تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     07-07-2018

نواز شریف کا فیصلہ کیا ہے؟

عدالت کا فیصلہ آ گیا۔ ایک فیصلہ اب نواز شریف صاحب کو بھی کرنا ہے: انہیں تاریخ میں جینا ہے یا لمحۂ موجود میں؟ تاریخ میں وہی جیتے ہیں جو صاحبانِ عزیمت ہوتے ہیں۔
نواز شریف بڑی آزمائش میں ہیں۔ ایک طرف شریکِ حیات ہیں جو موت و حیات کی کشمکش میں ہیں۔ عمر بھر کی رفاقت کا تقاضا ہے کہ وہ تکلیف کے یہ شب و روز ان کے ساتھ گزاریں۔ یہاں تک کہ عالم کا پروردگار اپنا فیصلہ سنا دے۔ اللہ تعالیٰ اگر ان کی اہلیہ کو صحت سے نوازنا چاہے تو وہ اس پر قادر ہے۔ اگر وہ کوئی اور فیصلہ کرنا چاہے تو تسلیم و رضا کے سوا، ایک بندے کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ فیصلہ کب آئے گا اور کیا ہو گا؟
دوسری طرف نواز شریف صاحب کا قومی کردار ہے۔ وہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ انہیں ستر سالہ تاریخ کا رخ بدلنا ہے۔ وہ اقتدار کی نہیں، اقدار کی سیاست کر رہے ہیں۔ وہ عوام کے اس حق کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں، سالہا سال سے جس کا مسلسل انکار کیا جاتا رہا۔ انہوں نے سوچ سمجھ کر اس راستے پر قدم رکھا ہے اور وہ اس کے لیے ہر قربانی دینے پر آمادہ ہیں۔ یہ قومی کردار متقاضی ہے کہ وہ ملک میں ہوں، پسِ دیوارِ زنداں یا پھر عوام کے ساتھ سرِ بازار۔
تاریخ کے صفحات صاحبانِ عزیمت کے تذکروں سے فروزاں ہیں۔ ان پر بھی ایسا مشکل وقت آیا جب شخصی جذبات اور قومی کردار کے تقاضے باہم متصادم ہوئے۔ کبھی باپ اور بیٹی کا رشتہ اس آزمائش میں ڈالا گیا اور کبھی خاوند اور بیوی کا۔ انہیں آزمایا گیا۔ تاریخ نے انہی لوگوں کو خراجِ تحسین کا مستحق سمجھا جنہوں نے اجتماعی مفاد کے لیے ذاتی جذبات کو قربان کر دیا۔
یہ مولانا محمد علی جوہر ہیں۔ تاریخ نے انہیں بطلِ حریت کا خطاب دیا۔ اللہ تعالیٰ نے چار بیٹیوں سے نوازا۔ منجھلی بیٹی آمنہ کو تپ دق کے عارضے نے آ لیا۔ باپ غاصب قوت سے نبرد آزما تھا‘ اور بیٹی مرض سے۔ باپ جیل میں تھا کہ بیٹی کی طبیعت بگڑنے لگی۔ متبادل موجود تھا کہ فرنگی حکمرانوں سے درخواست کرتے اور آزاد ہو جاتے۔ مولانا جوہر مگر صاحبِ عزیمت تھے۔ غیرت نے گوارا نہ کیا کہ معافی کی عرضی دیں۔ بیٹی سے دوری کو گوارا کیا کہ ایک لیڈر کے شایانِ شان یہی تھا۔ جذبات مگر کب قابو میں رہتے ہیں۔ شفقتِ پدری کا غلبہ ہوا تو درخواست نہیں لکھی، ایک نظم رقم کر دی۔ جی چاہتا ہے کہ اس کے دو شعر میاں صاحب کی نذر کروں جن میں مولانا جوہر نے اپنی بیٹی کو مخاطب بنایا :
ہم کو تقدیرِ الٰہی سے نہ شکوہ نہ گلہ
اہلِ تسلیم و رضا کا یہ دستور نہیں
تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اس کو
نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی منظور نہیں
محمد علی جوہر جس بی اماں کی گود میں پلے تھے، ان کا معاملہ بھی عجیب تھا۔ ایک بار خبر ملی کہ حکمران ان کے بیٹوں سے معافی چاہتے ہیں۔ کہا: ایسا کیا تو اپنے بوڑھے ہاتھوں سے گلا دبا دوں گی۔
یہ مولانا ابوالکلام آزاد ہیں۔ برصغیر کی مٹی ناز کرتی رہے گی کہ وہ اس سرزمین کے فرزند تھے۔ جیل میں تھے تو بیوی کا انتقال ہو گیا۔ مولانا نے رہائی کی درخواست نہیں کی۔ وہ برسوں سے علیل تھیں۔ مولانا کو اکثر جیل جانا ہوتا۔ انہیں زیادہ وقت نہیں ملا کہ بیوی کی دل جوئی کر سکیں۔ مولانا نے اپنے قلم کو خونِ جگر میں ڈبویا اور اپنے 'صدیقِ مکرم‘ کے نام خط میں دل کا حال لکھ دیا: ''... اس طرح ہماری چھتیس برس کی ازدواجی زندگی ختم ہو گئی اور موت کی دیوار ہم دونوں میں حائل ہو گئی۔ ہم اب بھی ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں، مگر اسی دیوارکی اوٹ سے۔ مجھے ان چند دنوں کے اندر برسوں کی راہ چلنا پڑی۔ میرے عزم نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا۔ مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ میرے پاؤں شل ہو گئے ہیں‘‘۔
اور یہ محمد علی جناح ہیں جنہیں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنا قائد اعظم مانا۔ ایسا اجلا کردار کہ مخالفین بھی اعتراف پر مجبور ہوئے۔ اکلوتی بیٹی نے ایک غیر مسلم سے شادی کر لی۔ دل پر پتھر رکھا اور خود کو ہمیشہ کے لیے بیٹی سے دور کر لیا۔ اہلِ اسلام کا سب سے بڑا راہنما بننے کی یہ بھی ایک قیمت تھی جو محمد علی جناح نے ادا کی۔
یہ چند صاحبانِ عزیمت کی داستانیں ہیں۔ لوگ ان سے اختلاف کرتے ہیں لیکن کم ہوں گے جو ان کی عظمت کے منکر ہوں۔ ان سب نے لمحۂ موجود کے بجائے، تاریخ میں جینے کا فیصلہ کیا۔ نواز شریف صاحب کو بھی فیصلہ کرنا ہے: لمحۂ موجود یا تاریخ۔ یہاں سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ یہ سب لوگ قومی جدوجہد کر رہے تھے اور یہاں معاملہ کرپشن کا ہے۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں۔ اگر معاملہ کرپشن کا ہوتا تو پھر ہر وہ آدمی اس عمل سے گزرتا جس پر یہ الزام تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ جو سب سے زیادہ بدنام تھے، وہ صادق اور امین قرار پا چکے۔ پھر یہ سارا عمل جس طرح شکوک کے دھند میں لپٹا ہوا ہے، اس کے بعد اسے کرپشن کا معاملہ قرار دینا، اس کی صحیح تعبیر نہیں۔ میرا احساس ہے کہ عوام کی اکثریت بھی ان مقدمات کے بارے میں یہی تاثر رکھتے ہیں۔
عدالت نے فیصلہ سنا دیا۔ نواز شریف مجرم قرار پائے۔سیاست ایک بار پھر پرانی ڈگر پر چل نکلی ہے۔ نواز شریف نے 2013ء میں مفاہمت کے جس دور کی بنیاد رکھی تھی، وہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ ہم ایک دن میں 1980ء کی دھائی میں پہنچ گئے ہیں۔ ایک طرف مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں اور دوسری طرف غصے کا اظہار ہو رہا ہے۔ آج نواز شریف محبت و نفرت کا اسی طرح مرکز ہیں جس طرح 1979ء میں بھٹو صاحب تھے۔ ترقیٔ معکوس کا یہ عمل ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی اور غیر سیاسی عناصر نے ایک بار پھر سیکھنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان کے لیے جو مشکل دور آ رہا ہے، اس کا خیال آتا تو نیند اڑ جاتی ہے۔
اب نواز شریف کو اپنا فیصلہ سنانا ہے۔ یہی فیصلہ پاکستان کی سیاست کا رخ طے کرے گا۔ عوام کا اس کا انتظار ہے۔ نون لیگ کا سیاسی مستقبل ان کے اس فیصلے سے جڑا ہوا ہے۔ میرے نزدیک اس وقت ایک بار پھر سیاست کی باگ نواز شریف کے ہاتھ میں آ گئی ہے۔ شہباز شریف صاحب کے پاس اب اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ نواز شریف کے بیانیے کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ان کی پریس کانفرنس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ بھی محتاط راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حکمت عملی ناکام ہو چکی۔ مسلم لیگ کو اب جارحانہ سیاست کرنا ہو گی۔ بقا کا یہی راستہ ہے۔
یہ بات بھی ایک بار پھر ثابت ہوئی کہ ملک میں اس وقت ایک ہی بیانیہ ہے اور یہ نواز شریف کا بیانیہ ہے۔ یہ مزاحمت کا بیانیہ ہے۔ نواز شریف ملک میں آئیں گے تو ظاہر ہے کہ انہیںجیل ہی جانا ہے۔ اگر وہ اپنا نام تاریخ میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو انہیں ملک میں آنا ہو گا۔ میرا تاثر ہے کہ جیل کے دروازے کھلیں گے تو نون لیگ کے لیے بھی زندگی کے دروازے کھلیں گے۔
میں اس بات کا ایک بار پھر اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایک مقبول لیڈر کو سزا دینے کی ایک قیمت ہے جو اِس قوم اور ملک کو ادا کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کو اپنوں کی بے تدبیری کے اثرات سے محفوظ رکھے۔

 




 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved