تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     07-07-2018

کیا الیکشن سیٹھ اور کنگلے کی لڑائی ہے؟

آج کل پاور پالیٹکس یا اقتدار کی سیاست اپنے عروج پر ہے۔ سیاسی لوگ جذبات کے رولر کوسٹر پر سوار ہیں۔ وہ عوام کو بھی ہیجان میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خوش کن دعووں اور پُر جوش نعروں سے ایک نفسیاتی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔ یہ نفسیاتی فضا رائے دہندگان کے رائے سازی کے فیصلے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ 
میں نے اقتدار کی سیاست کے ساتھ اس کے انگریزی الفاظ پاور اور پالیٹکس اس لیے لکھے ہیں کہ انگریزی زبان کے ان دو الفاظ میں اس سارے عمل کا نقشہ کھل کر سامنے آتا ہے‘ یعنی طاقت کی سیاست۔ یہ جو افراد اور جماعتیں انتخابات لڑ رہے ہیں، یہ کون ہیں؟
یہ وہ لوگ ہیں جو ریاست سے طاقت میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ جائز اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ریاست طاقت و اختیار کا ایک بڑا حصہ عوام کو ان کے منتخب نمائندوں کے ذریعے منتقل کرتی ہے۔ دنیا کی بیشتر ریاستوں میں مختلف طبقات ہوتے ہیں۔ ان طبقات کو ریاست کا سٹیک ہولڈر بھی کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ریاست کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام سٹیک ہولڈرز کا خیال رکھے۔ 
ریاست کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کا برابر ہونا اور یکساں طور پر اہم ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں جو طبقاتی ڈھانچہ ہے اس کے اندر طبقات کی مختلف پرتیں موجود ہیں۔ اس میں جاگیردار اور کھیت مزدور ہیں، زمیندار اور مزارعے ہیں، صنعت کار اور صنعتی مزدور ہیں، ملوں اور کارخانوں کے مالکان ہیں اور ان کے اندر کام کرنے والے مزدور ہیں، کسان ہیں اور دانشور ہیں۔ ان سب طبقات کی ہیئت ترکیبی مختلف ہے۔ ان کی سماجی اور معاشی حیثیت مختلف ہے۔ 
طبقات آمدنی سے بنتے ہیں، اور ظاہر ہے معاشی اعتبار سے مذکورہ بالا طبقات میں بہت بڑا فرق ہے۔ مگر جہاں تک ریاست میں ان کے سٹیک کا تعلق ہے تو اس کا آمدنی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ ریاست جب انتخابات جیسی ایک جمہوری مشق سے گزر رہی ہے تو اس وقت ان سب کا حصہ ان کی معاشی یا سماجی حیثیت سے نہیں، بلکہ ان کی تعداد سے متعین کیا جانا چاہیے۔ اگر ملک میں مزدور، کسان اور دانشور عددی اکثریت میں ہیں ، تو جمہوری عمل میں ان کا حصہ باقی طبقات سے بڑا ہونا چاہیے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایک جمہوری عمل میں عددی اکثریت والے اور عددی اقلیت والے کو حصہ بقدر جُثہ مل سکے۔ یہ جمہوریت کی ایک لازمی شرط ہے۔ اس سلسلے میں ریاست کو کچھ بنیادی نوعیت کے اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ ان میں پہلا اور بڑا قدم یہ ہوتا ہے کہ ریاست انتخابات کے لیے میدان کو اس انداز میں ہموار کرے کہ سب کو انتخاب لڑنے کے لیے مساوی ماحول‘ موقع اور ذرائع میسر ہوں۔ 
مثال کے طور پر اگر حکومت ایک امیدوار کے لیے انتخابات میں پیسے خرچ کرنے کی کوئی حد نہیں مقرر کرتی، اور اس بات کو یقینی نہیں بناتی کہ کوئی امیدوار مقرر کردہ حد سے زیادہ ایک روپیہ بھی خرچ نہ کرے تو پھر انتخابات صرف پیسے والوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ الیکشن ایک کاروبار اور تجارت بن جاتا ہے۔ اخراجات میں حد کے علاوہ انتخابات کے ساتھ جڑے کئی دوسرے مسائل جیسے وال چاکنگ، پوسٹرز اور پبلسٹی کے دیگر ذرائع کے بارے میں قانون سازی بھی ہموار میدان مہیا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جماعتوں کی فنڈنگ، میڈیا کا کردار اور ضابطہ اخلاق میں مناسب ترامیم سے کافی فرق پڑ سکتا ہے۔
سب کے لیے ہموار میدان مہیا کرنا صرف ریاست کی ہی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس سے بڑی ذمہ داری سیاسی پارٹیوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پارٹیاں عموماً دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک‘ بائیں بازو کی چھوٹی جماعتیں جو نچلے طبقات کی نمائندگی پر زور دیتی ہیں۔ ان کی توجہ کا مرکز مزدور، کسان اور دانشور طبقہ ہوتا ہے۔ یہ پارٹیاں پہلے سوشلسٹ انقلاب کی بات کیا کرتی تھیں، مگر اب یہ کافی حد تک جمہوری عمل کے ذریعے سوشلسٹ تبدیلی کی بات کرتی ہیں۔ یہ پارٹیاں اپنے نظریات کے حوالے سے اخلاقی طور پر پابند ہیں کہ اپنے امیدواروں کی اکثریت انہی طبقات سے لائیں جن کی نمائندگی کی وہ دعوے دار ہیں۔ 
دوسری‘ عام دھارے کی کثیر طبقاتی پارٹیاں‘ جن کی لیڈرشپ اور کارکنوں میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ ان پارٹیوں کو انتخابات کے دوران دو قسم کے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ ان کی کثیر طبقاتی ساخت کا عکس پارلیمان میں کیسے نظر آئے‘ اور دوسرا‘ پارٹی میں موجود معاشی طور پر کم خوشحال اور غریب کارکنوں کے ساتھ کیا کیا جائے۔ روایتی طور پر یہ جماعتیں دو طریقوں سے ان چیلنجز سے نمٹتی رہی ہیں۔ ایسی جماعتیں اپنے اکثریتی امیدوار جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور دوسرے اونچے طبقات سے لیتی رہی ہیں، اور اقتدار میں آ کر اپنے غریب کارکنوں کی اشک شوئی کے لیے ان کو ملازمتیں، قرضے، پرمٹ اور ٹھیکے وغیرہ دئیے جاتے رہے ہیں۔ اس عمل کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ان دونوں طبقات کے گنے چنے نمائندہ افراد کو نوازنے والی بات ہے۔ 
پارٹی جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں اور پیروں وغیرہ سے ان کی دولت اور اثر و رسوخ مستعار لے کر بدلے میں ان کو اسمبلی کی سیٹ پیش کرتی ہے۔ اور کارکنوں کی بھاگ دوڑ اور نعرے بازی کا صلہ ملازمتوں اور پرمٹوں سے چکایا جاتا ہے۔ اس بدر بانٹ میں ظاہر ہے خال خال ہی کوئی ایسا شخص حصہ پا سکتا ہے، جس کا پارٹی سے تعلق نہیں ہے۔ 
موجودہ انتخابات میں ایک جماعت نے کچھ حلقوں میں منتخب ہونے کے قابل امیدوار اور اپنی پارٹی کے دیرینہ اور بنیادی کارکنوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ پارٹی رہنما کا استدلال یہ تھا کہ اگر کوئی پارٹی کا بنیادی کارکن ہے، مگر انتخابات جیتنے کے لیے اس کے پاس روایتی اثر و رسوخ یا انتخابات پر خرچ کرنے کے لیے پیسہ نہیں ہے، اور دوسری طرف ایک ایسا امیدوار ہے جس کا ایک پاور بیس ہے، خاندانی اور روایتی اثر ہے، اور انتخابات پر خرچ کرنے کے لیے وافر وسائل ہیں، تو ایسی صورت میں اس امیدوار کو چھوڑ کر پارٹی کارکن کو ٹکٹ دینا میرٹ کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ وہ منتخب ہونے کے قابل نہیں ہے۔ یہ مضبوط دلیل ہے مگر اس کو الٹ کر بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ ظاہر ہے‘ اصولی اور اخلاقی طور پیسہ یا خاندانی اثر و رسوخ کو میرٹ کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا‘ اگرچہ یہ زمینی حقائق اور عملی سیاست کے تقاضے ہیں‘ مگر اس طرح کوئی پارٹی اپنے اندر موجود لوگوں کو ان کی قابلیت اور خدمات سامنے رکھ کر ان کو ٹکٹ نہیں دیتی ، اور ایسے لوگوں کا انتخاب کرتی ہے جن کے پاس پیسہ ہے اور جو پیسے کے بل بوتے پر الیکشن جیتتے ہیں، تو ظاہر ہے اس عمل میں سماج کا صرف ایک طبقہ ہی طاقت کا مالک بنے گا۔ یہ عمل کسی بھی ریاست کو بالآخر ایک نا ہموار، غیر مساوی اور نا کام ریاست میں بدل دیتا ہے۔ یہ ایک مایوس کن صورت حال ہے۔ 
حاصل کلام یہ ہے کہ زمینی حقائق اور عملی سیاست کے تقاضوں کے باوجود دنیا کی کوئی کامیاب جمہوریت کچھ اخلاقی اصولوں اور ضابطوں کی پابند ہے۔ جمہوریت کو امیر اور غریب کے درمیان ایسا مقابلہ نہیں بنایا جا سکتا، جس میں ہر بار پیسے والا جیت جائے۔ سماج کو مل جل کر کچھ اصولوں اور ضابطوں پر اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ضابطے بنانا پڑتے ہیں جو سماج کے کم خوش نصیب لوگوں کو بھی ریاست کے سیاسی‘ معاشی اور سماجی انتظام میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہو۔ اس طرح ایک طویل سلسلۂ عمل میں عام آدمی سماج کے کاروبار میں شامل ہوتا جاتا ہے، جس سے سماج کی شکل زیادہ منصفانہ بنتی جاتی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق کم ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح ایک ایسا وقت آتا ہے کہ ایک جمہوری‘ فلاحی ریاست میں رہنے والا ہر فرد اپنی مرضی اور قابلیت کے مطابق طاقت و اختیار میں اپنا حصہ مانگ سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved