمہ کر دیا جائے۔ پاکستان اس کے بالکل برعکس بدترین‘ بھیانک ترین منظر پیش کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک ادارے کی رپورٹ ہمیں ہماری اصل اوقات سے آگاہ کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ ’’وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے پاکستان میں امیر غریب کے درمیان خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے والے 186 ممالک میں اسلامی جمہوریۂ پاکستان کا 146 واں نمبر ہے‘‘۔ دولت کی اس مشرکانہ تقسیم کے بعد طاقت کی طرف آئیں تو یہی رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ…… ’’ملکی سیاست پر تقریباً ایک سو خاندانوں کا قبضہ ہے‘‘ باقی صرف قومی ترانے اور ملّی نغموں پر گزر بسر کر رہے ہیں۔ کہنے کی حد تک ’’علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے‘‘ لیکن عملاً یہ کہ تعلیم اور صحت میں پاکستان سب سے پیچھے ہے۔ انتہا یہ کہ تعلیم اور صحت کے حوالے سے پاکستان میں کانگو سے بھی کم خرچ ہوتا ہے اور ہم ان میدانوں میں بھارت‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا سے بھی پیچھے ہیں لیکن ماشاء اللہ اسلحہ خریدنے والے ممالک میں ہم صفِ اول میں دوسرے نمبر پر ہیں۔ چوراہوں میں جنگی جہاز نصب ہیں‘ چوک کا نام چاغی چوک اور دیواروں پر لکھا ہے…… ’’فلاں فلاں کے سنگ انڈیا امریکہ سے جنگ‘‘۔ کتنی سنگدلی اور بے حیائی کے ساتھ 65 سال سے عوام کا استحصال جاری ہے۔ امیرِ شہر غریبوں کو لوٹ لیتا ہے کبھی بحیلۂ مذہب‘ کبھی بنامِ وطن مذہب اور ملک کے نام پر جیسی تباہی یہاں مچائی گئی‘ عصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور سرزمین پر ایسی ہارر فلم چلی ہو لیکن یہ غیر معینہ مدت کے لیے ممکن نہیں کیونکہ یہ فطرت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اسی لیے تو فرمایا ’’کفر پر قائم معاشرہ تو زندہ رہ سکتا ہے ظلم پر قائم معاشرہ نہیں‘‘…… تو کیا ہم قائم رہنے سے گریزاں ہیں؟ ٹالسٹائی نے مدتوں پہلے کہا تھا‘…… ’’موجودہ نظام میں اپنے پڑوسی کی جیب خالی کیے بغیر کوئی شخص اپنی جیب نہیں بھر سکتا۔ الف لیلیٰ کے پیر تسمہ پا کی طرح برسر اقتدار اور صاحبانِ زر مفلس و لاچار پر سختی سے سوار ہیں۔ وہ غریبوں کو زندہ رکھنے کے لیے انہیں تھوڑی بہت خوراک بھی مہیا کرتے ہیں‘ کچھ نہ کچھ تعلیم کا بندوبست بھی کرتے ہیں‘ انہیں قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا ڈھنگ بھی سکھاتے ہیں‘ آزادی حاصل کرنے کے گُر اور تراکیب بھی سمجھاتے ہیں‘ دلکش راگ بھی سناتے ہیں‘ اپنی طاقت و امارات سے مرعوب بھی کرتے ہیں مگر ان کی پیٹھ سے اترنے کا نام نہیں لیتے‘‘ برنرڈ شا کہتا ہے: ’’دنیا کا سب سے بڑا اور بدترین گناہ غربت ہے۔ زناکاری‘ قتل‘ غبن‘ ڈاکہ‘ رشوت‘ چوری‘ جوا وغیرہ غربت کے مقابلہ پر عظیم نیکیاں ہیں‘‘۔ بے حس و بے حیا اشرافیہ نے آدھا ملک گنوا کر باقی آدھے ملک کی آدھی آبادی کو خطِ غربت کے نیچے دبا دیا لیکن کب تک؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved