ہمارے ہاں اکثر دیکھا گیا ہے کہ بڑا چور یا ڈاکو اوّل تو پکڑا ہی نہیں جاتا‘ اور اگر پکڑا جائے بھی‘ تو مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے عموماً سزا سے بچ جاتا ہے اور اگر سزا ہو بھی جائے‘ تو اس میں بھی اپنے لیے بہت سی گنجائش نکال لیتا ہے اور سزا کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے؛ چونکہ ہمارے ہاں سزا اصل میں سزا ہوتی ہی نہیں‘ اس لیے عبرت پکڑنے کی بجائے‘ وہ شیر ہو کر دوبارہ اسی دھندے میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس طرح جزا و سزا کا سارا عمل ہی بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس کی ایک ادنیٰ مثال ایسے مجرموں کو جیل میں اے اور بی کلاس سے سرفراز کرنا ہے‘ یعنی سزا تو قید با مشقت کی شکل میں سنائی گئی ہوتی ہے‘ لیکن اس سے مشقت لینے کے برعکس اسے بیرک میں رکھنے کی بجائے ایک علیحدہ کمرہ مہیا کیا جاتا ہے‘ بلکہ اس سے مشقت لینے کی بجائے اسے ایک مشقتی مہیا کر دیا جاتا ہے‘ جو دن رات اس کی خدمت کرتا اور اس کے آرام و آسائش کا ہر طرح سے خیال رکھتا ہے۔ یہ صریحاً ایک امتیازی طریقِ کار ہے اور اسی وجہ سے آئین پاکستان سے براہِ راست متصادم ہے کہ آئین و قانون کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ بیماری کا بہانہ بنا کر کسی عمدہ ہسپتال میں داخل ہو جاتا ہے‘ جہاں اسے گھر جیسی سہولتیں حاصل رہتی ہیں اور قید کے ساتھ جو صعوبتیں ہوتی ہیں‘ اس کے لیے راحتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
ایک عام قیدی کو جیل کی مہیا کردہ وردی پہنناہوتی ہے‘ اسے دوسرے قیدیوں کے ساتھ بیرکوں میں رکھا جاتا ہے اور سب کو کھانا بھی ایک ہی طرح کا مہیا کیا جاتا ہے‘ جس کی کوالٹی کے بارے میں کسی کو بھی کوئی شبہ نہیں ہے۔ اس سے باقاعدہ مشقت لی جاتی ہے‘ جس میں چکی پیسنا‘ بان بننا اور دیگر کام شامل ہوتے ہیں اور اسے اے یا بی کلاس کے قیدی کے برعکس پنکھا‘ اے سی اور ٹی وی جیسی کوئی سہولت حاصل نہیں ہوتی؛ چنانچہ جیل مینوئل میں یہ عجیب و غریب شق موجود ہے کہ اگر قیدی گریجوایٹ ہے‘ تو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو اس خصوصی کلاس کے لیے درخواست دے سکتا ہے ‘جو بالعموم منظور بھی کر لی جاتی ہے‘ یعنی ہمارے ہاں ایک گریجوایٹ کے لیے قانون اور ہے اور میٹرکولیٹ یا ایف اے پاس کے لیے اور۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ جو شخص جرائم کی دنیا میں داخل ہونا چاہتا ہے‘ اسے چاہیے کہ وہ سب سے پہلے بی اے پاس کرے ‘تا کہ وہ جیل میں بھی گھر جیسی سہولتوں سے فیضیاب ہو سکے۔
معزز چیف جسٹس آف پاکستان ‘جو معمولی اور غیر معمولی ہر دو اقسام کے معاملات پر از خود نوٹس لیتے رہتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں بہت سے بگڑے ہوئے معاملات میں سدھار آ رہا ہے‘ انہیں چاہئے کہ قانون کے ساتھ اس مذاق کا بھی نوٹس لیں اور مضحکہ خیز حد تک اس امتیازی قانون یا ضابطے کو کالعدم قرار دیں۔ اگر وہ خود ایسا نہ کر سکیں‘ تو کوئی بھی شہری اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ اس کی سنجیدگی کا اندازہ اس خبر سے بھی لگایا جا سکتا ہے‘ جس کے مطابق ایک طرح دار اور سینئر صحافی حسن نثار نے کہا ہے کہ اگر نواز شریف کو یہ خصوصی رعایت دی گئی‘ تو وہ خود سوزی کر لیں گے۔
نواز شریف سے مختلف فیصلے میں کچھ شقیں اور بھی ہیں‘ جن پر عملدرآمد ہونا مشکوک نظر آتا ہے۔ ایک تو ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی بحق سرکار ضبطی کے حوالے سے ہے‘ جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پاکستانی عدالتوں کا کوئی فیصلہ برطانیہ میں مؤثر نہیں ہے اور یہ جائیداد ضبط کر کے اس کی قیمت حکومت پاکستان کو نہیں دلوائی جا سکتی۔ اگر ایسا ہے‘ تو احتساب عدالت کو اس فیصلے سے گریز کرنا چاہئے تھا‘ جس کے نتیجے میں پاکستان کی سبکی کے علاوہ کچھ بھی حاصل ہونے والا نہ ہو۔ وزیر قانون جناب علی ظفر کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں پاکستان کی قانونی پوزیشن کی وضاحت فرمائیں‘ تا کہ لوگ اس شش و پنج سے نکلیں۔ اور اگر اس بارے‘ وہ مثبت اور امید افزا مؤقف رکھتے ہوں‘ تو اس کی وضاحت بھی ان کے ذمے ہے کہ وہ یہ مسئلہ کس طرح سے حل کریں گے۔ اس کے علاوہ حسین اور حسن نواز کو یہاں لائے جانے کے کتنے اور کس قدر امکانات ہیں‘ کیونکہ وہ تو کہتے ہیں کہ ہم برطانوی شہری ہیں اور پاکستانی ہیں ہی نہیں‘کر لو جو کرنا ہے۔ وزیر قانون اس پر بھی روشنی ڈالنے کی زحمت اٹھائیں۔
اوراب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
جو آ رہا ہے نظر وہ نظر کے ساتھ نہیں
ہمارا خواب کہیں بھی خبر کے ساتھ نہیں
کچھ اور طرح سے یہ اپنا کام کرتی ہے
میری فغاں کا تعلق اثر کے ساتھ نہیں
وہ دوریاں ہیں دلوں میں قدم جمائے ہوئے
کہ شاخ بھی یہاں اپنے شجر کے ساتھ نہیں
یہ میں کہ دست و گریباں ہوں اپنی نائو کے ساتھ
مقابلہ مرا اب کے بھنور کے ساتھ نہیں
ابھی سے کچھ مرے ہمسائے ہی میں لگتا ہے
وہ ایک گھر جو میرے بام و در کے ساتھ نہیں
کٹی پھٹی سی کوئی راہ خود بناتے ہوئے
میں چل رہا ہوں مگر رہ گزر کے ساتھ نہیں
میں جس میں اپنا تماشہ لگائے بیٹھا ہوں
وہ کائنات کسی خشک و تر کے ساتھ نہیں
بشر نے چھوڑ دیا تھا خدا کو‘ اور اب تو
یہ حال ہے کہ خدا بھی بشر کے ساتھ نہیں
محبت اپنا حساب و کتاب خود ہے‘ ظفرؔ
یہ کاروبار جو نفع و ضرر کے ساتھ نہیں
آج کا مطلع
جہاں نگارِ سحر پیرہن اتارتی ہے
وہیں یہ رات ستاروں کا کھیل ہارتی ہے