نوازشریف کے حامی کیا‘مخالف کیا‘ سبھی کو فیصلے کا انتظار تھا۔ ایک ایسے فیصلے کا انتظار‘ جس میں معزول وزیر اعظم (اس کی بیٹی اور داماد) کے حوالے سے شاید ہی کسی کو خیر کی توقع تھی۔ عربی کا مقولہ ہے (ترجمہ) ''انتظار کی کیفیت ‘موت کی اذیت سے بھی زیادہ سنگین ہوتی ہے‘‘۔ رسا چغتائی کی بات الگ‘ جو اس کیفیت سے بھی لطف اندوز ہوتے ۔
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
پاکستانی قوم کا شمار دنیا کی ان چند خوش باش اقوام میں ہوتا ہے‘ جو اذیت کی کیفیت میں بھی مسکرانے کا سامان کرلیتی ہیں؛ چنانچہ اس اعصاب شکن حالت میں بھی سوشل میڈیا دلچسپ تبصروں سے بھرگیا تھا۔ وہ جو کہتے ہیں‘ جتنے منہ‘ اتنی باتیں( فارسی میں''فکرِ ہرکس بقدرِ ہمت اوست‘‘ کہہ لیجئے)ظاہر ہے‘ ان میں سے بیشتر ناقابلِ بیان ہیں(اوران کی اپنی اپنی وجوہات ہیں)ہمارے خیال میں ان میں سب سے دلچسپ (اور معقول) وہ تھا‘ جو شامی صاحب گزشتہ روز کے ''جلسۂ عام‘‘ میں بیان کر چکے‘''جج محمد بشیر سمیت ساری قوم کو فیصلے کا انتظار‘‘۔ ہنسی مذاق کے ساتھ سنجیدہ قیاس آرائیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا ''کیا نوازشریف کے ساتھ کسی ڈیل پر بات ہورہی ہے؟‘‘۔
ملتان کے حالیہ واقعہ کے بعد ہماری سیاسی لغت میں ''محکمہ زراعت‘‘ اور ''زرعی ماہرین‘‘ کے الفاظ بھی نئے مفہوم کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں اور ان دنوں کثرت سے زیر استعمال ہیں۔
نصرت جاوید کے بقول ‘ جو حکم جمعے کی نماز سے قبل سنانے کا وعدہ تھا ‘ بوقت عصر منظر عام پر آیا۔ صاحبِ اسلوب کالم نگار کو عصرکے حوالے سے کتاب ِ مبین کی آیت یاد آئی ''بے شک انسان خسارے میں ہے‘‘۔''عصر‘‘ کا استعارہ معزول وزیر اعظم بھی استعمال کرتے ۔۔۔ ویسے تو 12اکتوبر کی شب ہی‘ جنرل محمود سمیت تین باوردی جرنیل یہ پیشکش لے کر آئے تھے کہ مشرف کی برطرفی کا حکم واپس لے لیں‘ وزارتِ عظمیٰ سے استعفے اور نئے انتخابات کا اعلان کردیں‘ اور یوں خود بھی آزمائشوں سے بچ جائیں اور ''ادارے‘‘ کو بھی آزمائش میں نہ ڈالیں‘ لیکن اس نے Over my dead bodyکہہ کر یہ تینوں کاغذات میز پر پھینک دیئے تھے۔
جلا وطنی کا دوسرا سال تھا۔ لاہور کے بزرگ ایڈیٹر عمرے پر جارہے تھے‘ مشرف کو معلوم ہوا‘ تو ان کے ہاتھ ایک پرُکشش سی پیشکش بھی بھجوادی ‘ اکتوبر2002ء کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ کے اپنے دھڑے کو ‘ دوسرے دھڑے میں ضم کردیں‘ اس متحدہ مسلم لیگ کی قیادت ‘معزول وزیر اعظم کے نامزد کسی شخص کو سونپی جاسکتی ہے۔الیکشن کے بعد وہ سعودی عرب سے باہر‘ جہاں چاہیں‘ گھومیں پھریں؛ حتیٰ کہ نومنتخب حکومت مستحکم ہوجائے اور اس کے بعد وہ وطن لوٹ آئیں اور اس کے عوض انہیں مشرف کی پانچ سالہ صدارت قبول کرنا ہوگی(جو اس نے اپریل کے ریفرنڈم میں حاصل کی تھی)جلا وطن لیڈر نے اسے مسترد کرنے کے لیے چند لمحے بھی نہ لئے۔ اوائل 2005ء میں بے نظیر بھٹو صاحبہ بڑے میاں صاحب مرحوم کی تعزیت کے لیے سرور پیلس تشریف لائیں۔یہ برسوں بعد دوجلا وطن رہنمائوں کی پہلی ملاقات تھی‘چند ہفتے قبل آصف زرداری کی رہائی عمل میں آئی تھی اور اس ملاقات میں وہ بھی موجود تھے ۔اس رہائی کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں جاری تھیں ۔ ایسے بھی تھے ‘جو اسے ''ڈیل‘‘ کا نتیجہ قرار دے رہے تھے۔ نوازشریف کا کہنا تھا : 17ویں ترمیم کے بعد وزارتِ عظمیٰ ایک مطلق العنان صدر کی نوکری سے زیادہ نہیں ۔ اسی ملاقات میں نوازشریف نے ''میثاق جمہوریت‘‘ کا آئیڈیا دیا(جس کے لیے مسلم لیگ کی طرف سے اسحاق ڈار اور احسن اقبال اور پیپلز پارٹی کی طر سے رضا ربانی اور صفدر عباسی پر مشتمل چار رکنی کمیٹی کا قیام عمل میں آیا) بعد میں بھی ڈکٹیٹر کی طرف سے مفاہمت کے اشارے ملتے رہے‘ جس پر میاں صاحب کا جواب ہوتا‘ ڈکٹیٹر کا زوال شروع ہوچکا ‘ہم نے مشکل وقت کاٹ لیا‘ اب ''عصر‘‘ کے وقت روزہ کیوں توڑدیں؟ (این آر او کی صورت میں مشرف ‘محترمہ ڈیل ایک الگ کہانی ہے)۔
جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال (مرحوم) نے اپنی خود نوشت ''اپنا گریباں چاک‘‘ میں ایک دلچسپ بات لکھی ہے '' جسٹس کرم الٰہی چوہان مجھے کبھی کبھار ''ٹرِکس آف دی ٹریڈ‘‘(ججی کے کاروبار میں جو کھیل کھیلتے جاتے ہیں)سے متعلق سبق دیا کرتے تھے۔ میرے پوچھنے پرفرمایا:دستور سے متعلق فیصلے وقتی مصلحت کے تحت کئے جاتے ہیں۔ ایسے کیسوں میں‘میں تو ہمیشہ دو فیصلے تیار کرکے رکھتا ہوں۔ ایک حکومت کے حق میں اور دوسرا خلاف‘ جو وقتی مصلحت ہو‘ اس کے مطابق مثبت یا منفی فیصلہ سنا دیتا ہوں۔
اب معزول وزیر اعظم (ان کی صاحبزادی اور داماد)کے خلاف نیب کورٹ کا فیصلہ بھی آگیا ہے۔ بزرگ قانون دان جناب ایس ایم ظفر سمیت سینئر(اور غیر جانبدار)ماہرین ِ قانون کی اچھی خاصی تعداد تھی‘ جنہوں نے 28جولائی کے فیصلے کو ‘کمزور دلیل پر مبنی قرار دیا تھا جو ''مجھے کیوں نکالا؟‘‘ والے بیانئے کی بنیاد بن گئی اور جی ٹی روڈ پر ''زبانِ خلق‘‘ ہوگئی۔ایک انٹرویو میں عمران خان کو بھی کہنا پڑا‘ کہ مسئلہ پانامہ کا تھا‘ سزا اقامہ پر سنائی گئی‘ تو نوازشریف کے لیے ہمدردی کی لہر تو پیدا ہونا ہی تھی۔کیا اب 6جولائی کا (نیب کورٹ کا)فیصلہ بھی ''کمزور دلیل‘‘ پر مبنی قرار پائے گا؟ ممتاز قانون دان مرتضیٰ وہاب تو یہ بھی کہہ گئے کہ شاید اس کے خلاف خود نیب بھی اپیل میں چلی جائے۔ معزول وزیر اعظم کو یہ سزا کرپشن اور کرپٹ پریکٹسزکے الزام میں نہیں سنائی گئی ۔ فیصلے کے مطابق
The prosecution have not brought evidence in respect of section 9(a) (iv) of National Accountability ordinance (NAO) 1999, ‘‘
نیشنل اکائونٹیبیلٹی آرڈی ننس1999کی یہ شق کرپٹ پریکٹیسز متعلق ہے۔
لیکن یہ بات پاناما کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے فاضل بنچ نے بھی جے آئی ٹی رپورٹ کے بارے میں کہی تھی۔ 21جولائی کو سماعت مکمل ہوئی(اور فیصلہ محفوظ کرلیا گیا‘اسے 28جولائی کو سنایا گیا)اس سے ایک روز قبل(20جولائی )کے اخبارات نے جے آئی ٹی رپورٹ کے متعلق فاضل بنچ کے ریمارکس کو ''لیڈ‘‘اور ‘‘سپر لیڈ‘‘ بنایا تھا:
٭جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیر اعظم پر عہدے کے غلط استعمال اور کرپشن کا الزام نہیں۔ ثبوت نہیں کہ وزیر اعظم کسی پراپرٹی کے مالک ہیں(دنیا)
٭جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیر اعظم پر کرپشن‘ عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں ‘ سپریم کورٹ (ایک اور اخبار)
٭ایک اور اخبار کی سرخی بھی اسی سے ملتی جلتی تھی :جے آئی ٹی رپورٹ میں وزیر اعظم پر عہدے کے غلط استعمال کا الزام نہیں: سپریم کورٹ۔
ایک بڑے انگریزی اخبار کی ہیڈ لائن تھی:
''No Corruption, misuse of authority charge on PM : Sc‘‘
تو کیا 6جولائی کے فیصلے نے معزول وزیر اعظم کے پرانے بیانئے کے حق میں ایک اور (نئی )دلیل فراہم کردی ہے؟
6جولائی کو میاںصاحب اور مریم نواز لندن میں تھے(ایک ہفتے کے لیے فیصلے کے التوا کی درخواست مسترد ہوگئی تھی) کیپٹن (ر)صفدر پاکستان میں تھے‘لیکن وہ نیب عدالت میں پیش ہونے کی بجائے‘ اپنے حلقے میں انتخابی مہم میں مصروف رہے۔ انہوں نے خاموشی سے گرفتاری دینے کے ''گناہِ بے لذت‘‘ کی بجائے وہی حکمت عملی اختیار کی ‘ جو ایک زیرک سیاستدان کو اختیار کرنی چاہئے تھی۔ راولپنڈی میں اس کی ریلی‘ قومی سطح کا بڑا ایونٹ بن گئی تھی۔ یہ ان ناقدین کے لیے بھی کافی وشافی جواب تھا‘ جن کا کہنا تھا کہ 6جولائی کے فیصلے پر میاں کے متوالے کہاں گئے؟ ایبٹ آباد میں عمران خان بھی اس کی تپش کو محسوس کئے بغیر نہ رہا''صفدر نے ایسے گرفتاری دی ‘ جیسے کشمیر فتح کرکے آیا ہو‘‘۔ نوازشریف اور مریم کی آمد میں ابھی چار روز باقی ہیں اور خان نے ابھی سے اسے اپنے اعصاب پر سوار کرلیا ہے۔ نوازشریف کے لیے اس کا مشورہ تھا:نیلسن منڈیلا بننے کی کوشش نہ کرنا۔ نواب زادہ صاحب یاد آئے‘ زندہ ہوتے‘ تو یہ شعر پڑھتے:
کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
غبارِ قیس خود اٹھتا ہے‘ خود برباد ہوتا ہے