تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-07-2018

مستقبل

جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے؟ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا...
ایک ضروری کام سے وزیراعلیٰ کے سیکرٹریٹ جانا ہوا۔ چلتے چلتے پروفیسر حسن عسکری صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ پڑھے لکھے‘ تراشیدہ آدمی ہیں‘انہیں چیف منسٹر لکھنے میں تامل ہوتا ہے‘ خیر یہ ذکر بعد میں۔ مرکزی دروازے پرایک غیر متوقع چیز کا سامنا کرنا پڑا۔ گاڑی کے عقبی شیشے میں سے جھانک کر کسی نے پوچھا: اپنے ساتھ آپ کوئی تحفہ تو نہیں لائے؟ کوئی ڈبہ یا کریٹ۔ ''کچھ بھی نہیں‘‘ عرض کیا اور ہنسی چھوٹ گئی۔ یکایک یاد آیا کہ ڈکیّ میں آم کا ایک کریٹ اور دو ڈبے پڑے ہیں۔ ان صاحب سے کہا‘ تلاشی لے لیجئے‘ اپنا فرض آپ ادا کیجئے۔ احکام اگر اس نوع کے ہیںتو ڈبے اتار کے رکھ لیجئے۔ میرا خیال یہ ہے کہ سکیورٹی والوں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ ایک آدھ منٹ کی بات ہوتی ہے۔ برا کیوں مانیں؟ واقعی اس نے کریٹ اتار لیا اور ڈبے بھی۔ کہا: واپسی پہ لے لیجئے گا۔
ہر چیز بری نہیں ہے۔ ہر کہیں خرابی نہیں بڑھ رہی۔ یہ ہمارے مزاج کا کرشمہ ہے کہ‘ جو بھلائی واقع ہو چکتی ہے اپنا حق سمجھ کر اسے ہم بھول جاتے ہیں‘ وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں Taken for granted۔ اسی کا نام ناشکری ہے۔ یہی وہ طرزِ فکر ہے‘ زندگی کو جو ناخوشگوار بناتا ہے۔ قرآن کریم سے پوچھا جائے تو وہ یہ کہتا ہے کہ دنیا میں صرف دو طرح کے آدمی ہیں‘ شاکی یا شکرگزار۔ کتاب کہتی ہے: فان مع العسر یسراً ان مع العسر یسراً۔ بے شک تنگی کے ساتھ آسانی ہے‘ تنگی کے ساتھ ہی آسانی ہے۔ عمر فاروق اعظمؓ اس آیت کی تشریح کرتے تو فرمایا کرتے: کلام الٰہی کے ان الفاظ سے آشکار ہے کہ آسانیاں بالعموم آزمائشوں سے دوگنا ہوتی ہیں۔ کیا عجب ہے‘ آپؓ کے ذہن میں وہ آیت جگمگاتی ہو‘ جو آدم کی اولاد کو مطلع کرتی ہے کہ خالق ِارض و سما کی صفت رحمت‘ اس کی صفت عدل پر غالب ہے اور دائم غالب ہے۔ لیکن اگر شکوہ ہی شعار کرلیا جائے۔تو زندگی کا شجر ٹنڈ منڈ ہو جاتا ہے۔ برسات اور بہار کی مہربان ہوائوں میں اس کی شاخیں پھر کبھی نہ جھومیںگی۔ شاخ کا کیا ذکر‘ ٹنڈ منڈ ہو جائے گا۔ سوکھا ہوا تنا رہ جائے گا۔ کبھی اس پہ کوئی پھول نہ کھلے گا‘ ثمر کا کیا سوال۔
ابھی کل کی بات ہے۔ ابھی چند برس پہلے کی کہ ملک میں ہر ہفتے چار پانچ بڑے بم دھماکے ہوا کرتے۔ تحریکِ طالبان پاکستان کے نام سے خارجیوں کا جو گروہ بروئے کار آیا تھا‘ بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ کے کارندوں سے اس کے کمانڈر رابطے میں رہتے۔ایک خاص مکتبِ فکر کے علماء ان کے لیے جواز ڈھونڈا کرتے‘ حتیٰ کہ بعض سیاسی لیڈر بھی۔ مارکیٹوں‘ مزارات اور سرکاری دفاتر میں خودکش دھماکوں سے قتلِ عام کرنے والوں کو ''ہمارے ناراض بھائی‘‘ کہا جاتا۔ خارجیوں کا تو ذکر ہی کیا کہ دوسرے مکاتبِ فکر کو وہ مسلمان ہی نہیں مانتے۔میرے محترم دوست عمران خان نے پشاور میں ان کے لیے دفتر کھولنے کی تجویز دی تھی۔ لیگی کارکنوں کے مطابق‘ عصرِ حاضر کے سب سے بڑے ایڈمنسٹریٹر جناب شہبازشریف نے کہا تھا: پنجاب میں طالبان کو کارروائی نہ کرنی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ سندھ‘ سرحد‘ بلوچستان اور قبائلی پٹی کے مکینوں کا خون ان پہ حلال ہے۔ع
تو مشق ِناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر
اللہ کا شکر ہے کہ دہشت گردی کا عفریت مر رہا ہے۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ کل بھوشن یادیو‘ اس طرح بلوچستان میں مٹرگشت کیا کرتا‘ گویا وہ بھارت کا ایک صوبہ ہے۔ جاتی امرا کے محلاّت میں‘ نریندر مودی کے ساتھ‘ شریف خاندان کی میزبانی کا لطف اٹھانے والے اجیت ڈوول نے دعویٰ کیا تھا کہ جس وقت وہ چاہیں گے‘ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو کاٹ کے الگ کر دیں گے۔ کل بھوشن یادیو اب جیل میں پڑا ہے اور خارجیوں کا سب سے سفاک سرغنہ ملا فضل اللہ جہنم واصل ہو چکا۔ ایک ممتاز مذہبی جماعت کے وہ معزز سربراہ اب اپنی خلوت میں خاموش پڑے ہیں‘ جنہوں نے خارجی قاتلوں کو شہید قرار دیا تھا۔
زندگی بدل سکتی اور بہتر ہو سکتی ہے‘ بالیدہ اور رفیع ہو سکتی ہے‘ ظفرمند اور سربلند بھی۔ شرط یہ ہے کہ خودترسی اور خود ترحمی کی بجائے‘ شکرگزاری اختیار کی جائے۔ ٹھنڈے دل سے ہر تکلیف دہ مرض اور مسئلے کا تجزیہ کیا جائے پھر اس سے نجات پانے کی تدابیر۔
جذبات سے مغلوب‘ ہیجان کے مارے ہوئے‘ ہم ایک جذباتی قوم ہیں۔ بحران‘ جنگ‘ اذیت اور آزمائش کے ہنگام ٹھنڈے دل و دماغ سے تدبر کرنے والوں کے زخم ہی مرہم پاتے اور مندمل ہوتے ہیں‘ چیخ و پکار کرنے والوں کے نہیں۔
کچھ اور مصروفیات بھی تھیں۔ ان کی مصروفیات کا خیال بھی تھا۔ پروفیسر حسن عسکری کے ساتھ سرسری سی بات چیت ہی ہو سکی۔ بعض باوردی افسروں سے‘ چند ماہ قبل ہونے والی ملاقاتوں کے پس منظر میں‘ ایک سوال ذہن میں کلبلا رہا تھا۔ اصرار کے ساتھ‘انہوں نے کہا تھا کہ پولنگ شفاف ہوگی۔ ایسی کہ کوئی انصاف پسند انگلی نہ اٹھا سکے۔ پروفیسر صاحب سے پوچھا: اس دعوے پر کیونکر اعتبار کیا جائے کہ الیکشن دھاندلی سے پاک ہوں گے۔ انہوں نے کہا: ایک خوشخبری تو یہ ہے کہ التوا کا اب کوئی سوال نہیں۔ تیاریاں سب مکمل ہیں۔ صوبائی اور ضلعی انتظامیہ میں‘ ہر ذمہ دار افسر کو بتلا دیا گیا ہے کہ اپنا کردار وہ ذمہ داری اور غیرجانبداری کے ساتھ ادا کرے۔ الیکشن والے عملے کی تربیت تو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے‘ پولنگ کے عمل کی نگرانی مگر فوج کرے گی۔ اندر اور باہر فوجی افسر موجود ہوں گے تو جعلی ووٹ ڈالنے کی جرأت کوئی نہ کرے گا۔ مگر اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پریذائیڈنگ اور ریٹرننگ افسر وںکے درمیان ووٹوں کے ڈبوں کی نقل و حرکت آزادانہ اب نہیں ہوگی۔ ایک فوجی اس مرحلے میں موجود رہے گا۔ گڑبڑ زیادہ تر یہیں ہوا کرتی ہے۔
پاکستانی فوج کی ساکھ دائو پر ہے۔ کم کم اور اکّا دکّا کی بات دوسری ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے منجھے ہوئے کارکن عادات بد کے اسیر ہیں۔ پولنگ یا گنتی میں دھاندلی کی شکایت عام ہوئی تو دہشت گردی کے خلاف‘ اس کے شہدا کی تاریخ ساز قربانیاں دھندلا جائیں گی۔ ساری کمائی اس کی برباد ہو جائے گی۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ‘ خاص طور پہ بھارت‘ برطانیہ اور امریکہ کی تگڑم اسے معاف نہ کرے گی۔ اس کے باوجود کہ برطانوی پریس اور ایمنسٹی نے نوازشریف کو پرلے درجے کا کرپٹ کہا ہے‘ استعماری پریس خلفشار پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہاں اس کے ملاّ اور لبرل ازم کے علمبردار کارندے... این جی اوز کی ہڈیاں چچوڑنے والے!
لندن سے اطلاع یہ ہے کہ میاں صاحب محترم سیاست سے اکتا چکے۔ صحت ان کی ابتر ہے۔ یادداشت کا عالم برسوں سے یہ ہے کہ چائے کے ساتھ بسکٹ منگوانے ہوں تو کاغذ پہ نکات لکھے جاتے ہیں۔ صاحبزادی کے حق میں سیاست سے دستبردار ہونے کے آرزومند ہیں‘ مگر وہ جو اُن کے اردگرد ہیں۔ نجم سیٹھیوں اور پرویز رشیدوں کو قرار نہیں۔ ان کے سر پہ وہ سوار رہتے ہیں۔ اکساتے رہتے ہیں۔ یاد دلاتے رہتے ہیں کہ کرّہ خاک پہ اس وقت ان کے پائے کا کوئی لیڈر نہیں۔ کیا یہ خود سے بروئے کار ہیں یا اپنے آقائوں کی خوشنودی کے لیے؟۔
پھرتیس برس میں تشکیل پانے والی مافیا کے ہزاروں‘ لاکھوں فیض یافتگان ہیں۔ اندرون لاہور دو ہزار سے زیادہ مکان ایسے ہیں‘ جن کے مکینوں میں سے ہر ایک نے ایک ڈیڑھ مرلے سے تین مرلے تک تجاوز کیا ہے۔ راستے کو گھر کا حصہ بنا دیا ہے۔ تین‘ تین منزلہ عمارتیں۔ ایک مرلے کی قیمت آٹھ سے بارہ لاکھ تک ہوتی ہے۔
سرکار پوچھتی کیوں نہیں؟ اطلاع دینے والے مکینوں سے پوچھا۔'' اس لیے کہ حمزہ شہباز ان کے مستقل سرپرست ہیں‘‘۔
شریف خاندان کا احتساب ابھی مکمل نہیں ہوا۔ ابھی تو ان کے کارناموں کی فہرست ہی مرتب نہیں کی گئی۔
جب تاریخ کا یہ باب لکھا جائے گا تو مؤرخ شاید اس قوم کی بے بسی اور بے حسی کا ماتم کرے۔ اگر زرداریوں اور شریفوں سے چھٹکارا پا سکی تو شاید اس کی جرأت و جسارت کو خراج ِتحسین بھی پیش کرے۔
ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا...جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved