تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-07-2018

ہارلے سٹریٹ کی سیا ست

اگر کوئی میری تصحیح کر سکے ‘تو میں اس کامشکور ہوں گا‘ لیکن برطانیہ اور امریکہ سمیت بہت سے پاکستانی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کینسر کے مریض کی جب پہلی کیمو تھراپی کی جاتی ہے‘ تو اس کے سر کے بال مکمل طور پر اتارے جاتے ہیں۔ممکن ہے کہ آج اربوں روپے مالیت رکھنے والے مریضوں کیلئے کوئی ایسی ترقی یافتہ کیمو تھراپی ایجاد ہو چکی ہو‘ جس سے سر کے بال نہ اتارے جاتے ہوں ‘لیکن میری جس بھی ڈاکٹر سے بات ہوئی‘ اُن کا کہنا تھا کہ ابھی تک ایسی کوئی کیمو تھراپی اُن کے علم میں نہیں کہ کسی مریض کے سر اور بھنوئوں کے بال اسی طرح رہیں۔یہ سوچ اور خیال اس وقت آتا ہے‘ جب بیگم کلثو م نواز کو بستر علالت پر ہارلے سٹریٹ کے کلینک میں لیٹے ہوئے دیکھا جاتا ہے کہ اُن کے سر کے بال ما شا اﷲ پہلے کی طرح موجود نظر آتے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اﷲ پاک انہیں کینسر جیسے موذی مرض سے ہمیشہ کیلئے محفوظ رکھے ‘کیونکہ یہ بہت ہی تکلیف دہ مرض ہے اور یہ وہی جانتا ہے‘ جو اس کا شکار ہو جاتا ہے۔ 
وہ کلینک جہاں اس وقت بیگم کلثوم نواز کو رکھا جا رہا ہے اور جہاں شریف فیملی کے لوگوں کو آتے جاتے ہوئے دیکھا جاتاہے‘ وہی ہے‘ جہاں میاں نواز شریف بھی بحیثیت ِوزیر اعظم پاکستان آج سے کوئی ڈیڑھ برس قبل دل کے علاج کیلئے قریباً ڈیڑھ ماہ تک رہے۔ اسی ہارلے سٹریٹ‘ جو کسی وقت انگلینڈ کے لارڈ کی رہائش گاہیں تھیں‘ جنہیں ٹائون ہائوسز کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ آج ایک سرے سے دوسرے سرے تک کلینکس میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ میری اپنی سگی بھابھی جو برطانیہ کی تسلیم شدہ گائنی کالوجسٹ سرجن ہیں اور انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ آج سے کوئی35 برس قبل برطانیہ کی میڈیکل ہسٹری میں ‘انہوں نے چیلنج قبول کرتے ہوئے ایک ایسی خاتون کا زچگی کا معاملہ ہاتھ میں لیا‘ جس کی رپورٹس میں ہونے والے بچے کا وزن 19 پائونڈ پایا گیا۔ چیلنج یہ تھا کہ جو ڈاکٹر اس زچگی کو بغیر آپریشن نارمل طریقے سے انجام دے گا '' مادرِ ملکہ‘‘ اسے اپنے ہاتھوں سے اعزاز دیں گی اور میری بھابھی نے اس خاتون کی نارمل ڈلیوری کرکے یہ اعزاز حاصل کیا۔کوئی یقین کرے یا نہ کرے میری بھابھی کا کہنا ہے کہ وضو کرنے کے بعد وہ آیت الکرسی کا ورد کرتے ہوئے یہ کیس سنبھال رہی تھیں۔برطانیہ میں رہنے والے ہی جان سکتے ہیں کہ ماد رملکہ کا کسی سے ہاتھ ملانا کس قدر عزت افزائی کا مقام سمجھا جاتا ہے۔ ہارلے سٹریٹ پر واقع میری بھابھی کے کلینک کا نام منظوری کلینک ہے‘ جو انہوں نے اپنی والدہ مرحومہ کے نام پر رکھا ہے۔
میری بھابھی کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی دونوں لندن میں ہی ڈاکٹر ہیں ۔بیٹی ہارلے سٹریٹ پر اپنی ماں کا کلینک چلا رہی ہے ‘تو بیٹا جو نامور ڈاکٹر ہے‘ اس کی پریکٹس کے مقام کو ابھی نہیں بتا سکتا‘ لیکن ایک بات جو بار بار پریشان کر رہی ہے کہ میری اطلاع کے مطا بق ہارلے سٹریٹ کے کسی دوسرے کلینک میں کسی بھی جگہ پر پرائیویٹ کمپنی کے گارڈز تعینات نہیں‘ تو پھر جیسے ہی میاں نواز شریف اور مریم صفدر پاکستان سے جہاز میں سوار ہوئے اور اسی وقت بیگم کلثوم نواز کو جب اس کلینک میں منتقل کیا گیا‘ تو اس کے عقبی دروازے سمیت اندر اور باہر مرکزی دروازے پر سکیورٹی کمپنی کے گارڈز کی تعیناتی کیوں کی گئی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کلینک میں بیگم کلثوم نواز کے سوا کوئی دوسرا مریض کیوں نہیں؟ لندن پوسٹ کے ڈاکٹر شاہد قریشی کی رپورٹ کے مطا بق‘ جب میاں نواز شریف علاج کیلئے اسی کلینک میں ڈیڑھ ماہ تک ''داخل ‘‘رہے‘ تو کوئی گارڈتعینات نہیں تھا ‘تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ آج چوبیس گھنٹے اور سات دن گارڈز نظر آ رہے ہیں؟ کچھ تو ہے‘ جس کی پردہ داری ہے‘ جو مختلف افواہوں کو جنم دے رہی ہے ۔
شریف فیملی نے آج تک اس ڈاکٹر کا نام ہی سامنے نہیں آنے دیا ‘جو بیگم کلثوم نواز کا علاج کر رہا ہے‘ تاکہ پتہ چل سکے کہ وہ کس مرض میں مبتلا ہیں‘لیکن میں بریکنگ نیوز دے رہا ہوں کہ ریحام خان اسی ہسپتال کے ایک کمرے میں مشاہد حسین‘ مریم صفدر اور پرویز رشید سے طویل ملاقات کر چکی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لندن کے سیا سی اور صحافتی حلقوں میںدبی دبی زبان سے کہا جا رہا ہے کہ اس کلینک کو ملکی اور غیر ملکی شخصیات سے ملاقات کیلئے استعمال میں لایا جا رہا ہے ‘کیونکہ ایون فیلڈ اور حسن نواز کے الفریڈ میں واقع دفتر کی بجائے ‘اس کلینک کو مختلف ممالک کے سفارت کاروں‘ جن میں اسرائیل اور بھارت بھی شامل ہے ‘اس لئے استعمال کیا جارہا ہے‘ تاکہ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں سمیت پاکستان کا کوئی بھی خفیہ ادارہ‘ اس جگہ ہونے والی بات چیت سے با خبر نہ ہو سکے۔آخر کیا وجہ ہے کہ ہر پریس کانفرنس اور بیان اس کلینک سے نکلتے ہوئے دیا جا رہا ہے ۔
اﷲ تعالی ہر ذی روح کو ہر قسم کے موذی امراض سے محفوظ رکھے‘ لیکن کینسر جیسے جان لیوا مرض سے سب کی حفاظت کرے ‘کیونکہ یہ بیماری صرف مریض ہی نہیں ‘ بلکہ لواحقین کیلئے بھی جان لیوابن جاتی ہے ۔سنتے آ رہے ہیں کہ سیاست کے سینے میں دل میں نہیں ہوتا۔ یہ دلیل تو آج کی جمہوری سیا ست کے بارے میں کہی جاتی ہے‘ لیکن سیاست کا محور چونکہ اقتدار اور تاج شاہی کے گرد گھومتا ہے‘ اس لئے اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیٹوں نے باپ تو بھائیوں نے ایک دوسرے کے گلے کاٹے ہیں ۔ سیا ست کیلئے وہ وہ حربے استعمال کئے جاتے ہیں کہ انسانیت شرما جاتی ہے ۔
احتساب عدالت سے ایون فیلڈ مقدمے میں سزا ہونے کے بعد لندن میں میاں نواز شریف نے جو پریس کانفرنس کی‘ وہ پاکستان کی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کیلئے ایک وارننگ سے کم نہیں۔ ملکی سلامتی سے متعلق ان تمام اداروں کو علم ہونا چاہئے کہ یہ نواز شریف نہیں‘ بلکہ وہ بول رہا ہے‘ جو آئے روز لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کر رہا ہے ۔اور وقت آن پہنچا ہے کہ ایسے تمام لوگوں کو جو نواز شریف کے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے ان کے ساتھ مالی تعاون کر رہے ہیں‘ انہیں ملک سے غداری کا مرتکب سمجھتے ہوئے سخت کارروائی کریں ۔ان میں کچھ IPPs کا نام سر فہرست ہے‘ کیونکہ اگر کیپٹن صفدر کی ریلی کو بڑھاوا دینے والی انتظامیہ پر انحصار کیا گیا‘ تو ملک کسی حادثے سے دو چار ہو سکتا ہے اور ساتھ ہی ملکی سرحدوں کی حفاطت کیلئے بھارتی فوج کی ہر حرکت پر نظر رکھنی ہو گی‘ کیونکہ نریندر مودی اپنے دوست کی مدد کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے اور اس کیلئے اسے ابھی سے ایک سخت پیغام دینا ہو گا‘ تاکہ بھیڑیا اپنی غار میں ہی رہے۔
کہتے ہیں کہ انسان کے دل کی بات ہی باہر آتی ہے‘ جس چیز کے بارے میں انسان ہر وقت سوچتا رہے‘ وہی اس کے تصورات پر چھائی رہتی ہے اور میاں نواز شریف جو جان چکے ہیں کہ ان کی اس ملک و قوم سے بد دیانتی اب جب کھل کر سامنے آ چکی ہے اور اس وقت نہ تو خلیل رمدے اور افتخار چوہدری ہے‘ نہ ہی رفیق تارڑ اور جیلانی ہے اور نہ ہی شفیع الرحمن اور راشد عزیز سمیت ملک قیوم‘ خواجہ شریف اور خلیل الرحمن خان ہیں اور نہ ہی سعید الزماں صدیقی موجود ہیں‘ جو اُن کی مدد کو آ سکیں۔اس لئے وہ بار بار شیخ مجیب الرحمن کی مثالیںدیتے ہوئے فوج کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ بقول چوہدری اعتزاز احسن: نواز شریف کسی بھی وقت ملک کی دیوا روں کو توڑ نے کی کوشش کر سکتا ہے۔

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved