تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     06-07-2018

کنگ آف منی لانڈرنگ کیس

بلا شبہ پاکستان کی تاریخ کا تو ہے ہی‘ ساتھ ساتھ دنیا کی تاریخ میں بھی یہ منی لانڈرنگ کا سب سے بڑا مقدمہ ہے‘ جس کے سب سے بڑے ملزم نے ٹرائل کورٹ سے سب سے بڑی فرمائش کر ڈالی۔
آج کنگ آف آل منی لانڈرنگ کیس کا فیصلہ ہے۔ معلوم نہیں پہلے آپ کے ہاتھ میں آج کا وکالت نامہ آئے گا‘ یا آلِ شریف منی لانڈرنگ کیس کا فیصلہ۔ پانامہ کیس پاکستان سمیت دنیا بھر میں کرپٹ سیاسی اشرافیہ کے لیے ابابیل ثابت ہوا۔ جس پر بھی موزیک فونسیکا نامی لا فرم کی تحقیق کے کنکر گرے وہ جل کر بھسم ہو گیا۔ جن حکمرانوں کو عزت پیاری تھی وہ خود مستعفی ہو گئے۔ اپنی قوم سے معافی مانگی۔ جرائم کا اعتراف کیا۔ پیسہ کہاں سے کمایا اور بیرونِ ملک کیسے پہنچایا‘ سب کھل کر بیان کر دیا۔ جن لوگوں نے مگر ذلت کا راستہ چُنا، ٹی وی، پارلیمنٹ، عدالت، میٹنگ، جلسہ، ٹاک، انٹرویو سب جگہ جھوٹ بولا‘ ذلت ان کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مقدر ہو گئی۔ وہ جیتے جی اَسفل السافلین میں جا گرے۔
اللہ معافی، ایسی بے عزتی کہ جس کی کوئی مثال ملتی ہے نہ ہی مسلسل رُسوائی کا آخری سِرا۔ آلِ شریف کے لیے دولت کی قلت ختم ہو گئی مگر ذلت کی فراوانی کے سمندر اُبل پڑے۔ اس مقدمے کا فیصلہ کیا ہو گا اللہ جانے یا جج محمد بشیر صاحب۔ ہاں البتہ یہ کیس قومی احتساب بیورو ایکٹ مجریہ 1999ء کی دفعہ 14 کے تحت چلایا گیا‘ جس کی ذیلی دفعہ (C) ان سارے بڑے سوالوں کے جواب کھول کر رکھ دیتی ہے‘ جو منی لانڈرنگ کے سب سے بڑے ملزم اور اس کے حواریوں نے اٹھائے‘ اور جن میں مسلسل کہا گیا: نیب کچھ ثابت نہیں کر سکا‘ جے آئی ٹی نے کچھ ثابت نہیں کیا‘ نواز شریف کے خلاف الزام ثابت نہ ہوا۔ 
نوازشریف اور ہمراہی ملزموں پر نیب آرڈینینس کی دفعہ 9‘ ذیلی دفعہ (a) شق نمبر (v) کے تحت فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ آئیے اس قانون پر ایک نظر ڈال لیں:
عوامی عہدہ رکھنے والا شخص یا کوئی دوسرا فرد۔ پبلک آفس ہولڈر کے زیرِ کفالت یا اس کے بے نامی دار لوگ۔ اگر کسی اثاثے میں کسی قسم کا حقِ ملکیت یا شراکت رکھتے ہوں‘ خواہ مختار نامہ وغیرہ کے ذریعے۔ یا پھر ایسے افراد کی مالی حیثیت ان کے معروف ذریعہ آمدن سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔ یا وہ اپنے طرزِ زندگی اور اخراجات سورس آف اِنکم سے زیادہ کریں۔ تو یہ کرپشن اور کرپٹ حرکیات کے زمرے میں آئے گا۔ اس فردِ جرم کی روشنی میں مقدمے کے فریقِ استغاثہ/ پراسیکیوشن کے ذمے نہ تو منی ٹریل ثابت کرنے کا فرض عائد ہوتا ہے۔ نہ ہی ملزم کی کمائی یا سورس آف انکم کا بارِ ثبوت استغاثہ کے کاندھوں پر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں استغاثہ کے ذمے صرف ابتدائی بارِ ثبوت (Initial Burdon of proof) پیش کرنے تک ہے۔ سادہ لفظوں میں احتساب کا ادارہ ان اثاثوں، جائیدادوں اور مال و دولت کو ڈھونڈتا ہے جو کسی پبلک آفس ہولڈر نے چھپا رکھے ہوں۔
ٹرائل کورٹ میں فردِ جرم سے متعلقہ اثاثوں کو جائز، حلال اور قانونی ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے۔ اسی حوالے سے ملاحظہ فرمائیں۔ نیب آرڈیننس 1999ء کی دفعہ 14 جو ایک قانونی ''presumption '' استعمال کرتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
In any trial of an offence punishable under this Ordinance, the fact that the accused person or any other person on his behalf, is in possession, for which the accused person cannot satisfactorily account, of property or pecuniary resources disproportionate to his known sources of income, or that such person has, at or about the time of the commission of the offence with which he is charged, obtained an accretion to his pecuniary resources or property for which he cannot satisfactorily account, the Court shall presume, unless the contrary is proved, that the accused person is guilty of the offence of corruption and/or corrupt practices.
ترجمہ: نیب آرڈیننس کے تحت کسی بھی ایسے ٹرائل کے دوران جس میں ملزم، اس کا کوئی ہمراہی ایسے اثاثے، مال و دولت رکھتا ہے جو وہ اطمینان بخش طریقے سے اپنے ملکیتی ثابت نہ کر سکے۔ یا ایسے اثاثے مال و دولت وغیرہ اس کی آمدنی کے معروف ذرائع‘ جب اس نے یہ اثاثے بنائے تھے‘ کا اطمینان بخش ثبوت نہ دے سکے۔ ایسی صورت میں عدالت یہ فرض کرے گی کہ ملزم یا اس کے ہمراہیوں نے کرپشن اور کرپٹ ذرائع سے اثاثے بنائے ہیں۔
قانونی صورت تب تک یہی رہے گی جب تک ملزم ذرائع آمدن، منی ٹریل اور ایسے اثاثوں کو اپنی جائز اور حلال کمائی سے بنائے گئے ثابت نہ کر دے۔ ظاہر ہے ملزم کو ٹرائل کے دوران اپنا مؤقف ثابت کرنے کے لیے شہادتِ صفائی پیش کرنے کا موقع ملتا ہے۔
یہاں ایک اور بنیادی سوال بھی توجہ کا طالب ہے۔ کیا اس قانونی ''Presumption'' کی بنیاد پر سنائی گئی سزا کسی دوسری عدالتِ اپیل وغیرہ میں کالعدم قرار دی جا سکتی ہے؟ اس کا جواب ہے: نہیں۔ نیب قانون کی دفعہ 14 میں اسے ان لفظوں میں بیان کیا گیا ہے:
and his conviction, therefore ,shall not be invalid by reason only that it is based solely on such a presumption. 
ترجمہ: اور ملزم کو دی گئی سزا محض اس بنیاد پر غیر قانونی/ غیر مؤثر قرار نہیں دی جا سکتی کہ اس سزا کی بنیاد صرف اور صرف قانونی ''presumption'' پر ہے۔
نواز شریف اور اس کے شریکِ جُرم ملزموں کو بھی ٹرائل کورٹ نے جے آئی ٹی کے الزامات غلط ثابت کرنے اور اپنے حق میں صفائی پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔ عدالت کے اندر نواز شریف، حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن صفدر نے شہادتِ صفائی پیش کرنے سے انکار کر دیا‘ لیکن عوام کی عدالت میں اپنی صفائی میں جو کچھ کہا وہ یہ تھا: میرے پاس اثاثے ہیں تو تم کیوں جلتے ہو۔ یہ دولت میرا مقدر ہے۔ تمہیں کیا‘ سورس کہاں اور منی ٹریل کدھر؟ میری دولت‘ میری مرضی‘ میں سورس آف انکم بتائوں یا نہ بتائوں۔ تم کون ہوتے ہو مجھ سے پوچھنے والے۔ میں نے جے آئی ٹی کو لاجواب کر دیا۔ وہ میرے سوالوں کا جواب نہ دے سکے۔ واجد ضیا نے ہمیں سُرخرو کر دیا۔ نیب کے پاس ہمارے کسی سوال کا جواب نہیں تھا‘ وغیرہ۔
کنگ آف منی لانڈرنگ کیس میں استغاثہ کی طرف سے معقول گواہی اکٹھی کی گئی۔ سوال سادہ تھا: کیا مے فیئر کے اثاثے آلِ شریف کے ہیں؟ اس کا جواب ہے: جی ہاں۔ کیا شریف خاندان کے معصوم بچے اثاثے بنانے کا ذریعہ آمدن ظاہر/ ثابت کر سکے؟ جواب آیا: جی نہیں۔ آخری سوال یہی بچتا ہے۔ حضور! کہاں ہیں وہ وسائل اور ذرائع جہاں سے اثاثے بنائے۔ اس ایک سوال کا یہی وہ حصہ تھا جہاں قطری خط آئے تھے۔ 
پنجابی شاعر نے ایسے ہی ساجن کے لئے کہا تھا:
پِھکّی پئے گئی چناں تاریاں دی لو
توں اجے وی نہ آیوں سجناں
عالمی جرائم کی فہرست میں منی لانڈرنگ کے سب سے بڑے مقدمے کے سب سے بڑے ملزم کی سب سے بڑی فرمائش کیا ہے؟ مجھے ایک بار بار پھر قانون کو موم کی گڑیا بنانے دو۔ فیصلہ روک دو۔ رول آف لا نہیں رول آف ''اور‘‘ لا چلنے دو۔
انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند
کیسی انوکھی بات رے... 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved