میری ماں کی جلالی طبیعت کی وجہ سے میرے ابا جی کا ہیرو’گونگا پہلوان‘ تھا،مجھے معلوم نہیں کہ اس کردار میں کتنی حقیقت ہے اور کتنی رنگ آمیزی۔ میرے ابا جی‘ مجبور طبیعت مگرنیم آزاد تخیل تھے۔ وہ میرے بچپن میں ہمارے خطے کے اس ہیرو یعنی گونگے پہلوان کی ان گنت فتوحات سناتے رہتے ۔بدقسمتی سے مجھے فاتحین اور پہلوانوں کے کارناموں سے زیادہ ان کے انجام سے بہت دل چسپی رہی ہے۔ جب کبھی میں اس کے انجام کے بارے میں پوچھتا تووہ ٹال جاتے۔اپنے آخری دنوں میں جب وہ ملتان کے عوامی ہسپتال میں ناک کے ایک معمولی آپریشن کے لئے داخل تھے،جہاں دو دن بعد سرجن عون محمد خان نے ہمیں بتانا تھا کہ مر جانے والے مریض کا آپریشن کامیاب ہو گیاتھا اور یوں اب اسے قبر میں سانس لینے میں کوئی تکلیف نہیں ہو گی،انہوں نے مجھے افسردگی سے بتایا تھا کہ گونگے پہلوان کو اپنی طاقت کا کچھ گھمنڈ ہو گیا تھا،کئی مرتبہ وہ چلتی لاری کو پیچھے سے روک چکا تھا مگر چلتی بس کو سامنے سے روکنے میں مارا گیا۔ پہلے اس کی مضبوط ٹانگیں ٹوٹیں اور پھرٹوٹی ہوئی پسلیوں کے راستے اس کی جان نکل گئی۔ہاں پہلے اس کی سمجھ دار ماں مر گئی تھی جس کے اشارے وہ سمجھتا تھا۔ حنا ربانی کھر کے حلقے میں جمشید دستی بس چلا کر پہنچا تو پتا نہیں کیوں مجھے یہ قصہ یا د آ گیا،مگر وہاں داخل ہوتے وقت وہ جس عزت مآب شخصیت کے لئے زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا،اس سے مجھے اپنے شہر کا ایک نان سٹیٹ ایکٹر نازُو بگھیلا بھی یاد آ گیا جسے سبھی طاقت ور لوگ استعمال کرتے تھے۔میں نے زمانہ طالب علمی میں اسے پہلی بار تب دیکھا تھا جب ایوب خان کا آئین منظور ہو چکا تھا اور مولانا فضل الرحمن کے متقی والد مفتی محمود اس آئینی ترمیم کے لئے ووٹ دے چکے تھے جس کے تحت فیلڈ مارشل دوسری مرتبہ صدارتی انتخاب لڑ سکتے تھے اور اس مقدس رومال میں جو نئے کرنسی نوٹ باندھے گئے تھے، اس کی تفصیل میری عمر کے ہر اس شخص کو یاد ہو گی جس نے ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی جلسوں کی تقریریں انہماک سے سنی ہیں۔نئے کرنسی نوٹوں سے مولانا فضل الرحمن کی رغبت کے نفسیاتی اسباب ہو سکتے ہیں جس کے پیشِ نظر جنرل نصیراللہ بابر نے کابینہ کے اجلاس میں بے نظیر بھٹو کو تجویز دی تھی کہ سٹیٹ بینک کی چابیاں ہی مولانا کو دے دیں تا کہ وہ نئے نوٹوں کے ہار بنانے والے اپنے کارکنوں کی روزانہ کی فرمائشیں پوری کر سکیں۔ بہرطور‘ اس وقت ایوب خان کے مقابلے کے لئے ابھی فاطمہ جناح کی جانب اپوزیشن نے نہیں دیکھا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل اور دوسرے ہی وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین ایوب خان کے خلاف انتخاب لڑیں گے۔خواجہ صاحب کا جلسہ ملتان کے قاسم باغ کے دمدمے کے سامنے کے باغیچہ میں تھا۔ نازُو بگھیلا اس گروپ کی قیادت کر رہا تھا جس نے ان کے سٹیج پر آتے ہی اپنے کھیس ٹماٹروں اور انڈوں کی ٹوکریوں سے ہٹائے اور اس شریف النفس شخص کو توہین سے نوازنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے کہ جلسہ الٹ گیا اور ہم جیسے میٹرک کے طالب علموں کی سیاسی تربیت غیر متوقع پٹائی سے ہوئی۔خواجہ صاحب کے ساتھ مخدوم سجاد حسین قریشی بھی تھے جو اس وقت کونسل مسلم لیگ کے اہم رہنما تھے۔ اسی رات وہ کنونشن مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور ان کا یہ بیان قومی اخبارات کے ریکارڈ میں شامل ہو گا کہ ایوب خان کی صورت میں انہیں روشنی کا لازوال مینار دکھائی دے رہا ہے۔ دوسری مرتبہ میں نے نازُو بگھیلا کی مہارت تب دیکھی جب ذوالفقار علی بھٹو اپنی جماعت بنانے کے بعد ملتان آئے۔ قادر پور راواں میں ان پر حملہ ہوا،پھر وہ چوک کچہری کے قریب کے شیزان ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے کہ نازُو بگھیلا کی قیادت میں ایک مختصر گروہ نے ہوٹل پر حملہ کردیا، شیشے توڑے،بھٹو اور پیپلز پارٹی مردہ باد کہا۔غلام مصطفی کھر جنہیں ابھی خود نازُو بگھیلا بننا تھا، اپنی قیاس آرائیاں کر رہے تھے،الطاف کھوکھر حملہ آوروں کے محرکات جاننے کے لئے شیکسپیئر کے ڈراموں سے فالیں نکال رہے تھے کہ اچانک نازُو بگھیلا نے پندرہ منٹ تک مردہ باد،مردہ باد کہنے کے آخر میں کہا’نواب صادق حسین قریشی زندہ باد‘۔تب بڑے بھٹو سمیت سبھی محصورین ہنس پڑے۔اپنے قاتلوں کو گلے لگانے کی روایت بھٹو خاندان کی بہت پرانی ہے،اس لئے یاد دلانے کی ضرورت نہیں کہ نواب صادق حسین قریشی کوبعد میں بھٹو صاحب کی پارٹی نے پنجاب کا گورنر اور وزیرِ اعلیٰ کیوں بنایا۔اب جبکہ ہمارے طبقے کا ایک فرد جمشید دستی ’’سلطانہ ڈاکو ‘‘ بننے کی کوشش میں ہے،مجھے صرف یہ بات الجھا رہی ہے کہ اُس کے خشک ہونٹوں پر زندہ باد کہنے کے لئے ایک مقدس نام کیوں ہے؟ کیا وہ یہ تاثر دے رہا ہے کہ وہ عرصے سے ایک بڑی بارگاہ میں وعدہ معاف بن چکا ہے۔ اس منظر میںمظفر گڑھ کی مختاراں مائی کتنی قابلِ عزت ہے جس کے بارے میں پیپلز پارٹی کے موجودہ اور سابق ٹکٹ برداروں کا فتویٰ ہے کہ وہ مظلوم نہیں ۔بعض اوقات ایسی باتیں کرنے والے خود بھی ایک جال میں پھنس جاتے ہیں۔میں اس پارٹی کے جن لوگوں کی اسیری اور کوڑے کھانے پر ان کے لیے روتا رہا،ان کے اقتدار میں آنے کے بعد اکثر خیال آیا کہ ان سے زیادہ توکوڑوں اور قمچیوں کا کوئی اور استحقاق رکھتا ہی نہیں تھا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved