پاک چین دوستی سے بھارت بے حد پریشان دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی یہ پریشانی روزبروز بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔وہ جاپان کے ساتھ مل کرپاکستان کو زچ کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ زیر نظر مضمون میں ایسی ہی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے۔
''بحر ہند میں چین کی موجودگی نے بھارت کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے؛ چنانچہ اس نے وہاں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے آگے بند باندھنے کا ارادہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد اقدامات میں بھی مصروف ہے لیکن ایشیا کے اس خطے میں بھارت واحد ملک نہیں‘ جو چین کے ساتھ توازن قائم کرنے کے طریقے سوچ رہا ہے۔ جاپان‘ جس نے لمبے عرصے تک امریکی غلبے کو تسلیم کئے رکھا‘ اب وہ نمایاں کردار ادا کرنے کی تیاریوں میں ہے۔ وہ اس خطے میں سکیورٹی پارٹنرشپ کو وسعت دے رہا ہے اور انفراسٹرکچر پروجیکٹس میں اپنی شمولیت بڑھا رہا ہے‘ جبکہ ان میں سے بہت سے پروجیکٹس اس کے حریف چین کے مرتب کردہ ہیں۔ 2015ء میں ٹوکیو نے کچھ منصوبوں کا اعلان کیا تھا‘ اور کہا تھا کہ وہ ایشیا‘ افریقہ اور بحرالکاہل کے قریبی سمندروں کے جزیروں میں انفراسٹرکچر منصوبوں پر سینکڑوں ارب خرچ کرے گا۔ اور 2016ء سے اب تک جاپان نے بحر ہند کے ارد گرد بندرگاہوں کو ترقی دینے اور اس سے متعلقہ انفراسٹرکچر منصوبوں پر کم و بیش 8 بلین ڈالر خرچ کئے ہیں۔
آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے تزویراتی معاملات کے ماہر‘ ڈیوڈ بروسٹر نے گزشتہ ہفتے لووی انسٹی ٹیوٹس انٹرپریٹر کے لئے لکھا کہ جاپان کی جانب سے اس خطے میں انفراسٹرکچر کے شعبے میں سرمایہ کاری کا حجم اس قدر بڑا ہے کہ بعض اوقات چین کی سرمایہ کاری سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایسے منصوبے جاپانی وزیر اعظم شنزو ایبے کی فری اینڈ اوپن انڈو پیسیفک (FOIP) سٹریٹیجی کا حصہ ہیں اور اس سٹریٹیجی کا مقصد ایشیا اور افریقہ ‘ اور پیسیفک اور انڈین سمندروں کو ایک دوسرے سے مزید مربوط کرنا ہے‘ تاکہ ان خطوں میں استحکام اور آسودگی کو فروغ دیا جا سکے۔اس وقت ایف او آئی پی (Free and Open Indo-Pacific) کے جو پروجیکٹس زیر غور ہیں‘ ان میں بھارت اور سری لنکا کی شراکت سے ایک منصوبے پر کام ہو رہا ہے جس کا مقصد سری لنکا میں واقع ترینکومالی بندرگاہ کو وسعت دینا‘ میانمار اور تھائی لینڈ کی مدد سے میانمار کے علاقے داوی کے ارد گرد ایک خصوصی کمرشل زون قائم کرنا اور ایک نئی بندرگاہ تعمیر کرنا ہے۔ علاوہ ازیں ماٹاباری کے مقام پر بنگلہ دیش کے تعاون سے ایک نئی بندرگاہ بنانا بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے۔ جاپان کے اخبار ''یومیوری شمبن‘‘ کے مطابق جاپان نے ان حکومتوں کے ساتھ پسِ پردہ بات چیت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے‘ جبکہ جاپان نے ان پروجیکٹس کے حوالے سے منصوبہ بندی کا آغاز کر دیا ہے۔ اسی اخبار کی رپورٹ ہے کہ چین نے کچھ عرصہ پہلے سری لنکا کی ہمبن ٹوٹا بندرگاہ 99 سال کے لیز پر حاصل کی تھی‘ جس نے بھارت کو غیظ و غضب میں مبتلا کر دیا تھا۔ چین اسی منصوبے کے دوسرے حصے پر عمل درآمد نہیں کر سکا‘ جو یہ تھا کہ میانمار اور بنگلہ دیش میں اسی طرح بندرگاہیں لیز پر لی جائیں اور اس کی وجہ جاپان کے ترقیاتی منصوبے تھے۔ بھارت نے اس سلسلے میں جاپان کی مدد کی۔ اسی نے بنگلہ دیش پر اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرکے ماٹا باری پروجیکٹ جاپان کو لے کر دیا اور توقع ظاہر کی گئی ہے کہ جاپان اور بھارت مستقبل میں بھی مزید منصوبوںپر ایک دوسرے سے اسی طرح تعاون کرتے رہیں گے‘ جن میں ٹرنکومالی اور ایران کی چابہار بندرگاہیں بھی شامل ہیں۔ بھارت کا خیال ہے کہ چابہار بندرگاہ وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔یہ الگ بات کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے یہ منصوبہ متاثر ہو سکتا ہے۔
اس خطے میں ایک بڑا کردار ادا کرنے کے بارے میں جاپان کی دلچسپی نئی نہیں۔ حالیہ مہینوں میں جاپان نے اس حوالے سے اپنے عمل میں تیزی پیدا کی ہے۔جنوبی ایشیا کے اس خطے میں امریکی پالیسی کے بارے میں ابہام پائے جاتے ہیں۔ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے تزویراتی معاملات کے ماہر ڈیوڈ بروسٹر کا کہنا ہے کہ جاپان کی اپروچ بالکل واضح ہے کہ وہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ اس انیشی ایٹو کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ یہ پائیدار نہیں۔ اس میں شفافیت کی بھی کمی ہے۔ چین پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت دوسرے ممالک کو قرضوں کے بوجھ تلے دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ امریکی حکام نے چین کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس پروگرام کے تحت سرمائے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ نے بھی چین اور اس کے ممکنہ پارٹنرز کو اس ڈیل کے بارے میں خبردار کیا ہے ‘ جو ان پر قرضوں کے بوجھ کو بے تحاشا بڑھانے کا باعث بن سکتی ہے۔
جاپان کا کہنا ہے کہ اس کی سوچ اور اپروچ کئی اہم حوالوں سے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیو ایٹو سے مختلف ہے۔ آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا اور بحر ہند کے تزویراتی معاملات کے ماہر ڈیوڈ بروسٹر کے مطابق‘ جاپان کے منصوبوں کا زور اس بات پر ہے کہ سیفٹی‘ اعتماد‘ سماجی اور ماحولیات سے متعلق معاملات کو پیش نظر رکھا جائے اور ان منصوبوں کو مقامی ترقیاتی اہداف کے مطابق اور اصول و ضوابط کے تحت آگے بڑھایا جائے۔ ان اقتصادی منصوبوں میں جاپان نے بھارت کو اپنا پارٹنر بنایا ہے جبکہ چین نے اپنے بی آر آئی ( بیلٹ اینڈ روڈ انیشیو ایٹو) سے بھارت کو باہر رکھا ہے۔
بھارت اور جاپان نے گزشتہ سال‘ ایشیا افریقہ گروتھ کوریڈور کا بھی اعلان کیا تھا۔ جس کا مقصد دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانا تھا۔ بہت سے افریقی ممالک بشمول جنوبی افریقہ نے اس منصوبے کی حمایت کی تھی اور اسے چین کے بی آر آئی کا ایک اور متبادل قرار دیا گیا۔ بیجنگ نے اس کے اثر کو کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے یہ پیش کش کی تھی کہ اس منصوبے کو BRICS کے پلیٹ فارم پر لایا جائے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو جاپان نے خود بخود اس منصوبے سے باہر ہو جانا تھا اور دہلی کا اثر و رسوخ بھی اس پر سے کم ہو جانا تھا۔ اس بارے میںخدشات پائے جاتے ہیں کہ جاپان کے پاس اتنے وسائل ہی بھی یا نہیں کہ وہ چین کی جانب سے شروع کئے گئے بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں کا مقابلہ کر سکے۔ جاپان نے اس کی یقین دہانی کرائی ہے‘ لیکن اس نے چین کے منصوبوں میں تعاون نہ کرنے کا نہیں کہا۔ جاپانی حکام یہ قرار دے چکے ہیں کہ بی آر آئی سے پوری دنیا کی معیشت کو فائدہ ہو گا‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ اس کو کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔
ایسا نہیں کہ جاپان اور بھارت اپنے اس بڑے پڑوسی (چین) کی بڑھتی ہوئی طاقت پر نظر نہیں رکھے ہوئے ۔ یقیناً چین کے معاملات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں اور وہ چینی منصوبوں کا توڑ سوچنے میں بھی مصروف ہیں۔ کارنیگی انڈیا کی تجزیہ کار ‘درشنا بروآ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ جاپان چین کے مغربی پیسیفک سے بھی آگے تک پھیلتے ہوئے قدموں کی وجہ سے فکرمند ہے۔ بھارت اپنے پڑوس میں چین کی اقتصادی سرگرمیوں کے سٹریٹیجک مضمرات کا جائز لینے میں مصروف ہے۔ درشنا نے مزید کہا کہ جاپان اور بھارت کے مشترکہ منصوبوں کا مقصد چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کا ایک متبادل پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے‘‘۔