تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-07-2018

آزادی کی یہ نیلم پری

نہیں‘ جنابِ والا‘ جمہوریت نہیں‘ یہ اقتدار کی جنگ ہے۔ ایک یا دوسرے گروہ کی آمریت۔ برائے نام جمہوریت بھی اگر ہوتی تو ضرورت پڑنے پر پاکستانی عوام سڑکوں پہ نکل آتے۔ ترکوں کی طرح!
دیو استبداد اور جمہوری قبا میں پائے کوب 
تو سمجھتا ہے‘ یہ آزادی کی ہے نیلم پری
بچے بڑے ہو جاتے اور کاروبارِ حیات کا ادراک کرنے لگتے ہیں تو گاہے ماں باپ تک کو نصیحت کرتے ہیں۔ یہ فطری عمل ہے۔ ان کی حوصلہ شکنی نہ کرنی چاہیے۔ ایک مقبول کالم نگار نے‘ جنہیں میں بھائی کا درجہ دیتا ہوں‘ تلقین کی ہے کہ جمہوریت کے ساتھ جڑا رہنا چاہیے۔ یہی بہترین نظام ہے۔ اس پر آمنا و صدقنا ہی کہا جا سکتا ہے۔ موازنہ جمہوریت اور آمریت کا نہیں‘ دو شخصیات کا تھا۔ گزارش فقط یہ تھی کہ جمہوریت میں ملاوٹ نہ کی جائے‘ جس طرح دودھ میں کی جاتی ہے۔ یہ کہ فوجی ہی نہیں سول حکمران بھی اس کے مرتکب ہوتے رہے۔ بارہا ان سطور میں واضح کرنے کی کوشش کی کہ بہترین صلاحیت آزادی میں بروئے کار آ سکتی ہے‘ وگرنہ سسکتی رہتی ہے۔
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب
اور آزادی میں بحرِ بیکراں ہے زندگی
بات اندازِ فکر اور تناظر کی ہوتی ہے۔ بجا کہ فوجی حکومت میں سول ادارے پنپ نہیں سکتے‘ جن کے بغیر‘ مختلف دائروں میں بالیدگی کا عمل فروغ نہیں پا سکتا۔ لیکن اگر سول حکومت کا وزیراعظم بھی ایک آمر کا روپ دھار لے؟ مزید برآں‘ تمام خامیوں اور خرابیوں‘ تمام ناقص فیصلوں کے باوجود‘ شخصی طور پر‘ جنرل محمد ضیاء الحق کو یہ خاکسار‘ فخرِ ایشیا‘ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو سے بہتر سمجھتا ہے۔ ایک مثال سے یہ ناچیز اپنا مؤقف واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ کوئی بھی مسلمان دنیا اور آخرت میں عافیت کا طلب گار ہوتا ہے۔ فرض کیجئے‘ روزِ حساب‘ اسے یہ کہا جائے گا: تمہارا انجام بھٹو کے ساتھ ہوگا یا جنرل ضیاء الحق کے ساتھ تو ‘وہ بھٹو کی رفاقت کو ترجیح نہ دے گا۔
مکرّر عرض ہے کہ جمہوریت ہی برحق ہے۔ اس کے باوجود خطاکار کا خیال یہ ہے: جس طرح قیامت کے دن بندوں سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم دیوبندی ہو‘ بریلوی یا شیعہ‘ اسی طرح شاید یہ سوال بھی ان سے نہ کیا جائے گا کہ تم نے جمہوریت کی کتنی خدمت کی؟۔
خالق کون و مکان کا حکم قطعی ہے اور بالکل واضح ''وامرھم شورٰی بینہم‘‘۔ اپنے امور وہ باہم مشورے سے انجام دیتے ہیں۔ کوئی شخص‘ کوئی ادارہ‘ کوئی قوم اور کوئی ملک نامراد نہیں ہو سکتا‘ اگراس کی پیروی کرے۔ بے کراں تنوع میں برپا‘ زندگی کے ان گنت دائروں میں کارفرما کشمکش کی تمام پیچیدگیوں کا کوئی فرد واحد ادراک نہیں کر سکتا۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ کوئی عقلِ کل نہیں ہوتا۔ ایک معمولی سا مکان بنانے کے لیے انجینئر اور آرکی ٹیکٹ کے علاوہ کتنے ہی دوسرے لوگوں سے رہنمائی طلب کی جاتی ہے۔ پھر بائیس کروڑ انسانوں کی مملکت چلانے کے لیے‘ کسی ایک لیڈر پہ بھروسہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔ نون لیگ کے رہنمائوں میں سے کسی ایک نے‘ غالباً محترمہ مریم نواز نے ارشاد کیا ہے: نوازشریف قوم کو تنہا نہ چھوڑیں گے۔ سبحان اللہ‘ سبحان اللہ‘ کیا کہنے‘کیا کہنے۔ سرحدپار سے تخریب کاری‘ اقتصادی بحران‘ گروہوں اور پارٹیوں کی کشمکش‘ عدالتی‘ انتظامی اور سیاسی اداروں کی پستی و پامالی۔ ان سب بحرانوں کو سمجھنے اور سلجھانے کے لیے قوم کوصرف ایک شخص پہ انحصار کرنا چاہیے۔ آدمی بھی وہ‘ جس کے مشیر نجم سیٹھی اور پرویز رشید ہیں۔ کیا کہنے‘ کیا کہنے۔کوئی انہیں بتائے کہ یہ مقام فقط پیغمبر کا ہوتا ہے‘ جو اب نہ آئیں گے۔
دو مؤقف ہیں۔ ایک یہ کہ ادارے سیاست کو آلودہ کر رہے ہیں۔ اس رائے پر یقینا غور کرنا چاہیے مگر ایک اور سوال پر بھی... دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے علاوہ‘ بھارت اور امریکہ کے پروردہ این جی اوز والے اس بیانیے کے علمبردار کیوں ہیں؟ دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ بعض سیاسی لیڈروں نے قبضہ گیری اور لوٹ مار سے سیاست کے تالاب کو غلیظ کر دیا ہے‘ لہٰذا ان اداروں کومجبوراً مداخلت کرنا پڑی‘ عملاً جن کی یہ ذمہ داری نہیں۔ سیاست سے جنہیں الگ رہنا چاہیے۔ کیا اس مؤقف پر غور کرنے کی ضرورت نہیں؟۔
قرآن کریم یہ کہتا ہے: برائی کا سدّباب صرف بھلائی سے ممکن ہے۔ اگر اس بنیاد کو ملحوظ رکھا جائے تو اداروں سمیت‘ اصلاح کے ہر علمبردار سے مثالی طرزِ عمل کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ معقول اور مثالی طرزِ عمل پر مگر کوئی بھی عمل پیرا نہیں۔ پھر کسی ایک کو قصوروار کیوں ٹھہرایا جائے؟
پرسوں پرلے روز یہ گزارش کی تھی کہ پرانے لاہور میں دو ہزار سے زیادہ مکین ایسے ہیں‘ جنہوں نے ایک سے تین مرلے تک تجاوزات کی ہیں۔ الزام یہ ہے کہ حمزہ شہباز ان کے سرپرست ہیں۔ کیا خالص اور بے عیب جمہوریت کا کوئی علمبردار اس الزام کی تحقیقات کرنا پسند کرے گا؟ کیا یہ بجائے خود دھاندلی نہیں؟
پچھلے چند ماہ میں لاہور کے مکینوں نے حیرت سے دیکھا ہے کہ مال روڈ اور نہر کنارے رکشا پھر سے دکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ پہلے سے الجھے ٹریفک کے نظام کو برباد کرنے کا عمل ہے۔ کیا یہ اقدام فقط اس لیے نہیں کیا گیا کہ دو تین لاکھ ووٹ بٹورنے کی کوشش کی جائے! کیا یہ دھاندلی نہیں؟ اپنی مدت تمام کرنے سے پہلے‘ وفاقی حکومت نے ایک سو ارب روپے کے ٹیکس معاف کر دیئے۔ یہ سانحہ اس ملک میں ہوا‘ جہاں 60 فیصد معیشت پہلے ہی کالی ہے‘ یعنی اکثریت پہلے ہی ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ اقتصادی اعتبار سے المیہ ہی یہ ہے کہ دو تہائی ٹیکس وصول کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔ تاجروں کو کھلی چھٹی ہے کہ جی بھر کے منافع کمائیں۔ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس وصول کرنے والے کو رشوت دیں اور من مانی کریں۔ کیا یہ الیکشن پہ اثرانداز ہونے کی کوشش نہیں؟... اور کیا دھاندلی کے سوا بھی‘ اسے کوئی نام دیا جا سکتا ہے؟ ایسے میں صرف اداروں سے یہ مطالبہ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ وہ فرشتے بن جائیں۔ خبردار ! تمہارے دامن پہ کوئی داغ نہ ہو!
اسی طرزِفکر کا نام دھڑے بازی اور گروہ بندی ہے۔ سرکاری اداروں میں سفارش سے بھرتی کیے گئے مفکر!ہر شخص جانتا ہے کہ قومی بجٹ شاہی خاندانوں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے‘ پولیس اور سول سروس بھی۔ سرکاری افسروں کا تقرر فقط اس لیے کیا جاتا ہے کہ الیکشن میں مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ ایک عشرے کے دوران سندھ میںسرکاری طور پر استعمال ہونے والے 6000 ارب روپے میں سے‘ کم از کم ایک تہائی ہڑپ کر لیے گئے۔ جعلی کھاتوں کے ذریعے سینکڑوں ارب روپے بیرونِ ملک منتقل کر دیئے گئے۔ پولیس فورس کی تشکیل اس طرح کی گئی کہ مخالفین کی ناک رگڑی جائے۔ کیا یہ دھاندلی نہیں؟
مظفرگڑھ کے دو صوبائی ارکان گزشتہ ماہ ایک دوسری پارٹی سے وابستہ ہوگئے۔ رانا صاحب نے سبب دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبوں میں سے اپنا حصہ وہ وصول کر چکے ہیں۔ اب سرکاری جماعت کی انہیں ضرورت نہیں۔ جعلی ٹھیکیدار اور ناقص تعمیرات۔ سب جانتے ہیں کہ سرکاری ارکان کا حصہ 20 سے 25 فیصد ہوتا ہے۔ کیا یہ دھاندلی نہیں اور کیا یہ جمہوریت ہے؟ تعمیراتی اور ترقیاتی منصوبوں سے ارکانِ اسمبلی کاکوئی تعلق کیوں ہو؟ یہ کس قماش کی جمہوریت ہے؟ ترکی اور چین کی کمپنیوں کو کھربوں کے جو ٹھیکے دیئے گئے‘ قوم کو ان کی تفصیلات کیوں نہیں بتائی جاتیں؟
کہا جاتا ہے کہ احسن اقبال نے اپنے حلقۂ انتخاب میں دس ارب اور رانا ثناء اللہ نے تیس ارب روپے خرچ کئے۔ اب اپنے مخالفین کو وہ للکار رہے ہیں کہ تمہاری بساط کیا ہے؟آصف علی زرداری ابھی کل تک نوازشریف کو ناسور کہا کرتے۔ ایک کارندے کے گھر پہ خفیہ ملاقات کے بعد‘ نون لیگ پر پیپلزپارٹی والوں کی تنقید کم ہوتی گئی اور عمران خان بڑا ہدف ہوگئے۔ پاکستانی نیلسن منڈیلا اب نودریافت قائدِ جمہوریت کو مفاہمت کے اشارے دے رہے ہیں۔ جمہوریت کے لیے؟
نہیں‘ جنابِ والا‘ جمہوریت نہیں‘ یہ اقتدار کی جنگ ہے۔ ایک یا دوسرے گروہ کی آمریت۔ برائے نام جمہوریت بھی اگر ہوتی تو ضرورت پڑنے پر پاکستانی عوام سڑکوں پہ نکل آتے۔ ترکوں کی طرح!
دیو استبداد اور جمہوری قبا میں پائے کوب 
تو سمجھتا ہے‘ یہ آزادی کی ہے نیلم پری

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved