تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     09-07-2018

عدل کریں تے تھر تھر کمبن

عمران نے شرماتے شرماتے پہلی دفعہ فرمائش کی: صبح بنی گالہ آ جائیں{ آپ کی گاڑی میں گپ شپ کرتے ہوئے ہائی کورٹ پیشی کے لیے چلیں گے۔ میں اور عبداللہ بنی گالہ سے عمران خان کو لے کر اترے تو سورج پوری طرح تاب دار ہونے کو مچل رہا تھا۔
اس کا چھیڑا ہوا پہلا موضوع ہی انصاف ٹھہرا۔ عمران خان ذاتی زندگی میں خطرناک حد تک سادہ آدمی ہے۔ چائے کے دوران بسکٹ اُٹھانا ہو یا چائے پی کر خالی پیالی رکھنی ہو تو یہ کام کرنے کے لیے عمران خود اُٹھے گا‘ ورنہ آج کل کی اشرافیہ میں جس شخص کی کسی بھی حوالے سے ذرا سی بھی اہمیت ہو‘ وہ اُٹھ کر پانی پینا یا خالی گلاس اپنی جگہ پر رکھنا توہین سمجھتا ہے۔ ہمارے ایک وکیل صاحب صوم و صلوٰۃ کے بڑے پابند ہیں۔ ان کی ماموں زاد سسرال سے ناراض ہو کر ان کے گھر آئیں۔ مجھے ان کو راضی کرنے کے لیے وکیل صاحب کے گھر جانا پڑا۔ موصوف کھانا کھا رہے تھے۔ ناراض بی بی سے کہنے لگے: بیٹا اچار لے آئو۔ بی بی اچار لے آئی تو کہنے لگے سِرکے والا نہیں تیل والا اچار پڑا ہے‘ وہ لائو۔ جب تیل والا اچار سامنے رکھا گیا تو کہنے لگے: ذرا تیل علیحدہ کرکے اچار نکال دو۔ میں نوٹ کرتا رہا‘ موصوف کی بیگم شدید گرمی میں چولہے کے آگے ڈٹی رہیں‘ اور اس پڑھے لکھے بااصول آدمی نے اپنی کزن کو 11دفعہ کچن سے لائونج میں طلب کیا۔ ''سا دگی‘‘ کا یہی عالم کمرشل آستانوں پر بھی پایا جاتا ہے‘ جہاں باہر والی نشست گاہ‘ برآمدہ، ہال اور پھر مریدانِ خاص کے لیے تخلیہ۔ تکلف برطرف میں ایسی محفل میں جانے سے کتراتا ہوں‘ جہاں صاحبزادہ والا شان سریرآرائے مچان ہوکر گولڈن رنگ کی کرسی سے ''سادگی‘‘ کے فضائل بیان فرماتے ہوں۔
10 ہجری خطبہ حجۃ الوداع ارشاد فرماتے ہوئے اللہ کے آخری رسولؐ نے یہ ارشاد فرمایا: ''ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے۔ انسان سارے ہی آدم ؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ کی حقیقت اس کے سوائے کیا ہے کہ وہ مٹی سے بنائے گئے۔ اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پائوں تلے روندے جا چکے ہیں۔ اللہ نے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخرو مباہات کی کوئی گنجائش نہیں۔ لوگو!تمہارے خون و مال اور عزتیں ایک دوسرے پر قطعاً حرام کردی گئیں۔ ہمیشہ کے لئے‘‘۔ کاش کوئی آنکھ کھولے اور عبرت کے مقام پر عبرت پکڑ لے۔
بنی گالہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ تک نظامِ انصاف کی ناہمواریوں پر گفتگو چل رہی تھی۔ اسی روز قرآن کریم کی سورہ نمبر55 سورۃ الرحمن کی آیات نمبر7,8,9 تلاوت کیں۔ 7: (اور آسمان کو اللہ نے بلند کیا اور ترازو رکھی)۔ 8: (ترازو میں بے اعتدالی نہ کرو)۔ 9: (اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹائو)۔ میں انہیں دنیائوں میں گم رہا۔ اپنا یہی تجربہ میں نے عمران سے بھی شیئر کر دیا۔ میرا پختہ ایقان ہے کہ قرآ ن کریم‘ جو اللہ رب العزت کا کلام ہے‘ اس میں کائنات کی بنیادی اکائی میزان یا عدل ہی ہے۔ ساتھ یہ بھی میرے ایمان کا حصہ ہے کہ انصاف ہونے میں دیر ہو سکتی ہے ناانصافی ابدالآباد تک راج نہیں کر سکتی۔ عدل کا ایک اور پہلو بھی ہے جس پر درویش بہت زور دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر: 
عدل کریں تے تھر تھر کمبن، اُچیاں شاناں والے 
کرم کریں تے بخشے جاون، میَں ورگے مُنہ کالے 
اسی لیے جن لوگوں کی دنیا میں MEN AND MATTER کے علاوہ تیسری آنکھ (THIRD DIMENTION) بھی کھلتی ہے وہ رب کی دھرتی پر عدل اور میزان کے قیام کی خواہش کرتے ہیں۔ اپنے لیے مگر ہمیشہ عدل کی بجائے کرم کی بھیک مانگتے ہیں۔ میزان، عدل، بیلنس اور عجز سے تجاوز سیدھا سیدھا تکبّر ہے۔ اور متکبر آدمی تو کہلا سکتا ہے کبھی عبد نہیں ہو سکتا۔ اسی تناظر میں آلِ شریف کی تازہ سزا کے فیصلے پر تبصرہ کرنے والوں کو تین طبقٔہِ خیال میں تقسیم کر لیں۔ وَن لائنر میں اسے سوگی، روگی اور جوگی بھی کہہ سکتے ہیں۔ پہلا طبقۂ مُک مُکا کے تاجوروں کا ہے۔ چند ماہ پہلے تک یہ پانامہ کا کریڈٹ لینے کا ڈھول بجا رہے تھے۔ اب اس کیمپ پر موت کا سناٹا طاری ہے۔ نہیں معلوم اس کا سبب اَن دیکھا خوف ہے یا کراچی کے ایک بینکر کی گرفتاری۔ ذرا سوچئے‘ جمہوریت کے رکھوالے غریبوں کی جیبوں پر کیسا ہاتھ مارتے ہیں۔ 25 ہزار روپے ماہانہ کا تنخواہ دار اور 30 ارب روپے سے زائد کے کالے دھن کا اکائونٹ ہولڈر۔ قبلہ شاہ جی سکھر آبادی کا دل ویسے ہی نہیں ڈوب رہا۔ موصوف نے کہا: نواز شریف کو ملنے والی سزا کا وقت ٹھیک نہیں۔ ہر موضوع پر اُچھل اُچھل کر تقریریں کرنے والے سوگی گروپ سے کوئی پوچھے: کیا تمہیں پتہ چل چکا کہ پانامہ کیس کا حتمی فیصلہ آگیا ہے۔ اس پر بولنے سے تمہیں کس نے روک رکھا ہے؟ خلائی مخلوق نے یا کمائی مخلوق نے۔ روگی گروہ سوگی سے بھی زیادہ ہلکان ہے۔ اس کا روگ عمران خان کے وزیرِ اعظم بن جانے کے خطرے کے سوا کچھ اور نہیں۔ الیکشن 2018ء کے حوالے سے عمران خان کے خلاف جتنے بھی اعتراضات اور مقدمے دائر ہوئے ان میں ایک ہی روگ پر بحث ہوئی۔ ہر جگہ روگی گروپ کے مقدموں میں وکیل حضرات کی بنیادی دلیل مشترک تھی۔ جسے سینکڑوں وکلا، رپورٹرز اور درجن بھر سے زائد جج حضرات نے زبانِ حال سے سماعت فرمایا۔ 
دلیل یہ تھی ''عمران خان جیسا آدمی وزیرِ اعظم کیسے بن رہا ہے اسے روک کر ایٹمی پاکستان کے ایٹمی بٹن کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے‘‘۔ باقی جگہ تو میں نے اس مشترک دلیل کی بجائے آئینی اور قانونی نکات اُٹھائے۔ لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ میں الیکشن اپیلٹ اتھارٹی کے جج جسٹس محسن اختر کیانی صاحب کے روبرو اس کا حسبِ حال جواب دیا۔ عرض کیا: میں ایک سال سے زیادہ کیبنٹ ڈویژن کا انچارج وزیر رہا ہوں۔ پاکستان کا ایٹمی بٹن ایس پی ڈی اور فوج کی تہہ در تہہ کمانڈ کے کنٹرول میں ہے۔ عالمی ادارے اس کمانڈ اینڈ کنٹرول کو عالمی رینکنگ کے ٹاپ پر رکھتے ہیں۔ عمران خان پر اعتراض اٹھا صادق اور امین نہ ہونے کا۔ بیچ میں ایٹمی بٹن کہاں سے آگیا؟؟۔ 
اب آئیے ذرا جوگی گروپ کی طرف‘ جس کے مہاراج ، جگت چور نے مے فیئر کرپشن محل میں اپنی عالمی کرپشن پر عبرت انگیز سزا والا فیصلہ سنا۔ پھر کہا: مجھ پر کرپشن کا الزام ہے ہی نہیں۔ حالانکہ جس قانونی دفعہ کے تحت اسے سزا ملی اس میں دو ہی لفظ ثابت ہوئے۔ کرپشن اینڈ کرپٹ پریکٹسز۔ یعنی کرپشن اور عاداتی کرپشن۔ عقل پر تالے اور تکبّر کے حوالے بڑھتے جا رہے ہیں۔ فساد کی دیرینہ خواہش نے مودی نواز یاری پکی کروائی۔ ایف اے ٹی ایف کے لمحے نواز شریف سے ممبئی حملوں کی ذمہ داری قبول کروائی۔ 25 جولائی کے بعد کا منظرنامہ جوگی گروپ کے لیے موت کا منظر ہے۔ سو گی کروپ اور روگی گروپ ماتمی دستہ۔ کرپشن اور عاداتی کرپشن تو ہمارا قانون ہے‘ اسمبلی کا تیار کردہ۔ 
اللہ کے آخری نبیؐ کی براہ راست تربیت سے تیار ہونے والے چاروں حکمرانوں کا معیار خلفائے راشدین والا تھا۔ 
کرپشن کی سب سے بلیغ تعریف کی تشنگی جاتی رہے گی۔ امام علی کرم اللہ وجہہ جب حاکم بن کر کوفہ میں داخل ہوئے تو لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ''اے لوگو! میں اپنے جسم پر جو لباس پہن کر اور جس سواری پر سوار ہو کر تمہارے شہر میں داخل ہوا ہوں، اگر واپس جاتے ہوئے اس کے علاوہ میرے پاس کوئی اور چیز ہو تو جان لینا کہ میں نے تمہارے حق میں خیانت کی ہے‘‘۔ 
احتساب عدالت کے فیصلے کا اردو ترجمہ یہ ہے... جس جس کو کرپشن اور آمدن سے زیادہ اثاثے ہونے کا مطلب نہیں پتا وہ علم کے دروازے تک چلے آئیں...

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved