ہم میں سے کون ہے‘ جو آپشن ملنے پر بے دِلی سے جینا چاہے گا؟ یقیناکوئی بھی بے دِلی کو آپشن کے طور پر نہیں اپنائے گا۔ ایسا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جب کسی آپشن کو اپنانے کے مرحلے سے گزرے بغیر ہی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ جی ہاں! ہم عمومی سطح پر اپنے حقیقی مفاد سے یکسر بے نیاز ہوکر وہی کچھ کر رہے ہوتے ہیں ‘جو ہمارے مفاد کے خلاف ہوتا ہے۔ سمجھنے اور سوچنے کی زحمت گوارا کیے بغیر ہم محض مشینی اور غیر انسانی انداز سے وہی کچھ کر رہے ہوتے ہیں ‘جو کسی بھی اعتبار سے ہمارے کام کا نہیں ہوتا۔
گزشتہ روز نیٹ پر ایک وڈیو دیکھی ‘جس میں ایک ''گورا‘‘ یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ جو کام پسند نہ ہو اُسے کرتے رہنا زندگی کو کچرے کے ڈھیر پر پھینکنے کے مترادف ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ اُس کی کوئی معمولی سی چیز بھی کچرا کنڈی میں ڈال دی جائے ‘مگر ہم اپنے آپ ہی سے یہ ستم ظریفی روا رکھتے ہیں کہ زندگی ایسی نعمت کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں اور اس پر شرمندہ ہوتے ہیں نہ افسردہ۔
نعمت گردانتے ہوئے‘ جس کی ہم کماحقہ قدر نہیں کرتے ‘اُس زندگی کے بارے میں مذکورہ ویڈیو میں یہ نکتہ بیان کیا گیا کہ ہم عام طور پر 20 سال کی عمر میں عملی زندگی کا آغاز کرتے ہیں‘ یعنی معاشی سرگرمیوں کی ابتداء ہوتی ہے۔ اور پھر ہم قریباً 65 سال کی عمر میں ریٹائر ہونے تک کام کرتے رہتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے لازم ہے۔ اپنی اور اہل خانہ کی گزر بسر کا معیار بلند کرنے کے لیے زیادہ کمانا ایسی ذمہ داری ہے‘ جس سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
کم و بیش چالیس پینتالیس تک محنت کرنے کے بعد ہمیں چند برس سکون کے نصیب ہوتے ہیں۔ اور یہ تب ممکن ہوتا ہے‘ جب معاشرے میں سب کچھ اچھا چل رہا ہو‘ سہولتیں بے پایاں ہوں اور عمومی صحت کا معیار بلند ہو۔ اوسط عمر 75 سال فرض کرلی جائے‘ تو عام آدمی کو آرام کے 10 سال ملتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں میں عام آدمی کام کرتے کرتے ہی اس دنیا سے چلا جاتا ہے‘ جہاں اوسط عمر 55 اور 60 کے درمیان ہو وہاں آرام کا تصور دل کو بہلانے کے خیال کے سوا کچھ نہیں۔
امریکا اور یورپ میں جہان بھر کی سہولتوں سے آراستہ زندگی بسر کرنے والے بھی ایک مدت تک شاکی رہتے ہیں کہ اُنہیں مرضی کے مطابق پرسکون زندگی بسر کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ امریکا میں کم و بیش 83 فیصد جبکہ چین اور جاپان میں 94 فیصد تک افراد یہ شکوہ کرتے پائے گئے ہیں کہ گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے انہیں وہ کام کرنے پڑے ہیں‘ جو انہیں ذرا بھی پسند نہیں! اب آپ ہی سوچیے کہ جہاں زندگی کا عمومی معیار بھی خاصا بلند ‘بلکہ قابل ِرشک ہے‘ وہاں جب لوگ شکوہ سنج رہتے ہیں‘ تو پاکستان جیسے پس ماندہ معاشروں میں معاملہ کس سطح پر ہوگا!
بات کچھ یوں ہے کہ لوگ زندگی بھر معاشی سرگرمی کو ایک بڑے بوجھ کے مانند قبول کیے رہتے ہیں اور جب کسی معاملے کو بوجھ سمجھا جائے گا‘ تو کام میں دل کہاں سے لگے گا۔ یہی سبب ہے کہ لوگ کام ضرور کرتے ہیں‘ مگر بے دِلی کے ساتھ۔ معاشی سرگرمیوں کے انجام دینے میں انسان بہت حد تک نمایاں بیزاری کا مظاہرہ کرتا ہے۔
دنیا میں ایسے خوش نصیب کم ہیں‘ جو زندگی بھر اپنی مرضی کا کام کرتے اور اُس کے صلے سے زندگی بسر کرتے ہیں۔ مشاغل کو پیشے میں تبدیل کرنا ‘ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ عام تصور یہ ہے کہ معاشی سرگرمی مشاغل سے ہٹ کر کوئی چیز ہے۔ دنیا میں ایسے لوگ خاصی کم تعداد میں ہیں‘ جو شعوری طور پر مشاغل کو پیشے میں تبدیل کرتے ہیں اور زندگی بھر اُنہی کے ذریعے کماتے ہیں۔ عمومی سطح پر دیکھا گیا ہے کہ اپنی تمام پسندیدہ سرگرمیوں یعنی مشاغل کو معاشی سرگرمیوں میں تبدیل کرنے والے زندگی بھر خوش رہتے ہیں۔ ان کے دل و دماغ پر کبھی غیر ضروری بوجھ نہیں پڑتا۔
معاشی امور کے حوالے سے ذہن اور اعصاب پر مرتب ہونے والے شدید دباؤ سے نجات پانے کے لیے نفسی امور کے ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ معاشی معاملات میں ایسی کوئی بھی سرگرمی برداشت نہ کی جائے ‘جو مزاج کے خلاف یا زیادہ خلاف ہو‘ جو کام پسند نہ ہو‘ اُسے معاشی معاملات میں شامل ہی نہیں کیا جانا چاہیے۔
انسان جس پیشے میں ہو اُسے آسانی سے ترک نہیں کیا جاسکتا‘ جو کام چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے‘ برسوں کیا ہو‘ اُسے راتوں رات خیرباد کہنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے سوچنا پڑتا ہے‘ منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ متبادل شعبے کا تعین کرنا پڑتا ہے۔ رابطے بہتر بنانا ہوتے ہیں ‘تاکہ نئے شعبے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ ممکن ہو اور آمدن کی سطح برقرار رکھی جاسکے۔ یہ سب کچھ محض سوچنے سے نہیں ہوتا۔ اس کے لیے عمل پسند رویہ اپنانا پڑتا ہے۔ لوگ اپنے شعبے سے نالاں ضرور ہوتے ہیں اور ناپسندیدگی کے ساتھ کام کرتے ہیں‘ مگر معاملات گِلے شکوے کی منزل میں رہتے ہیں۔ وہ اپنے شعبے کو چھوڑنے اور کسی اور سمت جانے کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ شکوہ و فریاد کا گراف بلند ہوتا جاتا ہے اور شدید نوعیت کی جھنجھلاہٹ اُن کی نفسی ساخت کا حصہ ہوکر رہ جاتی ہے۔
گھر چلانے کے لیے ناپسندہ کام کرنا پڑے‘ تو انسان کی زندگی سے بہت کچھ نکل جاتا ہے۔ زندگی کو اعلیٰ معیار سے ہم کنار رکھنے کے لیے دل و دماغ کو فرحت کا جو احساس درکار ہوا کرتا ہے‘ وہ آسانی سے میسر نہیں ہو پاتا۔ یومیہ بنیاد پر کوئی سخت ناپسندیدہ کام کرنا انسان کے پورے وجود کو دیمک کی طرح چاٹتا رہتا ہے۔ ایسے میں کبھی جھلّاہٹ طاری ہوتی ہے‘ کبھی جھنجھلاہٹ۔ مردم بیزاری کی سی کیفیت کا پیدا ہونا بھی حیرت کا باعث نہیں ہوتا۔ مزاج و مرضی کے خلاف کسی پیشے کی دلدل میں پھنس جانے والے زندگی بھر اپنے اور دوسروں کے وجود سے نالاں رہتے ہیں۔ اس طور بسر کی جانے والی زندگی اور تو سب کچھ ہوتی ہے‘ زندگی نہیں ہوتی۔
معاشی معاملات کے حوالے سے سخت ناپسندیدہ شعبے میں پھنس جانے والا ہر شخص عام طور پر قدرے بے دِلی کے ساتھ جیتا ہے۔ دل کو مرنے سے بچانا انسان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اور دل کو مرنے سے بچانے کی ایک بہتر صورت یہ ہے کہ وہی کام کیا جائے‘ جو دل کو پسند ہو۔ انسان کو اس دنیا میں اپنے قیام کی مدت خوش دِلی سے پوری کرنی چاہیے اور اس کا ایک مؤثر اور قابلِ رشک طریقہ یہ ہے کہ جو دل کو بھائے وہی کام معاشی سرگرمی میں تبدیل کرلیا جائے‘ جو لوگ ایسا کرتے ہیں‘ وہ عام طور پر بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ‘کیونکہ عمومی سطح پر وہ خوش رہتے ہیں۔ اور اتنا تو آپ بھی جانتے ہیں کہ انسان خوش ہو تو اپنے حصے کا ہر کام بہت اچھی طرح انجام تک پہنچاتا ہے۔