تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     09-07-2018

طاقتور کون؟

''ملک میں پہلی مرتبہ ایک طاقتور کا احتساب ہوا ہے‘‘۔ ''پاکستان کی تاریخ میںپہلی مرتبہ ایک طاقتور گرفت میں آیا ہے‘‘۔ '' طاقتور لوگوں کا احتساب نئے پاکستان کا آغاز ہے‘‘۔ یہ ہیں وہ الفاظ جو سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو احتساب عدالت کی طرف سے 10 سال قید اور بھاری جرمانے کی کڑی سزا دیئے جانے کے بعد دہرائے جا رہے ہیں۔ ان کا رخ واضح طور پر نواز شریف کی طرف ہے اور انہیں طاقت ور اس لئے کہا جا رہا ہے کہ وہ ملک کے تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ لیکن کیا وزیراعظم کا عہدہ واقعی اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ جو اس پر براجمان ہو اس میں فرعون کی رعونت اور تکبّر آ جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے ہمیں اپنی تاریخ کے ورق الٹنا پڑیں گے۔1947 ء میں قیام پاکستان کے بعد 9 برس تک کاروبار مملکت اور حکومت جس عبوری آئین کے تحت چلائے جاتے رہے وہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ء کی ہو بہو شکل تھی۔ اسی ایکٹ کو برطانوی پارلیمنٹ نے ہندوستان کے لیے تشکیل دیا تھا اور اگرچہ اس کے تحت ہندوستان میں ایک وفاقی پارلیمانی نظام حکومت رائج کیا گیا تھا‘ مگر حقیقت میں یہ نظام نہ تو وفاقی اور نہ پارلیمانی تھا۔ وفاقی ڈھانچے میں تمام اختیارات مرکز کے ہاتھ میں تھے اور وزیراعظم کا عہدہ ہونے کے باوجود سربراہ مملکت یعنی گورنر جنرل چیف ایگزیکٹو تھے۔ انگریزوں کے دور میں گورنر جنرل کو غیر معمولی اختیارات کا مالک بنانا تو سمجھ میں آتا تھا‘ لیکن آزادی کے بعد پارلیمنٹ اور اس کے لیڈر وزیراعظم کو بے بسی کی حالت میں رکھنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی‘ سوائے اس کے کہ سربراہ مملکت جو تاریخی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے‘ اپنے خصوصی اور غیر معمولی اختیارات سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا۔ ان اختیارات کا کس طرح استعمال کیا گیا‘ اس کی ایک مثال 1953ء میں گورنر جنرل غلام محمد کے ہاتھوں وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کی برطرفی کی صورت میں موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اپریل 1953 ء کے ایک دن گورنر جنرل نے وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو چائے کی ایک پیالی پر ملاقات کے لیے پیغام بھیجا۔ خواجہ صاحب بڑے شوق سے گورنر جنرل ہائوس پہنچے جہاں گورنر جنرل غلام محمد ان کا انتظار کر رہے تھے۔ ابتدائی مزاج پرسی اور رسمی کلمات کے تبادلے کے بعد جب خواجہ صاحب چائے پینے گئے اور ابھی انہوں نے آدھی پیالی ہی چائے پی تھی کہ گورنر جنرل نے انہیں وزیراعظم کے عہدے سے برطرفی کا پروانہ تھما دیا۔ یوں خواجہ صاحب جو وزیراعظم کی حیثیت سے گورنر جنرل ہائوس پہنچے تھے‘سابق وزیراعظم کے طور پر واپس اپنے گھر میں آئے۔ پارلیمنٹ اور وزیراعظم کی بے توقیری کے اس قسم کے واقعات کی آئندہ کے لیے روک تھام کیلئے جب محمد علی بوگرہ نے ملک کے نئے آئین کا ایسا مسودہ پہلی دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا جس میں گورنر جنرل کے بعض خصوصی اور غیر معمولی اختیارات میں کمی کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی تو گورنر جنرل غلام محمد نے اکتوبر 1954ء میں اسمبلی کو ہی برخاست کر دیا اور محمد علی بوگرہ واپس امریکہ چلے گئے‘ جہاں سے انہیں گورنر جنرل نے وزیراعظم کے عہدے پر فائز کرنے کیلئے بلایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے نئے آئین (1956ئ) کے مسودے کی دوسری دستور ساز اسمبلی سے منظوری کے باوجود سکندر مرزا نے اس پر دستخط کرنے سے اس مطالبے کی بناء پر انکار کر دیا تھا کہ پہلے انہیں صدر بنانے کی یقین دہانی کرائی جائے۔ نئے آئین کے تحت صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سکندر مرزا نے ڈھائی برسوں کے دوران چار وزرائے اعظم سے جو سلوک کیا وہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک ناقابل فراموش باب ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ طاقتور کوئی وزیراعظم نہیں گزرا۔ لیکن 5 جولائی 1977ء کو جب چیف آف دی آرمی سٹاف نے انہیں معزول کر کے مری کے ایک ریسٹ ہائوس میںقید کر دیا تو ملک کے کسی کونے میں ہلکی سی بھی کھسر پھسر نہیں ہوئی۔ اور جب قتل کے ایک مقدمے میں انہیں ملوث کر کے پھانسی کے تختے پر چڑھا دیا تو کوئی بھی اس سزا کو نہیں رکوا سکا۔ 
مئی 1988ء میں اپنے ہی مقرر کردہ وزیراعظم محمد خان جونیجو کو عہدے سے برطرف کرنے کیلئے جنرل ضیا کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک چٹ ہی کافی تھی۔ 1990 ء میں بے نظیر اور 1993ء میں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدوں سے برطرف کرتے وقت صدر غلام اسحاق خان کو ذرا سی بھی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ اسی طرح فاروق لغاری 1996ء میں وزیراعظم بے نظیر کو برطرف کرنے کے بعد بڑے خوش اور مطمئن تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے وقت جس آئین کے تحفظ کی قسم کھائی تھی‘ اسی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک منتخب حکومت اور نمائندہ اسمبلیوں کو برطرف کیا۔ اس کے باوجود اگر یہ کہا جائے کہ وزیراعظم طاقتور ہوتا ہے تو اسے ستم ظریفی کے علاوہ اور کیا کہا جائے؟ ہماری تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ وزیراعظم خواہ اسے عوام کی جتنی مرضی تائید حاصل ہو‘ سب سے زیادہ کمزور عہدہ ہے‘ جسے بڑی آسانی کے ساتھ نہ صرف برطرف کیا جا سکتا ہے‘ بلکہ جیل میں ڈالا جا سکتا ہے‘ دیس نکالا دیا جا سکتا ہے اور پھانسی پر بھی لٹکایا جا سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں جنہوں نے آئین کو منسوخ کیا ‘ ملک توڑا‘ ججوں کو برطرف کر کے گھروں میں ایسے نظر بند کیا کہ ان کے بچوں کو امتحانات میں پرچے تک دینے کی اجازت نہ مل سکی‘ انہیں کسی نے ہاتھ نہ لگایا۔ ان کا بال تک بیکا نہ ہوا‘ تو طاقت ور کون ہے؟ محمد خان جونیجو جب وزارت عظمیٰ سے برطرف ہونے کے بعد واپس سندھ میں اپنے ڈیرے پر پہنچے تو پیر پگاڑا (موجودہ پیر پگاڑا کے مرحوم والد محترم) نے کہا تھا کہ شکر ہے کہ محمد خان زندہ سلامت گھر پہنچ گئے ہیں‘ ایک اور سندھی وزیراعظم کی لاش کو وصول نہیں کرنا پڑا۔
جنرل ضیا نے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹنے اور مارشل لا لگانے کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کا وعدہ کیا ‘مگر پھر یہ 90 دن 11 سال میں بھی ختم نہیں ہوئے ۔ وہ تو قدرت کو کچھ اور منظور تھا کہ جنرل صاحب 17 اگست 1988 ء کو طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے‘ ورنہ مئی میں وزیراعظم جونیجو کی چھٹی کروانے کے بعد انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اگلے انتخابات بھی غیر جماعتی ہوں گے‘ اور اگر ان کا بس چلا تو آئندہ تیس برس تک وہ غیر جماعتی انتخابات ہی کروائیں گے۔ جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ جنرل صاحب 1988 ء کے بعد آئندہ تیس برسوں تک اقتدار کے مزے لینے کا سوچ رہے تھے۔ اپنے دور اقتدار میں ایک موقع پر انہوں نے آئین کے کاغذ کے چند پرزوںپر مشتمل ایک ایسی دستاویز سے تشبہیہ دی تھی‘ جسے وہ اپنے بیان کے مطابق کسی وقت بھی پھاڑ کر پھینک سکتے تھے۔ تو بھلا بتائیے کہ طاقت ور کون ہے۔ وہ جسے غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے برطرف کر دیا جائے یا وہ جو آئین کو کاغذ کے ایک پرزے سے زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہ ہو۔ آئی ایس آئی کے ایک سابق ڈائریکٹر جنرل جنرل حمید گل پر الزام تھا کہ انہوں نے 1988ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کیلئے آئی جے آئی تشکیل دی۔ وہ اپنے اس فعل پر ذرہ بھر شرمندہ نہیں تھے‘ بلکہ انہوں نے چیلنج دے رکھا تھا کہ اگر کسی میں جرأت ہے تو عدالت میں جا کر ان کے خلاف شکایت کرے۔ جنرل مرزا اسلم بیگ کے اپنے بیان کے مطابق اگست 1988ء میں طیارے کے حادثے میں جنرل ضیاء الحق کی ہلاکت کے بعد‘ سینیٹ کی چیئر مین غلام اسحاق کو صدارت پیش کرنے سے قبل انہیں بتا دیا گیا تھا کہ وہ اپنے اختیارات چند شرائط کے تحت ہی استعمال کر سکتے ہیں۔ اب بتائیے کہ کیا سابق وزیراعظم نواز شریف واقعی اتنے طاقت ور تھے کہ انہیں معزول اور سخت سزا سنانے کے بعد خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved