جب میں 1967ء میں پہلی مرتبہ ’’فنانس سروسز اکیڈیمی‘‘ کوجوائن کرنے کے لیے کراچی سے لاہور آیا تو میرے لاہور ی دوستوں نے مجھے ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھا جو بہت جدید شہر سے آیا ہو۔ اُس وقت لاہور ایک خاموش ، پُرسکون ، چھوٹے سے قصبے کی طرح تھا جہاں نو بجے کے بعد کسی ریستوران کا کھلا ملنا محال تھا۔ رفتہ رفتہ یہ شہر ترقی کی منازل اس طرح طے کرنے لگا کہ جب بھی میں یہاں آتا ہوں تو پرانی دیکھی بھالی جگہوں پر نئی بننے والی عمارتوں، شاپنگ پلازوں اور مارکیٹوں کو پاتا ہوں جبکہ بڑھتے ہوئے ٹریفک کے مسائل سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے نئے فلائی اوورز اور انڈر پاس دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جدید دوکانوں پر دنیا بھر کی کمپنیوں کاسامان موجود ہے جبکہ جدید ریستورانوں میں روایتی کھانوںکے ساتھ ساتھ نت نئی ڈشز بھی ملتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب تبدیلیاں مثبت پہلو لیے ہوئے نہ ہوں کیونکہ نئے منصوبوںکے لیے بہت سے درختوں کو کاٹا گیا ہے جبکہ ترقی کے نام پر پرانی تاریخی عمارتوں کو مسمار کر دیاگیا ہے ، لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے مختلف حکومتوںنے اس شہر میں اتنا کام کیا ہے کہ اب اسے پرانے حوالوںسے شناخت کرنا مشکل ہے۔ اس دوران ،جبکہ لاہور ترقی اور جدت کے زینے طے کر رہا تھا، کراچی زبوں حالی اور تباہی کا شکار رہا۔ خوبصورت تو یہ کبھی بھی نہ تھا، اب یہ شہر پہلے سے بھی زیادہ بدصورت ہو چکا ہے۔ کھلی جگہوں اور گلیوں میں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں جبکہ ہر دیوارپر سیاسی جماعتوںکے پیغامات نقش ہوتے ہیں۔ اس گندگی کے باوجود اس کی آبادی میں دھماکہ خیز انداز میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ رہائشی فلیٹس کے بلاک سمند رکو چھوڑ کر ہر طرف پھیلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان دونوں شہروں میں ایک علامتی فرق ترجیحات کا بھی ہے۔ کراچی میں عوام کو سفر کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے دوسو جدید بسیں منگوائی گئیں لیکن اُن کو سڑکوں پر نہ لایا جا سکا۔ اب وہ بندرگاہ کے نزدیک کھڑا رہنے کی وجہ سے زنگ آلود ہو چکی ہیں۔ اس دوران لاہور میں سابقہ پنجاب حکومت کی طرف سے جدید ترین میٹرو بس سروس کا آغاز کیا گیا ۔باقی معاملات کو چھوڑ کر صرف سفر کے حوالے سے بنائے گئے ان منصوبوں کے آئینے میں ان دونوں شہروںکی حکومتوں اور ان کی افسر شاہی کے رویے کو دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور کو اس کے تاریخی پس ِ منظر پر بھی ناز ہے۔ اس میں مغلیہ دوراورانگریز راج میں قائم کیے گئے پارک ، باغات، تعلیمی ادارے اور عمارتیں موجود ہیں۔ اس کے برعکس کراچی میں صرف متحرک اور تیز رفتار زندگی ہے جس پر ہم اہلیانِ کراچی فخر کر سکتے ہیں۔ کئی سال پہلے اقبال احمد مرحوم نے کہا تھا کہ کراچی پاکستان کا واحد سیکولر شہر ہے، تاہم اب بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور طالبنائزیشن کی وجہ سے یہ امتیاز بھی چھننے کو ہے۔ اس پر مستزاد، سیاسی مافیا اور مجرموں کے گینگ، جواکثر ایک دوسرے کے ساتھ شیرو شکرہوتے ہیں،اس شہر کو نہایت کامیابی سے میدان ِ جنگ میں تبدیل کر چکے ہیں۔تشدد اور بھتہ خوری کی وجہ سے اس شہر میں نئی سرمایہ کاری ایک خواب بن چکی ہے جبکہ پہلے سے کاروبار کرنے والے بھی چھوڑکر جاچکے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک کراچی پر صرف ایک بڑی سیاسی جماعت کی اجارہ داری تھی لیکن اب بہت سے سیاسی کھلاڑی اور مجرموںکے گروہ اس شہر کے دعویدار ہیں۔ چونکہ ان میںسے کسی کے بھی دست و بازو ناتواں نہیںہیں، اس لیے اس شہر کے ایک ایک مربع انچ پر قبضہ کرنے (برقرار رکھنے ) کے لیے جنگ ہو رہی ہے۔ اس جنگ میں ہزاروں عورتیں بیوہ اور لاکھوں بچے یتیم ہو چکے ہیں ، لیکن ان خون آشام طاقتوںکی پیاس بُجھنے کا نام نہیںلے رہی۔ ان دونوں صوبائی دارالحکومتوں کے درمیان فرق کو صوبائی سطح پر پھیلاکر سندھ اور پنجاب کے فرق کو بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس فرق کو عوامی زبان میں سننا ہو تو اپنے ایک دوست کے ڈرائیور ، راجو کی زبان سے سنا دیتا ہوں۔۔۔’’ میں نقشہ دیکھے بغیر بتا سکتا ہوں کہ کب سندھ سے نکل کر پنجاب میں داخل ہواہوں، سڑکو ںکا معیار بتا دیتا ہے کہ یہ پنجاب ہے۔‘‘اگرچہ دیہی سندھ میں بھی گزشتہ کچھ برسوں سے سڑکوں کی تعمیر و مرمت کے کئی منصوبوںپر کام ہو ا ہے لیکن زمینی حقائق اس ترقی کی نفی کرتے ہیں۔ ان منصوبوں میں سے بیشتر میں بھاری خورد برد کے الزامات ہیں۔ مسٹر عارف حسن،جو کہ ایک مشہور مصنف اور پلاننگ کے ماہر ہیں، کے مطابق جنوبی پنجاب، جہاںوہ کام کررہے تھے، میں تعلیمی نظام کو صوبائی حکومت نے بے پناہ ترقی دی ہے۔ اگرچہ سندھ میں بھی سماجی تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیںلیکن یہ اپنے ہمسائے سے بہت پیچھے ہے۔ میرے پا س کوئی ٹھوس ثبوت تو نہیںہے لیکن قیاس ہے کہ اس پسماندگی کی وجہ یہ ہے کہ سندھ میں پنجاب کی نسبت بدعنوانی بہت زیادہ ہوئی ہے۔ ان دونوں شہروں میں ایک فرق یہاں کے سیاست دانوں اور سرکاری ملازموں کے رویے سے بھی جھلکتا ہے۔ کراچی یہاں حکومت کرنے والوںکے لیے سونے کاانڈا دینے والی مرغی تھی۔ حالیہ تاریخ میں اس شہر کی زمین پر قبضے کی ان گنت داستانیں رقم ہیں۔ اس شہر کے پارکس اور تمام میدان بے شرمی اور ڈھٹائی سے کمرشل عمارتوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ نامور کالم نگار اردشیر کائوس جی مرحوم نے عوامی فلاح کے لیے مختص کی گئی زمینوں پر قبضے کے خلاف بہت زیادہ لکھا اور اس کو روکنے کے لیے عدالت میںبھی گئے لیکن قلم کا کلاشنکوف کے ساتھ کیا مقابلہ۔ دوسری طرف لاہور میں بھی مختلف قبضہ گروپ سرگرم ِ عمل رہے ہیںلیکن بڑی حد تک ان سے قبضہ چھڑوا کر زمینیں بازیاب کرا لی گئی ہیں ۔ اس شہر میں آکر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہاں پارکوںکی حالت بہت بہتر ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف صاحب پر ایک الزام یہ رہا ہے کہ اُنھوںنے شہر کے صرف اُس حصے کو ہی ترقی دی ہے جہاں اشراف رہتے ہیںاور یہ کہ باقی صوبے کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف لاہور پر ہی توجہ دی ہے۔ ان الزامات کی صداقت جاننے کے لیے پنجاب کے مختلف شہروں میں سفر کرنے کی ضرورت ہے ۔ چونکہ میں کافی دیر سے ایسا نہیں کر سکا ہوں، اس لیے ذاتی طور پر تو زیادہ نہیں جانتا کہ ان الزامات میںکہاںتک صداقت ہے ،لیکن جن مختلف لوگوں سے ملاہوں اُن کا کہنا ہے کہ تمام صوبہ کسی نہ کسی حوالے سے ترقی کر رہاہے۔ اس کے شہروں اور دیہات کی حالت بدل رہی ہے۔ صوبائی حکومت کی عمدہ حکمت ِ عملی کی وجہ سے یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں زرِ مبادلہ کو درآمدی اشیا پر صرف کیا جاتا تھا لیکن اب اس رقم سے مقامی افراد کو روزگار فراہم کرنے کے لیے سمال بزنس اسکیموں میں لگایا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی فصلوں، جیسا کہ گندم ، چاول، کپاس اور گنے کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بھی صوبے میں خوشحالی آئی ہے اور عام آدمی کا معیار ِ زندگی بہتر ہوا ہے۔ لاہور اور کراچی کی انتظامیہ کا معاملات پر کنٹرول بھی ایک جیسا نہیںہے۔ پنجاب کی مختلف حکومتوں کے دوران انتظامیہ نہایت جاندار کردار ادا کرتی ہے۔ میرے بہت سے دوستوں، جن میں سے اکثر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حامی نہیںہیں، کا کہنا ہے کہ سابقہ وزیر ِ اعلیٰ مسٹر شہباز شریف بہت محنتی شخص اور نہایت اعلیٰ منتظم ہیں۔ وہ افسر شاہی کو ’’کھینچ‘‘ کر رکھتے ہیں۔ دوسری طرف سندھ میں معاملات بہت خراب ہیں۔ یہاںعملی طور پر کوئی انتظامیہ نہیںہوتی ہے، اگر حکومت نامی کوئی چیز نظر آتی ہے تو صرف بدعنوانی اور نااہلی کا مرقع ہوتی ہے۔ حکومتی سطح پر بہت سے فیصلے صرف مخلوط حکومت میں شامل اتحادیوںکی ہمہ وقت جاری کھینچا تانی کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہاں امن وامان کی صورت ِ حال اس قدر خراب ہے کہ یہ شہر پانی پت کو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے ۔ تاہم اس دوران یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ سندھ حکومت کرنے کے لیے ایک مشکل صوبہ ہے کیونکہ یہاں لسانی ، نسلی اورمذہبی اکائیوں کے درمیان تصادم کی فضا قائم رہتی ہے۔ اسّی کی دہائی میں، جب سے ایک بڑی سیاسی جماعت نے اس پر قبضہ کیا ہے، اس شہر سے امن روٹھ چکا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved