تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     10-07-2018

گندگی کا ڈھیر؟

جی ہاں‘ جنرل نے غلطیاں کیں اور فخر عوام کی طرح پہاڑ ایسی غلطیاں‘ لیکن وہ حضرت آدم علیہ السلام سے اب تک کے سب گناہوں کا ذمہ دار نہ تھا۔ گندگی کا ڈھیر نہیں‘ وہ ایک آدمی تھاخوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ۔
جنرل محمد ضیاء الحق پہ اگر تنقید کی جائے تو اس میں تعجب کیا‘ لیکن کیا ذوالفقار علی بھٹو سے کبھی کوئی کوتاہی سرزد نہ ہوئی؟ 1977ء کے انتخابات میں کیا اپنے مخالف امیدوار نجیب اور شائستہ‘ جان محمد عباسی کو اغوا کرکے بلامقابلہ منتخب نہ ہوئے تھے؟ اخبارات نے ان کی تین کالمی تصویر شائع کی تھی کہ ''فخرِ ایشیا قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو‘ جو لاڑکانہ سے بلامقابلہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے‘‘۔ چاروں وزرائِ اعلیٰ بھی ''بلامقابلہ منتخب‘‘ ہوگئے۔ کیا انہوں نے ایک ذاتی فوج نہیں بنائی تھی؟ کیا ان کے عہد میں جاگیرداروں کو شکست فاش سے دوچار کرنے والے درویش رہنما ڈاکٹر محمد نذیر شہید نہ کئے گئے‘ مولوی شمس الدین اور خواجہ سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق‘ ہرآشنا‘ جن کی سادگی اور شرافت‘ نجابت اور قناعت کی ہمیشہ ہی ستائش کی جاتی۔
کیا بھٹو ان بہیمانہ واقعات کے ذمہ دار نہ تھے۔پھر ان معتبر اور معزز شخصیات کے قاتلوں کو تلاش کرنے اور کیفرکردار تک پہنچانے کی کوشش نہ کی گئی؟ فخرِ عوام نے کیا بلوچستان کے گورنر اکبر بگٹی کو حکم نہ دیا تھا کہ چوہدری شجاعت حسین کے والد چوہدری ظہورالٰہی کو قتل کردیا جائے؟ کیا ان کے عہد میں حسین نقی‘ صلاح الدین اور قریشی برادران ایسے ممتاز اخبار نویسوں کو کال کوٹھڑیوں میں بند نہ کیا گیا۔ ہفت روزہ زندگی‘ ڈیلی سن اور جسارت سمیت متعدد اخبارات بند نہ کئے گئے؟ اپنی پارٹی کے ناراض لیڈروں کو اغوا کرکے دلائی کیمپ میں نظربند نہ رکھا گیا۔ اس زریں دور میں حنیف رامے سمیت کتنے ہی سیاسی لیڈروں کو لاہور کے شاہی قلعے کی تنگ و تاریک تہہ خانے میں برسوں قید نہ رکھا گیا۔ کیا سیالکوٹ کے ملک سلیمان پیپلزپارٹی کے سیکرٹری جنرل جے رحیم سمیت‘ خود ان کی اپنی جماعت کے کئی رہنمائوں کو توہین و تذلیل سے نہ گزرنا پڑا؟ 1977ء کے الیکشن سے قبل ملک بھر کے سفاک جاگیرداروں اور وڈیروں کو اپنی جماعت میں شامل نہ کرلیا؟ صنعتوں کو قومیا لیا۔ صرف بینکوں اور انشورنس کمپنیوں ہی کو نہیں بلکہ آٹا پیسنے اور چاول چھڑنے کے کارخانوں تک کو۔ ملک کو اس سے کیا حاصل ہوا؟
فہرست طویل ہے لیکن کوئی فردِ جرم مرتب کرنا مقصود نہیں۔ بے شک انہوں نے کارنامے بھی انجام دیئے۔ بھارت سے پاکستانی قیدیوں کی رہائی‘ اسلامی سربراہی کانفرنس‘ 1973ء کا متفقہ آئین‘ عام پاکستانیوں کے لیے پاسپورٹ کے اجرا کی آزادی‘ ایٹمی پروگرام کی ابتدا۔ اس کے سوا بھی بہت کچھ۔ اکثریت ان کا اعتراف کرتی ہے۔
تو کیا جنرل محمد ضیاء الحق کا کوئی کارنامہ نہیں؟ کیا ایک شاندار عمارت کی بنیاد رکھنا دائمی خراج تحسین کا جواز عطا کرتا ہے یا پورے حسن و زیبائی اور کمال کے ساتھ اس کی تکمیل؟ ایٹمی پروگرام 1977ء میں بھٹو کی برطرفی تک‘ ابتدائی مرحلے میں تھا۔ تکمیل 1983ء میں جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد میں ہوئی... اور 1987ء میں پہلی بار‘ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے خلاف انہوں نے اسے استعمال کرنے کی دھمکی دے کر‘ برصغیر کو ایک ہولناک جنگ اور پاکستان کو تباہی سے بچا لیا۔
1987ء میں جب ہندوستان کی سرزمین پر پاک بھارت کرکٹ سیریز جاری تھی‘ چنائی میں جنرل کرکٹ میچ دیکھنے گیا۔ اسلام آباد واپسی پراخبار نویسوں سے اس نے کہا: افسوس ضیاء الحق کا چھّکا کسی نے دیکھا ہی نہیں۔
کون سا یہ چھکا تھا؟ او رکب لگایا گیا؟
چنائی میں میچ کے دوران وقفہ ہوا تو جنرل نے وزیراعظم سنجے گاندھی سے کہا کہ وہ ان سے الگ بات کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ بھارتی لیڈر کو پاک فوج کے سربراہ نے بتایا: پاکستان کی سرحد پر بھارتی فوجوں کی نقل و حرکت سے ہم آگاہ ہیں۔ اپنے فوجیوں کو قابلِ استعمال گولہ بارود آپ نے جاری کردیا ہے۔ حملہ کرنے کا آپ فیصلہ کر چکے ہیں۔ افغانستان میں روس کے ساتھ ہم الجھے ہوئے ہیں۔ پاکستانی علاقوں پر آپ نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تو اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا کہ اپنا آخری ہتھیار ‘ایٹم بم استعمال کریں۔ وزیراعظم صاحب یاد رکھیے کہ تاریخ میں کلکتہ اور ممبئی ایسے شہروں کے صرف نام رہ جائیں گے۔
جنرل کے تیور بدلے ہوئے تھے۔ راجیوگاندھی کے ساتھ ایک ذرا فاصلے پر جاتے ہوئے‘ ایس ایس جی سے تعلق رکھنے والے ان کے محافظ آگے بڑھے تو صدر نے انہیں ڈانٹا اور یہ کہا: کھانا‘ کھائو کھانا ‘ مجھے تنہا چھوڑ دو۔ ان کے لہجے میں فولاد ایسی صلابت تھی۔ تہیہ وہ کر چکے تھے ۔
ساری خامیوں اور تمام تر خرابیوں کے باوجود جنرل محمد ضیاء الحق ایک بہادر‘ بے خوف‘ یکسو اور متوکل آدمی تھے۔
پھر انہوں نے میزائل پروگرام کی بنیاد رکھی جو آخرکار بے نظیر بھٹو کے عہد میں تکمیل کو پہنچا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے عہد کا پاکستان اس قدر طاقتور تھا کہ بھارت اسے تباہ کرنے کا خواب ہی دیکھ سکتا۔ اپنے پیچھے‘ وہ ایک ایسی فوج اور آئی ایس آئی کے نام سے ایسی ایک خفیہ ایجنسی چھوڑ گئے‘ دشمن کے راستے میں جو آہنی دیوار بن کے کھڑی ہے۔ امریکہ‘ افغانستان اور بعض دوسرے ممالک کی مدد سے بھارت نے بلوچستان کو الگ کرنے کا منصوبہ بنایا اور خاک چاٹی۔ ایم آئی سکس کی مدد سے کراچی سے گوادر تک کی پٹی کو الطاف حسین کے ذریعے الگ ملک بنانے کا خواب دیکھا اور نامراد ہوا۔ قبائلی علاقوں میں شورش برپا کرنے والے خارجیوں کی پشت پناہی پر 500 ملین ڈالر سالانہ صرف کئے اور ناکام رہا۔ بالکل برعکس جنرل کے آخری عہد میں‘ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی بنیاد رکھی گئی۔ پیچ و خم سے گزرتی ہوئی یہ تحریک اس مرحلے میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی۔ ایک کے بعد دوسرا نریندر مودی اگر نمودار ہوتا رہا۔نتیجے میں بھارت اگر خلفشار میں مبتلا ہوا تو سکھ ہی نہیں‘ بھارت کے جنوب میں آزادی کی اور تحریکیں بھی اٹھیں گی۔تب مسلم دنیا کے آفاق پر جنرل ایک ستارے کی طرح جگمگائے گا۔
مخالفین نے بہتیری کوشش کی لیکن جنرل کے کردار پہ ایک دھّبہ تک تلاش نہ کر سکے۔ اپنے عہد سے قبل اور بعد میں نمودار ہونے والے لیڈروں کے برعکس وہ ایک اجلا اور باوقار آدمی تھا۔ اس نے کبھی بڑ نہ ہانکی ‘ کبھی کوئی دعویٰ نہ کیا۔ وہ کتابوں سے محبت کرتا اور رات گئے مطالعے میں جتا رہتا۔ کبھی کبھی تو مطالعے کی میز پہ سر رکھے سوتا ہوا پایا جاتا۔ تہجد کے وقت جاگ اٹھتا اور چند رکعتیں پڑھنے کے بعد پھر سے آنکھیں موند لیتا۔ نماز فجر کے بعد‘ چند گھنٹے ہی وہ آرام کرتا‘ ہلکا سا ناشتہ کرنے کے بعد صبح آٹھ بجے پہلے سرکاری اجلاس کے لیے وہ مستعد ہوتا۔ عاجزی اور انکسار کا پیکر‘ دن بھر ملاقاتیوں کے ہجوم میں گھرا رہتا۔ کم بولتا اور دوسروں کی زیادہ سنتا۔ عمر بھر اس نے رزق حلال کھایا اور عام آدمی کی طرح جیا۔ عامیوں کے ساتھ وہ شاد رہتا‘ بالخصوص بچوں کے ساتھ۔ ایچی سن کالج کے ایک استاد نے مجھے بتایا: کئی منٹ تک میری کمسن بیٹی جنرل کے دروازے سے جھولتی رہی‘ منع کرنے اور باپ کو مداخلت اجازت دینے کی بجائے‘ خاموش کھڑا وہ انتظار کرتا رہا۔وہ ایک درد مند آدمی تھا۔ غلافِ کعبہ کے ایک ٹکڑے کا فریم بنانے کے لیے راولپنڈی کی مری روڈ سے ایک کاریگر کو بلایا گیا۔ جنرل کہیں دور تھا۔ لوٹ کر آیا تو پوچھا کیا اسے کھانا کھلایا گیا ہے۔ پھر دیر تک ملال میں رہا کہ گھر کے ملازمین کوتاہی کے مرتکب ہوئے۔
جی ہاں‘ جنرل نے غلطیاں کیں پہاڑ ایسی غلطیاں‘ لیکن وہ حضرت آدم علیہ السلام سے اب تک کے سب گناہوں کا ذمہ دار نہ تھا۔ گندگی کا ڈھیر نہیں‘ وہ ایک آدمی تھا... خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ۔فخر عوام کی طرح‘ فخر عوام سے کہیں زیادہ اجلا! (ختم شد)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved