انتخابی عمل کے پہلو بہ پہلو سیاسی جماعتوں اور مقتدرہ کے درمیان پروان چڑھنے والی نا مطلوب کشمکش بائیس کروڑ آبادی کی حامل اور ایٹمی قوت سے لیس مملکت کو کسی بڑے سیاسی بحران کی طرف دھکیل سکتی ہے‘ کیونکہ انتہا پسندی اور مرکز گریز تحریکوں کی پُرتشدد جدوجہد ابھی پوری طرح قابو آئی‘ نہ ملک تاحال عالمی تنہائی کے گرداب سے باہر نکل پایا ہے۔ پڑوسی ممالک کے ساتھ کشیدگی بڑھنے کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کی طرف سے گرے لسٹ میں ڈالنے اور تیزی سے گرتی ملکی کرنسی کی قدر، نئی منتخب حکومت کو بیل آئوٹ پیکج کیلئے ایک بار پھر آئی ایم ایف کی دہلیز تک لے جائے گی‘ جہاں مالی معاونت کے عوض معاشی خود مختاری گروی رکھنا پڑے گی۔ یہ اور ایسے ہی کئی دوسرے مصائب سانپ کی مانند مملکت کے وجود سے لپٹے ہوئے ہیں، وسیع تر سیاسی مفاہمت کے بغیر جن سے نجات ممکن نہیں ہو گی‘ لیکن بد قسمتی سے ہمارے سماج میں سیاسی جماعتوں کی غیر فطری پولرائزیشن کے باعث پیدا ہونے والی ذہنی تفریق ہمیں باہم سر جوڑ کے بیٹھنے، اپنے گرد و پیش کا جائزہ لینے اور زندگی کے مقاصد پہ تنقید کی مہلت نہیں دیتی۔ بلا شبہ اس وقت مملکت کو سیاسی نظم و ضبط کی ضرورت ہے چاہیے وہ ابتری کے قریب ہی کیوں نہ ہو‘ جیسی نشاۃ ثانیہ کے دور میں روم و فلورنس میں تھی، شہریوں کو یہ احساس ملنا چاہیے کہ انہیں قدم قدم پہ موت اور ٹیکسوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، معاشرے کو بنیادی قدروں پہ استوار رکھنے کی خاطر زندگی کے کھیل میں کچھ ایسے قوانین ہونے چاہئیں، جنہیں وہ بھی تسلیم کریں جو ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں‘ لیکن افسوس کہ سوشل میڈیا کی ایجاد نے زیست کی جدلیات کو پیچیدہ تر بنا کے ہمارے سیاسی نظریات میں دراڑیں ڈال دیں، جس سے سماجی ڈھانچہ، اخلاقی نظام اور وہ ثقافتی اقدار متاثر ہوئیں، جو آج بھی اجتماعی حیات کا مرکز اور ہماری زندگی کی چھپی ہوئی بنیادیں ہیں، اگر ریاست نے سوشل میڈیا کو بر وقت ریگولیٹ نہ کیا تو بہت جلد ہماری سماجی زندگی جہنم کا شعلہ بن جائے گی، ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی عمل کی بحالی کے ذریعے اس زرخیز بد نظمی کو وحدت و تنظیم سے منسلک رکھنے کے لئے اقدام کرے۔ لیکن یہاں تو ہمارے اذہان کو ایسے تذبذب نے لپیٹ رکھا ہے جس میں ہم جمہوریت کو ایک ہاتھ سے دور دھکیلتے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے نا آموختہ عمل سمجھ کے سینے سے لگانے کی کوشش کرتے ہیں، رسی کودنے کی یہی مشق پچھلے ستر سال سے جاری ہے۔ اگرچہ روز اوّل ہی سے طاقت ور اداروں کی طرف سے انتخابات کو ریگولیٹ کرنے اور حکومت سازی کے عمل میں سہولت کاری کی روایت نے یہاں ایسی کنٹرولڈ ڈیموکریسی کو پروان چڑھایا، جس سے ہمارا سماج بڑی حد تک مانوس ہو چکا تھا‘ لیکن الیکٹرانک میڈیا کی سرعت پذیری، بپھرے ہوئے سوشل میڈیا کی بے باکی اور سیاست دانوں کی غیر متوقع مزاحمت کی بدولت یہ متعین روایات ٹوٹتی نظر آ رہی ہیں، سات دہائیوں سے اقتدار کی غلام گردشوں میں جاری جوڑ توڑ کا یہ محجوب کھیل اب زندہ تغیرات کی صورت اختیار کر کے کوچہ و بازار میں در آیا ہے۔
رموز حکمرانی کی اسی بے حجابی نے اجارہ دار قوتوں کے لہجہ کی تلخی بڑھا دی ہے؛ چنانچہ انتخابات کا ناقوس بجتے ہی کسی مربوط مساعی کے ذریعے انتخابی مقابلے میں شریک ایک فریق کے ہاتھ پائوں باندھنے اور دوسروں کو سہولت فراہم کرنے کا تاثر گہرا ہوتا گیا، جس سے ایک طرف انتخابی عمل کی اصابت پہ سوال اٹھنے لگے اور دوسری جانب بتدریج سیاسی کشمکش شدت اختیار کرنے لگی۔ یہی جدلیات اس ابھرتی ہوئی مملکت کو ایک بار پھر داخلی بحرانوں کے دلدل میں اتار سکتی ہے۔ پچھلے دس سالوں کے دوران منتخب جمہوری حکومتوں نے توانائی کے شعبہ میں ترقی اور کئی میگا پراجیکٹ مکمل کرا کے جو تھوڑی بہت پیش قدمی کی تھی‘ کیا وہ اس نا تراشیدہ سیاسی کشمکش کی نذر ہو جائے گی؟ بلا شبہ ان دس سالوں میں ٹرانسپورٹیشن کے نظام میں بہتری آئی اور چین کے تعاون سے سی پیک میں اکاون بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کے ذریعے ملک کا جامع انفراسٹرکچر کھڑا کرنے میں کامیابی ملی، ایئر پورٹس، ریلوے، سڑکیں اور پاور پلانٹس کی تعمیر سے صنعتی معیشت کو فروغ ملا اور امن و امان کی صورت حال مستحکم ہونے لگی، ماضی کی نسبت مراعات یافتہ طبقات کی قومی امور میں دل چسپی بڑھ گئی‘ مگر سویلین بالا دستی کی رفتار قدرے سست رہی۔ بے شک سیاست میں ہر تبدیلی طاقت کی ایما پہ آتی ہے کیونکہ فرسودہ اور غیر لچک دار قوتوں کے خاتمہ کے لئے تشدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ملک میں سیاسی توازن قائم رکھنے کی خاطر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے انتخابات کو مینیج کرنے والے قوتوںکے خلاف ایسی رائے عامہ ابھری جو ہمارے روایتی سیاسی تصورات اور معاشرے کی مجموعی ساخت کو بدل سکتی ہے، اسی لئے ہو سکتا ہے کہ مستقبل کی سیاست، حب الوطنی کے اجارہ داروں اور مینڈیٹ کے حق داروں، دونوں کے کنٹرول سے نکل جائے؛ تاہم امید ہے کہ سسٹم کو مربوط رکھنے والی مقتدرہ بھی اب ایسی مہارت سے بہرہ ور ہے جو معاشرے کی جزئیات تک کو ریگولیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، شاید اسی لئے انتخابی عمل میں شریک جماعتوں اور ریاستی مشینری کے کارپردازوں کے درمیان برپا کشمکش ابھی تک محدود دائروں میں محوِ خرام اور موزوں دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت مقتدرہ، تحریک انصاف کے علاوہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سمیت سیاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ کسی نہ کسی طور جڑی ہوئی ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ مستقبل کے بندوبست میں سب کی گنجائش نکل آئے۔ شہباز شریف کی طرف سے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں قومی حکومت کے قیام کی آرزو کا اظہار انہی بیک ڈور روابط کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ بظاہر ریاستی مقتدرہ کا اجتماعی ارادہ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت کے قیام کا طلب گار نظر آتا ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ مرکز میں تحریک انصاف کی حکومت بنی تو نواز لیگ اپوزیشن میں بیٹھ کے سیاسی مزاحمت کے ذریعے پی ٹی آئی کی نوزائیدہ گورنمنٹ کو پہلے مرحلہ میں کمزور اور دوسرے میں تصادم کی راہ اختیار کر کے اسے مفلوج کر دے گی۔ اگر ایسا ہوا تو عنان اقتدار ہاتھ آنے کے باوجود پی ٹی آئی ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل نہیں کر پائے گی۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ریاستی اداروں کے خلاف مزاحمت کی صورت میں نواز لیگ کے لئے قوم پرست جماعتوں کے علاوہ کچھ مذہبی قوتوں کی حمایت نہایت اہم ہو گی‘ لیکن الیکشن کے بعد اگر نواز لیگ تنہا رہ گئی تو اس کی مزاحمت نقش بر آب ثابت ہو گی؛ چنانچہ اقتدار کی حرکیات کو سمجھنے کا ستر سالہ تجربہ رکھنے والی مقتدرہ نواز لیگ کو تنہا کر کے اس کی مزاحمتی طاقت کو کند کرنے کے لئے سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں علاقائی جماعتوں اور خاص کر مذہبی قوتوں کو اقتدار میں حصہ دار بنا کے سیاسی ماحول میں توازن پیدا کر سکتی ہے۔ اس لئے قوی امکان یہی ہے کہ خیبر پختون خوا میں چھوٹی جماعتوں کے ملاپ سے ایم ایم اے اور بلوچستان میں جے یو آئی اور بلوچستان عوامی پارٹی آزاد امیدواروں کی مدد سے مخلوط حکومتیں بنا سکتی ہیں، اسی طرح سندھ میں بھی ایم کیو ایم، جی ڈی اے، ایم ایم اے اور پی ٹی آئی پہ مشتمل ایسی اتحادی حکومت کا قیام ممکن ہے جو سندھ میں پیپلز پارٹی کی شکست سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کر سکے۔ لیکن وفاق و پنجاب میں گھمسان کا رن پڑے گا؛ تاہم پنجاب میں تحریک انصاف کی قیادت میں مخلوط حکومت بننے کی صورت میں پنجاب کی اتحادی گورنمنٹ کی وزارتِ اعلیٰ اگر چوہدری نثار کو ملی گئی تو یہ پنجاب میں نواز لیگ کی قوت کو توڑنے کی مؤثر چال ثابت ہو گی۔