تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     06-07-2018

جنرل ضیا ء الحق اور بے نظیر بھٹو

جنرل ضیاء الحق اور بے نظیر بھٹو ‘یہ دو نام اور کردار دنیا میں ایک دوسرے کے بد ترین مخالفین میں شمار ہوتے تھے‘ دونوں کی موت ایک ہی طرح سے‘ اس طرح ہوئی کہ اپنوں کی حفاظت میں مارد یئے گئے‘ اور آج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان دونوں کے اصل قاتل کون تھے؟ دونوں کی موت کا سب جانتے ہیں کہ کرائم سین چند گھنٹوں بعد ایک ہی طرح سے صاف کر د یئے گئے اور دونوں کے پوسٹ مارٹم کرنے والوں کو ان کے جانشینوں کے احکامات پر اچانک روک دیا گیا۔جنرل ضیاء الحق کے لیے جنرل بیگ تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیے آصف علی زرداری کا حکم سامنے آ گیا۔
جنرل ضیاء الحق‘ محمد خان جونیجو کی حکومت بر طرف کرنے کے بعد ہر وقت کسی نا معلوم خطرے سے دوچار رہنے لگے‘ کیونکہ افغان جہاد کے نتیجے میں روس کے خاتمے کے بعد پاکستان اور افغانستان سمیت علاقائی سیا ست میں ان کا کردار ختم ہو چکا تھا۔ ان کے لیے بہت سے پلان ترتیب دیئے گئے لیکن محتاط جنرل‘ آرمی ہائوس میں ہی مورچہ زن رہنے لگا ۔ان کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے والوں نے جب دیکھا کہ ان کا شکار بہت ہی محتاط ہونے کی وجہ سے ان کے ہاتھ نہیں آ رہا تو انہوں نے اسے گھسیٹنے کے لیے بہاولپور میں امریکہ کے دیئے جانے والے ٹینکوں کی مشقوں میں ان کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے دو ایسی شخصیات کو استعمال کیا جن پر وہ بے حد اعتماد کرتے تھے‘ ان میں سے ایک میجر جنرل محمود خان درانی‘ جو کئی برس تک ان کے ملٹری سیکرٹری رہے‘ جن سے ان کے بہترین فیملی تعلقات تھے اور دوسرے امریکی سفیر رابن رافیل جن سے ان کے اس وقت سے ذاتی مراسم تھے جب وہ بحیثیت قونصلر اسلام آباد تعینات تھے۔ا ن کے قاتلوں نے ایندھن کو آگ لگانے کے لیے ان دونوں کو فیتے کی طرح استعمال کیا‘ لیکن ضیا ء بہت ہی محتاظ ہو چکے تھے‘ کیونکہ جنرل اختر انہیں با خبر رکھ رہے تھے‘ اور جب دیکھا کہ جنرل محمود درانی کے بار بار اصرار کے با وجود جنرل ضیاء بہاولپور جانے کے لیے کشمکش کا شکار ہیں تو پھر اپنے آدمی کی قربانی دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے‘ پاکستان میں امریکی سفیر رابن رافیل کو چارہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ جنرل ضیاء نے جیسے ہی اپنے ساتھ C130 کے مسافروں کی فہرست میں امریکی سفیر رابن رافیل کا نام دیکھا تو بادل نخواستہ بہاولپورجانے پر آمادگی ظاہر کر دی‘جبکہ ستاروں کا علم جاننے والوں نے انہیں پندرہ ستمبر تک محتاط رہتے ہوئے آرمی ہائوس سے کم سے کم باہر نکلنے کا مشورہ دے رکھا تھا۔ 
جنرل ضیاء اور بے نظیر بھٹو کے قتل کی مماثلت دیکھئے کہ جنرل ضیاء کے کہیں بھی آنے جانے کے لیے ہمیشہ دو طیارے تیار کئے جاتے تھے اور اس بات کا فیصلہ بالکل آخری وقت پر ہوتا تھا کہ کون سا طیارہ استعمال کرنا ہے‘ لیکن 17 اگست1988 کو دوسرا طیارہ چک لالہ پر ہی رہنے دیا گیا۔اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو کے لیاقت باغ آنے اور جانے کے لیے دو بلٹ پروف گاڑیاں مخصوص کی گئی تھیں لیکن جیسے ہی لیاقت باغ میں محترمہ زخمی ہوتی ہیں اور ان کی گاڑی کے چاروں ٹائر بھی برسٹ ہو جاتے ہیں ‘ مگر وہ ریزرو بلٹ پروف مرسیڈیز بینزایسے کسی حادثے کی صورت میں ان کے ساتھ ہونے کے بجائے F8 میںرحمان ملک سمیت زرداری صاحب کے گھر میں کھڑی تھی۔
جنرل ضیا کو قتل گاہ تک پہنچانے کے لیے جنرل محمود درانی اور امریکی سفیر رابن رافیل کو استعمال کیا گیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو کو جلسہ ختم ہونے پر واپس اسلام آباد کے بجائے لیاقت باغ میں ان کی قتل گاہ تک پہنچانے کے لیے دو شخصیات کو استعمال کیا۔۔۔۔ایک وہ جس نے لینڈ کروزر کا رخ قتل گاہ کی جانب موڑنے کا کہا جہاں ' قاتل موجود تھے‘اور محترمہ کو روف ٹاپ کھول کر سر باہر نکال کر پی پی کے جھنڈے اٹھائے زور دار نعرے لگاتے ہوئے کارکنوں کو ہاتھ ہلانے کو کہا گیا۔ ایک مبینہ رپورٹ کے مطابق ان کارکنوں میں ایک ایسی شخصیت بھی کھڑی کی گئی تھی جن کی دونوں ٹانگیں اسلام آباد میں عدلیہ کی آزادی کے نام پر وکلاء کی ایک تقریب میں ہونے والے بم دھماکے میں ضائع ہو چکی تھیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد موقع واردات کو چند گھنٹوں بعد اس طرح صاف کر دیاگیا کہ وہاں کوئی نشان ہی نہیں رہا‘بالکل اسی طرح خیر پور ٹامیوالی میں جہاں جنرل ضیاء کا جہاز گرا وہ تمام جگہ بھی اسی رات صاف کر دی گئی کہ اگلی صبح اٹھارہ اگست کو جب ائر فورس کی ٹیم تحقیقات کے لیے وہاں پہنچی تو ادھر کچھ بھی نہیں تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی شہادت کے اسباب جاننے کے لیے پاک فضائیہ کی تحقیقاتی ٹیم کے چیف انویسٹی گیٹر گروپ کیپٹن ظہیر زیدی کی ایک رپورٹ انشااﷲ کبھی سامنے لائوں گا۔
اب آتے ہیں جنرل ضیاء الحق ‘ان کے ساتھیوں اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹوسمیت ان کے ہمراہ مارے جانے والوں کے پوسٹ مارٹم کی طرف۔ بہاولپور کے سی ایم ایچ میں پتھالوجسٹ نے جیسے ہی خیر پور ٹامیوالی سے ملنے والے جسمانی اعضا کا پوسٹ مارٹم شروع کیا تو انہیں Stop itکا حکم مل جاتا ہے‘ اسی طرح جب راولپنڈی جنرل ہسپتال میں محترمہ کا پوسٹ مارٹم کیا جانے لگا تو ایک فون کال نے اس عمل کو کو سختی سے روک دیا‘جس کے بارے میں28 دسمبر کے تمام اخبارات نے ان کے ایک سب سے قریبی شخصیت کی جانب واضح اشارہ کیا ۔جنرل ضیاء اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو کیسے قتل کیا گیا؟آلہ قتل یا ذریعہ قتل کیا تھا؟ اسے نا معلوم ہاتھوں نے لیاقت علی خان کے قتل کی طرح ہمیشہ کے لیے ضائع کر دیا۔لیاقت باغ میں جلسہ کے بعد جب محترمہ سٹیج سے روانہ ہوئیں تو ان کے ساتھ گاڑی میں چیف سیکیورٹی افسر ایس ایس پی میجر امتیاز‘مخدوم امین فہیم‘ مسز ناہید خان اور ان کے شوہر صٖفدر عبا سی‘خالد شہنشاہ( جسے بعد میں کراچی میں پر اسرار طور پر قتل کر دیا گیا) اور محترمہ کے خادم خاص رزاق میرانی تھے جبکہ جاوید الرحمان ڈرائیور مذکورہ بلٹ پروف گاڑی چلا رہے تھے۔ اب ان میں سے کوئی ایک بتا سکتا تھا کہ جب بی بی کے سکیورٹی افسر بار بار درخواست کر رہے تھے کہ گاڑی کا رخ کہیں نہ موڑا جائے اور سیدھا اسے اسلام آباد گھر کی جانب چلنا چاہیے‘ لیکن بی بی قتل گاہ کی جانب کس کے کہنے پر گئیں؟ جب محترمہ نے روف ٹاپ کھول کر باہر نکلنے کا کہا تو میجر امتیاز نے سختی سے منع کیا کہ یہ خوفناک غلطی ہو گی تو وہ کون سی اور کس کی فون کال تھی جس میں درخواست کی جا رہی تھی کہ ان کارکنوں کو روف ٹاپ سے نکل کر ہاتھ ہلائو؟
اگر کوئی آج بھی جنرل ضیا الحق اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں تک پہنچنا چاہتا ہے تواس کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں‘ صرف اس سوال کا جواب مانگا جائے کہ بی بی کو گاڑی سے سر باہر نکالنے کا کس نے کہا یا کس نے فون کال کی؟اور وہ مشہور اور مظلوم شخصیت کس کے حکم سے قتل گاہ پر پی پی کے جھنڈے اٹھائے ہوئے کچھ لوگوں کے ساتھ کھڑی کی گئی اور کس نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے سے روکا؟ اسی طرح کس نے خیر پور ٹامیوالی سے ملنے والے جسمانی اعضا کے پوسٹ مارٹم سے سی ایم ایچ بہاولپور کے پتھالوجسٹ کو روکا؟کس نے دوسرے C130 کو چک لالہ پر ہی منجمد کئے رکھا؟جنرل ضیا الحق کی سکیورٹی سپر وائز کرنے والے کون تھے‘ جنہیں یہ علم ہی نہ ہو سکا کہ دوسرا طیارہ بہالپور پہنچا ہی نہیں؟ اس طرح وی وی آئی پی سکیورٹی کے قواعد و ضوابط سے چشم پوشی کیوں کی گئی؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved