تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     05-07-2018

سونے کے پنجرے کا قیدی کو کیا فائدہ ہے؟

سنگاپور ایک کامیاب ملک ہے۔ ایک سگھڑ اور تکمیل شدہ سماج ہے۔ جس تیز رفتاری سے سنگاپور نے اپنے لوگوں کا معیار زندگی بلند کیا‘ اس کی دنیا میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ صرف چالیس سال کے مختصر عرصے میں یہ ملک ایک غریب‘ پسماندہ اور پچھڑے ہوئے تیسری دنیا کے ملک سے بدل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو گیا ۔ صرف یہی نہیں ‘ بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں سے بھی ان معدودے چند کی فہرست میں‘ جن کو بیشتر ترقی یافتہ ممالک بھی حسد اور رشک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
دنیا میں ہر جگہ انسان کی پانچ ناگزیر بنیادی ضروریات ہیں۔ یہ ضروریات خوراک‘ رہائش‘ صحت‘ تعلیم اور روزگار ہیں۔ سنگاپور نے نا صرف ان ضروریات کو بدرجہ اتم پورا کیا‘ بلکہ بعض شعبوں میں وہ کامیابی دکھائی‘ جو امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے لیے باعث حیرت تھی۔ ساٹھ کی دہائی میں قومیں آزادی چاہتی تھیں‘ ملک خود مختاری مانگتے تھے‘ اور عوام انقلاب چاہتے تھے‘ مگر سنگا پور کے رہنمائوں کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ آزاد یا خود مختار قوم کے بجائے ملائیشیا سے الحاق کر کے اس کا مستقل حصہ بن جائیں۔ مگر بد قسمتی یا خوش قسمتی سے ملائیشیا کی پارلیمنٹ نے انیس سو پینسٹھ میں صفر کے مقابلے میں ایک سو چھبیس ووٹوں سے سنگاپور کو انتہائی ذلت کے ساتھ ملائیشیا سے زبردستی باہر نکال دیا۔ آنسو اور ہچکیوں میں سنگاپوری رہنما لی کان ییو نے اعلان کیا کہ سنگاپور اب ایک خود مختار ملک ہے۔ لوگوں نے جشن نہیں منایا‘ ماتم کیا۔ 
آج سنگاپور دنیا بھر میں پیدا ہونے اور پرورش پانے کے لیے دنیا کی چند بہترین جگہوں میں سے ایک ہے۔ پیدا ہونے کے لیے یہ بہترین جگہ اس لیے ہے کہ یہاں بچوں میں اموات کی شرح امریکہ اور برطانیہ سے بھی کم ہے۔ یہاں کا نظام تعلیم قابل رشک ہے۔ حساب اور سائنس کی تعلیم میں یہاں کا معیار دنیا کے چار بہترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ صرف بچوں کے لیے ہی نہیں بڑوں کے لیے بھی یہ رہنے کی ایک بہترین جگہ ہے۔ سنگا پور میں نوے فیصد لوگوں کے پاس رہنے کے لیے اپنا گھر ہے۔ یہاں تک کہ کم آمدنی والے لوگوں میں بھی تقریباً اسی فیصد اپنے گھروں کے مالک ہیں۔ ہمارے کچھ سیاست دان اور دانشور پاکستان کو سنگا پور بنانے کی بات کرتے رہتے ہیں۔ اس بات کی پروا کیے بغیر کہ سنگا پور کی اس حیرت انگیز ترقی کا راز صرف تین لفظوں میں پوشیدہ ہے۔ وہ لفظ جو ہمارے ہاں بے معنی اور بے اعتبار بنا دئیے گئے ہیں۔ 
ان میں پہلا لفظ میرٹ ہے۔ میرٹ کا مطلب ہم سے زیادہ کون جانتا ہے؟ مگر ایک بار پھر بیان کرنے میں حرج کیا ہے۔ میرٹ کا سادہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اپنا نظام چلانے کے لیے ملک اپنے بہترین شہریوں کو ان کی قابلیت کی بنیاد پر چنتا ہے۔ ہمارے ہاں میرٹ کی نفی پرائمری سکول سے شروع ہو کر اعلیٰ ملازمتوں کے امتحانات تک پھیلی ہوئی ہے۔ امتحانات میں نقل اور دوسرے غیر قانونی ذرائع سے اعلیٰ نمبر لینے سے لے کر رشوت ‘ سفارش اور اقربا پروری تک کے ذریعے ملازمتوں کی تقسیم ایک عام چلن ہے۔ سنگا پور جیسا میرٹ کا نظام اپنانے کے لیے نظام تعلیم‘ نصاب تعلیم‘ پڑھائی اور امتحانات کے طریقہ کار میں انقلابی یعنی بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ نظام میں ان بنیادی تبدیلیوں کے بعد اس کے اثرات ظاہر ہونے کے لیے کم از کم بیس برس درکار ہوں گے۔ 
دوسرا لفظ ہے عملیت پسندی۔ عملیت پسندی کو بھی ہم سے زیادہ کوئی نہیں جانتا کہ ہمارے پاس اس تصور سے دور بھاگنے اور اس عمل سے بچے رہنے کا ستر سالہ تجربہ ہے۔ عملیت پسندی کی فلسفے میں تعریف یہ ہے کہ کسی بھی نظریے یا عقیدے کو اس کی عملی کامیابی کے نقطہ نظر سے دیکھنا۔ سنگا پور میں عملیت پسندی کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پہیہ دوبارہ ایجاد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ سنگا پور کا ایک رہنما ڈاکٹر گو کنگ اکثر کہا کرتا تھا کہ سنگا پور کو کسی ایسے مسئلے کا سامنا ہو ہی نہیں سکتا‘ جس کا دنیا میں کوئی نہ کوئی حل پہلے ہی نہ ڈھونڈا جا چکا ہو۔ ہمیں اس حل کی نقل کر کے اسے سنگا پور کے حالات کے مطابق اپنانا چاہیے‘ لیکن نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت پڑتی ہے۔ بقول شخصے دانش کو سمجھنے کے لیے دانش کا ہونا ضروری ہے۔ عقل و دانش کے لیے ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے‘ جو ہمارے نظام تعلیم کا الٹ ہو۔ ہمارا طرز تعلیم رٹے پر قائم ہے‘ جو طالب علموں کے عقل و دانش کے سوتے خشک کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ سنگا پور کے طالب علم ریاضی اور سائنس میں ترقی یافتہ دنیا کے بیشتر ممالک سے آگے ہی نہیں ‘ بلکہ پرابلم سالونگ اور کریٹیکل سوچ میں وہ کئی عالمی مقابلے بھی جیت چکے ہیں۔ ہمارے مدرسوں میں پڑھنے والے لاکھوں بچوں کو تو جبراً رٹے پر لگایا ہی جاتا ہے‘ مگر ہمارے سرکاری سکولوں میں بند کتاب طرز امتحانات اور طرز تعلیم بھی رٹے کی ہی حوصلہ افزائی ہے؛ چنانچہ ہمارے نظام تعلیم کا ایک بڑا حصہ ایسے پڑھے لکھے لوگ پیدا کرتا ہے‘ جن میں سے بیشتر نہ کوئی گہری دانش کی بات سمجھ سکتے ہیں‘ اور نہ ہی ڈھنگ سے کسی چیز کی نقل کر سکتے ہیں۔ سنگا پور بننے کے لیے سنگا پور جیسا نظام تعلیم ایک بنیادی شرط ہے۔ کیا ہم یہ شرط پوری کر سکتے ہیں؟ ہمارے ہاں تو تعلیم پر مختلف مذہبی‘ معاشی اور سیاسی سٹیک ہولڈرز کا قبضہ ہے۔ سیاسی مفادات کے پیش نظر سکولوں اور مدارس کو گرانٹس دی جاتی ہے۔ ووٹ بٹورنے اور سیاسی حمایت حاصل کرنے کے لیے انسانی ہمدردی کی آڑ لے کر ان لوگوں کی مدد کی جاتی ہے‘ جو تعلیم و تربیت کے نام پر مذہب کی تجارت میں مصروف ہیں۔ 
تیسرا لفظ دیانت داری ہے۔ اس لفظ سے بھی ہم سے زیادہ کوئی واقف نہیں۔ آج کل بھی انتخابات کی وجہ سے ہماری ہر عدالت ہر شہر اور ہر گلی میں اسی لفظ کا چرچا ہے۔ یہ لفظ ہمارے قانون میں موجود ہے۔ آئین میں موجود ہے۔ نصاب میں ہے۔ واعظ و نصیحت میں اس کا تذکرہ ہوتا ہے۔ یہ سیاسی تقاریر کا اہم نکتہ ہوتا ہے‘ مگر عملی زندگی میں اس کا کوئی تصور‘ کوئی وجود نہیں ہے۔ عملی زندگی میں بد دیانتی اور کرپشن کا راج ہے۔ اور صرف ہمارے ہی نہیں تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کی ناکامی کی بنیادی وجہ کرپشن ہی ہے۔ 
سکے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ سنگا پور اس وقت ایک جدید آمریت سمجھا جاتا ہے۔ اگرچہ یہاں ہر پانچ سال بعد باقاعدگی سے شفاف انتخابات ہوتے ہیں۔ مگر جیسا کہ ان سطور میں کئی بار عرض کیا کہ کسی ملک میں باقاعدگی سے الیکشن کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہاں جمہوریت ہے۔ جمہوریت کے دیگر لوازمات کا پورا ہونا ضروری ہے۔ سب سے بڑی شرط انسانی حقوق اور شہری آزادیاںہیں ‘ جن کے بغیر جمہوریت محض ایک دھوکہ ہے۔ انسانی حقوق میں بھی سب سے مقدم آزادیٔ اظہارِ رائے ہے۔ رائے کہ اظہار کے لیے دیگر ذرائع کے علاوہ ایک آزاد پریس کی ضرورت ہے‘ جس کا سنگا پور میں کوئی تصور نہیں۔ میڈیا مکمل طور پر سرکار کے کنٹرول میں ہے‘ صحافیوں کی ایک عالمی تنظیم‘ رپورٹرز ود آئوٹ بارڈرز ‘ اپنی پے در پے رپورٹوں میں سنگا پور میں میڈیا پر پابندیوں کی بات کر چکی ہے۔ احتجاجی جلسے جلوسوں کی اجازت بھی محدود ہے‘ جو اظہار کی آزادی کو مزید مشکل بنا دیتی ہے۔ 
حاصلِ کلام یہ ہے کہ سنگا پور ایک ترقی یافتہ ملک ہے۔ اس میں فی کس آمدنی بہت اونچی ہے۔ صحت تعلیم اور روزگار جیسی سہولیات میسر ہیں۔ مگر انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر اس قدر قدغن کی وجہ سے آزادی پسندوں کے لیے یہ ایک سونے کا پنجرہ ہے‘ اور قیدی سونے کے پنجرے میں ہو یا لوہے کہ پنجرے میں وہ قیدی ہی ہوتا ہے۔ اس لیے جو لوگ پاکستان کو سنگا پور بنانا چاہتے ہیں وہ میرٹ‘ عملیت پسندی اور دیانت داری کو اپنا اور اپنی جماعتوں کا شعار بنائیں۔ اور وہ پاکستان کو سنگا پور ضرور بنائیں مگر ایسا سنگا پور‘ جس میں روٹی کپڑے اور مکان کے ساتھ انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کی بھی ضمانت ہو۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved