نبی کریمﷺ کا مقام اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے سب سے بلند ہے اور اسے صرف مسلمان ہی نہیں‘ بلکہ ہر ذی شعور انسان نبی ٔکریمﷺ کے انسانیت پر کیے جانے والے احسانات کا معترف ہے۔ جب آپ ﷺکائنات میں تشریف لائے ‘تو دنیا اندھیروں میں ڈوبی ہوئی تھی۔ فکری اور اعتقادی اعتبار سے انسان اس حدتک گر چکا تھا کہ بتوں کے سامنے سر کو جھکا رہا تھا۔ سماجی سطح پر نا انصافی ‘ عورتوں اور غلاموں کے ساتھ ظلم وبربریت اپنے پورے عروج پر تھا۔ عہد رسالت ﷺ سے قبل لوگ شخصی انانیت کی وجہ سے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے پر آمادہ وتیار ہو جایا کرتے تھے۔ معاشرے میں عدم برداشت اور معمولی باتوں پر جھگڑے اپنے پورے عروج پر تھے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کی جانیں لے لینا‘ معمولی سمجھا جا رہا تھا ‘ اسی طرح لوگ شراب کے رسیا تھے ۔ جسم فروشی کا دھندا‘ اپنے پورے عروج پر تھا۔ جرائم کے ارتکاب کی صورت میں بڑے مجرموں کو چھوڑ دیا جاتا اور چھوٹے مجرموں کو سزادی جاتی۔ معاشرہ سودکی لعنت میںبری طرح جھکڑا ہوا تھا اور مجبور لوگ سود پر قرضے لے کر زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ اس قرض کی ادائیگی کے لیے اصل سرمائے کو فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سودی اقساط کا بندوبست کرتے کرتے انہیں شدید اذیت‘ مشقت اور تکالیف کا سامناکرنا پڑتا تھا۔ نبی ٔکریم ﷺ کی آمد سے قبل لوگ بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے اور اس کی ولاد ت کو اپنی عزت اور ناموس کے خلاف تصور کیا جاتا تھا۔
نبی ٔکریم ﷺ کی بعثت ‘ابتدائی طور پر جزیرۃ العرب اور ازاں بعد پوری کائنات کے لیے‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی رحمت ثابت ہوئی۔ نبی ٔکریم ﷺ کی شبانہ روز کوششوں کے سبب لوگوں کو اللہ احکم الحاکمین کی معرفت حاصل ہوئی اور لوگوں نے بتوں کدوں ‘سورج ‘چاند ‘ستاروںسے توجہ کو ہٹا کر اللہ کی عبادت کو کرنا شروع کر دیا۔اسی طرح حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پوجا کی بجائے نبی کریم ﷺ نے اللہ کی بندگی کا سبق پڑھایا۔ سودی نظام کو مکمل طورپر ختم کرکے اس کی جگہ نظامِ زکوٰۃ وصدقات کو رائج کیا ۔ انسانی جان کی حرمت اور احترام کو اس حدتک اجاگر کیا گیا کہ ایک انسان کے بلاجواز قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی زندگی بچا لینا پوری انسانیت کی حیات قرار دے دیا گیا۔ شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا گیا۔ جوئے اور قمار بازی پر پابندی لگا دی گئی۔ بیٹیوں اور عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی زبردست ترغیب دی گئی۔ محکوم طبقات کے ساتھ اچھے رویے اور برتاؤ کا زبردست انداز میں پرچار کر دیا گیا۔ نبی ٔ کریمﷺ کی سنہری تعلیمات کے سبب اونچ اور نیچ کا امتیاز مٹ گیا۔ ذات پات اور برادری کی بنیاد پر ایک دوسرے سے نفرت کرنے والے لوگ ایمان اور اسلام کے سبب رشتہ ٔ اخوت میں پروئے گئے۔ نبی کریم ﷺ کی بعثت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے دنیا کے لوگوں پربہت بڑا احسان تھا۔ اس احسان عظیم کا تقاضا یہ تھا کہ آپ ﷺ کی ذات کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا جائے ۔ جن میں سے چند اہم درجہ ذیل ہیں:
1۔ آپ ﷺ کی عظمت کااعتراف: نبی ٔکریمﷺ کا مقام صلحائ‘ شہدائ‘ صدیقین ‘انبیاء اوررسل اللہ سے اعلیٰ ہے۔ اسی طرح دنیا میں کوئی بادشاہ لیڈر یا سپہ سالار نبی کریم ﷺ کی عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ نبی ٔ کریمﷺ کی عظمت اس حدتک مسلّم ہے کہ معروف مغربی تاریخ دان مائیکل ہارٹ نے بھی کائنات میں نبی ٔکریمﷺ کی ذات ِاقدس کو پہلے نمبر پر قرا ر دیا۔
2۔ نبی ٔکریمﷺ سے محبت: ہمیں نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس سے بحیثیت ِمسلمان والہانہ محبت ہونی چاہیے۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر 24میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''کہہ دیجئے‘ اگر ہیں تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (کہ) تم نے کمایا ہے‘ ان کو اور (وہ) تجارت (کہ) تم ڈرتے ہو‘ اس کے مندا پڑ جانے سے اور (وہ) گھر (کہ) تم پسند کرتے ہو انہیں زیادہ محبو ب ہیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے‘ تو تم انتظار کرو‘ یہاں تک کہ لے آئے ‘اللہ اپنے حکم کو اور اللہ نافرمانی کرنے والے لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‘‘ ۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ٔکریم ﷺ کی محبت ہمیں تمام محبتو ں سے زیادہ عزیز ہونی چاہیے اور اس مسئلے میں جتنی بھی نسبتیں ہیں ‘ان میں سے کسی بھی نسبت کو نبی ٔکریمﷺ کی نسبت اور محبت پر سبقت حاصل نہیں ہونی چاہیے۔
3۔ درودو سلام: نبی ٔکریم ﷺ کی ذات پر درودو سلام کا پڑھنا بھی ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔نبی کریم ﷺ کی ذات ِاقدس ہمارے تما م بزرگ اور دنیا سے چلے جانے ولے اعزاء و اقارب سے زیادہ محبت کی حقدار ہے۔ اس لیے ہمیں نبی ٔ کریم ﷺ کی ذات پر تسلسل کے ساتھ درودوسلام کو بھیجتے رہنا چاہیے۔
4۔ نبی ٔ کریم ﷺ کی غیر مشروط اطاعت: زندگی کے تمام شعبوں میں ہمیں‘ نبی ٔکریمﷺ کی غیر مشروط اطاعت کرنی چاہیے۔ بعض لوگ اپنی ممدوح اور پسندیدہ مذہبی شخصیات کے بیانات کو لاشعوری طور پر نبی ٔکریمﷺ کی سنت ِمطہرہ پر ترجیح دے دیتے ہیں‘ جبکہ بعض لوگ دنیاوی اعتبار سے اپنے پسندیدہ لوگوں کی بات کو نا دانستگی میں نبی ٔکریمﷺ کے فرامین پر ترجیح دے بیٹھتے ہیں۔ مسلمانوں کو ہر حالت میں آپﷺ ہی کی باتوں کو تمام باتوں پر ترجیح دینی چاہیے۔
5۔ نبی ٔکریمﷺ کی حرمت: نبی ٔکریمﷺ کی حرمت اور ناموس ہر مسلمان کے لیے غیر معمولی اہمیت کا مسئلہ ہے اور تمام مسلمان اس حوالے سے انتہائی حساس ہیں؛حتیٰ کہ جو مسلمان عملی اعتبار سے کمزور ہیں‘ وہ بھی ناموس ِرسالتﷺ پر سمجھوتہ کرنے پر آمادہ وتیا ر نہیں ہوتے۔ مسلمان اُمت کے ساتھ دنیا کے باشعور انسانوں کو بھی حرمت رسولﷺ کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے مسلمانوں کے جذبے اور احساسات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا ان کی ذمہ داری ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ مسلمان اُمت کے جذبات کو وقفے وقفے سے انگیز کیا جاتا اور ان کے زخموں پر تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد نمک پاشی کی جاتی ہے۔ مغربی معاشروں میں نبی ٔکریمﷺ کی گستاخی گزشتہ کئی عشروں سے تسلسل سے ہوتی آ رہی ہے ۔ اس حوالے سے اہم مغرب کو اپنے رویوں پر سنجیدگی سے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ توہین ِعدالت اور ہتک عزت کے قوانین مغرب میں رائج ہیں‘ جوکہ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ گو جمہوری معاشروں میں آزادی رائے کے اظہار پر عمومی اعتبار سے تو کوئی قد غن عائد نہیں کیا گیا‘ لیکن کسی انسان کی عزت کو اُچھالنا یا عدالت کی توہین کرنے کی کوئی گنجائش بہر کیف وہ لوگ بھی نہیں دیتے ۔ ان پابندیوں کا مقصد معاشرے کے بعض بے لگا م عناصر کی حوصلہ شکنی کرنا ہے کہ جن کے قلم اور ناپاک جسارتوں سے کسی بھی انسان کی عزت یا ادارے کی عظمت کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کسی ادارے ‘ انسان کی عزت اور ناموس کے مسئلے پر ہمیں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے‘ تو اس سے کہیں بڑھ کر ہمیں نبی ٔ کریم ﷺ کی ذات کے حوالے سے ذمہ دارانہ کردار کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ نبی ٔکریمﷺ کی ذات اقدس کے حوالے سے گزشتہ دنوں میں بھی ایک مغربی ملک کے پارلیمنٹ کے نمائندے نے گستاخانہ خاکوں کا مقابلہ کروانے کا اعلان کیا ۔ اس سے قبل بھی بہت سے مغربی ابلاغی اور سیاسی نمائندگان اس قسم کی ناپاک جسارتوں کا ارتکاب کر چکے ہیں۔ ماضی میں ملعون سلمان رشدی کو اپنی ناپاک جسارتوں کے باوجود نائٹ ہڈ اور سر کا خطاب دے کر مسلمانوں کے جذبات کو مشتعل کیا گیا ‘اس حوالے سے جب بھی کبھی نامناسب ‘ غیر ذمہ دارانہ اور مجرمانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے‘ تو اُمت ِمسلمہ میں تشویش کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ دنیا بھر میں جلسے ‘ جلوس‘ اجتماعات اور مظاہروں کا بڑے پیمانے پر انعقاد کیا جاتا ہے۔ مذہبی زعماء ‘ دانشور اور مذہبی جماعتوں کے قائدین حرمتِ رسالتﷺ کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرتے ہیں‘ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ نمایاں مسلمان سیاسی شخصیات اور مسلمان ممالک کے سربراہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے سے کما حقہ قاصر رہے ہیں۔ ان کی سیاسی ترجیحات ان کو عموماً اس حساس مسئلے پر دوٹوک بیان دینے سے روک کر رکھتی ہے ۔نبی ٔکریمﷺ کی حرمت کا مسئلہ صرف اورصرف باعمل مسلمانوں کا مسئلہ نہیں‘ بلکہ بحیثیت ِمجموعی پوری امت کو اس حوالے سے کردار ادا کرنا چاہیے اور مغربی ممالک کو حرمت ِرسول ﷺ کے حوالے سے قانون سازی پر آمادہ وتیار کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے اُمت مسلمہ کے سیاسی اور حکومتی زعماء کو ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے‘ تاکہ ہم نبی ٔ کریمﷺ کی حرمت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برأ ہو سکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)