تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     11-07-2018

جارحیت کی نفسیات

اگر ہم سیاست میں رونما ہونے والی اہم حرکیات پہ غور کریں‘ تو کچھ بہت دلچسپ باتیں سمجھ میں آتی ہیں ۔ان میں سے ایک بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ جب ایک شخص اپنی طاقت اوراچانک ملنے والی غیر معمولی کامیابی کے نشے میں سرشار ہو جاتا ہے‘ تو زمینی حقائق سے اس کا رابطہ ٹوٹ جاتاہے ۔ یوں بالآخر ناکامی اور ذلت اس کا مقدر بنتی ہے ۔ آپ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی زندگی پہ غور کیجیے ۔ جب پرویز مشرف کے سامنے انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا ۔ حالات افتخار چوہدری کے لیے سازگار تھے ۔ امریکہ کا غیر مشروط ساتھ دینے کی وجہ سے پرویز مشرف کے خلاف عوام میں نفرت پائی جاتی تھی ۔ جب افتخار چوہدری نے ڈنکے کی چوٹ پہ پرویز مشرف کے سامنے جھکنے سے انکار کیا‘ تو وہ کس قدر بڑے ہیرو کے طور پر سامنے آئے ۔ بالآخر مشرف کو انہوں نے چلتا کیا۔ زرداری حکومت کوایک طویل عرصے تک مزاحمت کرنے کے بعد بالآخر سبکی اُٹھاتے ہوئے ججوں کو بحال کرنا پڑا۔ 
اس غیر معمولی کامیابی نے افتخار چوہدری کے ذہن میں یہ بات بٹھا دی کہ وہ جو بھی کرنا چاہیں ‘ کر سکتے ہیں ۔عوامی مزاحمت سے بحال ہونے والا ‘ ملک کا قاضی القضاۃ‘ عوام الناس میں اس قدر مقبول کہ حکمران پارٹی کا سربراہ بھی اسے بحال ہونے سے نہ روک سکا۔ اس کے بعد افتخار محمد چوہدری کا رابطہ زمینی حقائق سے منقطع ہو گیا۔ وہ جارحانہ کی نفسیات کا شکار ہوئے ‘ جس میں انسان ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی کا شکار ہو جاتاہے ۔ روز اُن کا بیان اخبارات کی شہ سرخی بنتا ۔ یوںایک میڈیا گروپ‘ افتخار محمد چوہدری اورنون لیگ کا گٹھ جوڑ سامنے آیا ۔افتخار محمد چوہدری کی سب سے بڑی غلطی ‘ جس نے انہیں انتہائی مقبولیت سے انتہائی نا مقبولیت کی طرف گامزن کیا‘ ان کی یہ غلط فہمی تھی کہ وہ عمران خان کو بھی پچھاڑ سکتے ہیں ۔ جیسا کہ انہوں نے مشرف اور زرداری کو پچھاڑ دیا تھا۔ دوسری طرف افتخار چوہدری یہ اندازہ لگانے میں بھی کامیاب رہے کہ انہوں نے بہت سے دشمن بنا لیے تھے‘ جو بے صبری سے اُن کی سبکدوشی کا انتظار کر رہے تھے ۔ اب تک وہ عمران خان پہ حملہ آور ہونے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ؛حالانکہ موجودہ حالات میں ان کی کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہی ہے۔
یہی حال ایک گروپ کا تھا۔ ایک طویل عرصے تک اس میں فوج کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر مضامین شائع ہو تے رہے ۔ دوسری طرف پرویز مشرف کی سبکدوشی کے بعد فوج کی عزت بحال ہو نا شروع ہو چکی تھی ۔ لوگ روزانہ کی بنیاد پر جامِ شہادت نوش کرنے والے جوانوں اور افسروں کو سراہ رہے تھے ۔ بتدریج یہ حقیقت ان پہ روشن ہوتی چلی جا رہی تھی کہ اگر فوج نہ ہوتی‘ تو سوات‘ جنوبی و شمالی وزیرستان ‘ فاٹا ‘ کراچی اور بلوچستان کے بعد باقی ملک بھی دہشت گردوں کی تحویل میں چلا جاتا ۔ پاکستان مستقل طور پر شام اور عراق بن جاتا۔ دوسری طرف وہ گروپ اپنی خوش فہمی کی ایک جنت میں قیام پذیر تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ جو چاہے کر سکتاہے ۔ اجمل قصاب والے واقعے اور ایک صحافی پر قاتلانہ حملے کے بعد انہوں نے سوچا کہ اب وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں ۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ وہ آپ کے سامنے ہے ۔ 
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جب ایک ماحول بن جاتاہے ‘ جس میں یہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ میں دشمن کو شکست دے دوں گا‘ تو پھر انسان اس ماحول کی کیفیت سے باہر کے زمینی حقائق سے بے خبر ہوجاتاہے ۔ 
یہی حال مریم نواز اور پرویز رشید گروپ کا ہے ۔ ڈان لیکس والی ساری کہانی آپ کے سامنے ہے ۔ ان کا یہ خیال تھا کہ سب کو ہم ان لیکس کے ذریعے پچھاڑ دیں گے۔ الٹا ہوا یہ کہ حکمران جماعت کو انتہائی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔صفائیاں اور وضاحتیں پیش کرنا پڑیں ۔ پرویز رشید کو وزارت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 
جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے ‘ قوم یہ فیصلہ کرچکی ہے کہ اسے ایک بار حکمرانی کا موقع بہرحال دینا ہے ۔اس لیے کہ وہ مالی طور پر کرپٹ نہیں اور عوام الناس کا تعلق مالی امور ہی سے ہے ۔ سیاست میں سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے کہ جو بھی برسراقتدار آتا ہے ‘اس کی ساری توجہ لوٹ مار پہ مرکوز ہوتی ہے ۔ نتیجتاً ملک کو نقصان پہنچتاہے ۔مالی ایماندار ی ‘ کرکٹ میں کامیابی‘ شوکت خانم کی صورت میں فلاحی کارنامے ‘ یہ وہ چیزیں ہیں ‘ جنہوں نے عمرا ن خان کو مقبولِ عام کر دیا ۔ اس کے برعکس اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ شریف خاندان کا اقتدار دراصل دولت جمع کرنے کا ذریعہ ہے اور یہ دولت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے ۔ ماسوائے‘ نسل در نسل لیگی حامیوں کے ‘ اکثریت یہی سمجھتی ہے ۔ 
عائشہ گلالئی بھی جارحیت کی نفسیات کا شکار تھیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ عمران خان کو ان کے پیغامات کا ڈراوا دے کر اپنی شرائط منوائی جا سکتی ہیں ۔ جارحیت کی نفسیات ‘ جس میں حقائق سے رابطہ منقطع ہو چکا تھا۔ زمینی حقائق یہ تھے کہ اگر عمران خان وقت سے پہلے تمام پارٹی میں سے صرف خصوصی طور پر عائشہ گلا لئی کو ٹکٹ جاری کر دیتے تو اس کے بعد کپتان کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ؟ 
خود عمران خان بھی اسی کیفیت کا شکار ہوئے ۔ 30اکتوبر 2011ء کے عظیم الشان جلسے میں جب انہوں نے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنے سامنے دیکھا‘ تو وہ انتہائی خود اعتمادی کا شکار ہوئے ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ 70ء کے الیکشن کی سی صورتِ حال ہے۔ اب وہ اگر ایک کھمبے کو بھی ٹکٹ دیں‘ تو وہ جیت جائے گا ؛حالانکہ زمینی حقائق کچھ او رتھے۔ملک بھر میں بہت سے حلقوں پر تحریکِ انصاف کے امیدوار صرف چند ہزار ووٹوں کے فرق سے ہارے۔ اگر بہتر امیدواروں کا انتخاب کیا جاتا توآسانی سے دُو گنا سیٹیں جیتی جا سکتی تھیں۔
برسبیلِ تذکرہ ‘ بھارت میں عمومی روّیہ یہی ہے کہ پاکستان کے خلاف مستقل طور پر ایک ماحول بنا ہوا ہے ۔ ایک لیڈر کہتاہے کہ ہماری فوج دس گھنٹے میں پاکستان فتح کر سکتی ہے ۔ دوسرا کہتاہے کہ دس گھنٹے؟ جی نہیں ‘ صرف دو گھنٹوں میں ۔ یہی وجہ ہے کہ بار بار ایک جنگی ماحول بنتاہے ۔نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ایک خیالی سرجیکل سٹرائیک کرنی پڑتی ہے ۔ حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔
جارحیت کی نفسیات کے علاوہ دوسرا اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ زیادہ تر سیاسی جماعتوں کو دشمن نہیں‘ بلکہ اقتدار فنا کے گھاٹ اتارتا ہے ۔ پیپلزپارٹی آصف علی زرداری کے پانچ سالہ اقتدار کے نتیجے میں موت کے گھاٹ اتری ۔ شریف خاندان پرویز مشرف سے کیے گئے تحریری معاہدے کے باوجود سیاست سے نکالا نہ جا سکا‘ بلکہ اسے بھی اقتدار ہی نے عدم مقبولیت کا شکار کیا ۔ کہاں چھ مہینے میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے دعوے اور کہاں یہ کہا جا رہا ہے کہ اب اگر لوڈشیڈنگ ہوئی‘ تو نگران حکومت ذمہ داری ہوگی‘ ہم نہیں ۔پانچ سال حکومت آپ کریں اور ذمہ دار نگران حکومت ؟ 
عمران خان کا اقتدار تو اب یقینی لگ رہا ہے ۔ گوکہ زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ ایک مخلوط حکومت کے سربراہ ہوں گے ۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا دوسری پارٹیوں کی طرح کپتان بھی اپنے ہی اقتدار کے ہاتھوں سیاسی موت کے گھاٹ تو نہیں اتر جائے گا؟ ؟؟ 
کون جانتاہے!بہرحال یہ حقیقت تو ہمارے سامنے موجود ہے کہ شریف خاندان کی سیاسی موت کے لیے ہی شاید خدا نے عمران خان کا انتخاب کیا تھا!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved