تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-07-2018

انتخابی شربت … ٹھنڈا ٹھار!

سیاست اور غیر جانب داری؟ بات عجیب سی ہے‘ مگر کیا کیجیے کہ سچ ہے۔ اس وقت ملک بھر میں انتخابی مہم زوروں پر ہے۔ جلسے ہو رہے ہیں‘ ریلیاں نکالی جارہی ہیں‘ روٹے ہوؤں کو منانے کی تگ و دَو کی جارہی ہے‘ امیدوار ووٹرز کے پیر پڑ کر معافی مانگ رہے ہیں‘ جو ایک مدت سے منتخب ہوتے آئے ہیں ‘وہ کسی نہ کسی طور ایک بار پھر ایوان ہائے اقتدار تک رسائی کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ قصۂ مختصر یہ کہ انتخابی کنویں میں سبھی اپنے اپنے حصے کا ڈول ڈال رہے ہیں۔ ایک بس کراچی اس معاملے سے تھوڑا بہت نہیں‘ بلکہ اچھا خاصا الگ تھلگ‘ کٹا ہوا سا دکھائی دے رہا ہے۔ یہاں انتخابی معاملات اب تک شدید سرد مہری کی نذر ہیں۔ عوام میںبیزاری اور وحشت سی ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ 25 جولائی کو کیا ہوگا یا کیا ہوسکتا ہے۔ 
کراچی میں انتخابی شربت ٹھنڈا ٹھار چل رہا ہے۔ ووٹرز کی اکثریت اب تک شدید کنفیوژن کے عالم میں ہے۔ فیصلہ نہیں ہو پارہا کہ کس پر بھروسہ کیا جائے اور کسے ناقابل اعتبار گردانتے ہوئے نظر انداز کردیا جائے۔ معاملہ اعتبار کرنے یا نہ کرنے کے مرحلے سے نکل کر مکمل بیزاری اور بے دِلی کی منزل تک آگیا ہے۔ ع 
نہ مہرباں‘ نہ اجنبی‘ نہ دوستی‘ نہ دشمنی 
انتخابی مہم جب عروج پر ہو تو بستی میں ایک ہنگامہ سا برپا رہتا ہے۔ دن رات ایسا شور مچا رہتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ امیدواروں کی آنیاں جانیاں لگی رہتی ہیں۔ ووٹرز کو رِجھانے‘ منانے کا سلسلہ دم توڑنے کا نام نہیں لیتا۔ سب کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور معاملات کو قابو میں کرنے کے لیے جس قدر بھی دم لگایا جاسکتا ہے‘ لگایا جائے‘ مگر کیا کیجیے کہ کراچی کا ماحول اب تک انتخابی گہما گہمی سے نمایاں اور پریشان کن حد تک نا آشنا ہے۔ ہر بار انتخابی مہم کے دوران جو کچھ ہوتا رہا ہے وہ اب کے ہو بھی نہیں رہا اور ہوتا دکھائی بھی نہیں دے رہا۔ ؎ 
کھلے ہیں پھول‘ بسی ہے فضاء میں خوشبو بھی 
مگر وہ بات نہیں ہے ہوا کے لہجے میں 
اور یہ بات کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی کہ صبا کے لہجے میں وہ بات کہاں سے آئے‘ کس طور آئے‘ جس کی کمی پوری شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ ڈیڑھ دو سال کے دوران کراچی کے جو بھی معاملات رہے ہیں ‘اُن کے تناظر میں دیکھیے تو کراچی کے باشندوں کی انتخابی ماحول سے بیزاری کوئی ایسی بات نہیں‘ جو سمجھ میں نہ آسکے۔ ایک طرف مینڈیٹ ہولڈر ایم کیو ایم کی اندرونی کشمکش اور دوسری طرف ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان کتے اور پتھر والا بَیر! سندھ پر پیپلز پارٹی حکمران رہی ہے۔ کراچی پر ایم کیو ایم کا تصرف تھا‘ جو بلدیاتی انتخابات کے بعد صوبائی حکومت نے بیشتر محکمے اپنے ہاتھ میں لے کر ختم کردیا۔ یہ عمل کس حد تک درست تھا ‘اس پر بحث پھر کبھی سہی۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ شہر کے غیر حل شدہ مسائل مزید شدت اختیار کرگئے۔ شہری ادارے مقامی قیادت کے ہاتھ میں ہوں‘ تو تھوڑے بہت کام ہو ہی جاتے ہیں۔ صوبائی حکومت نے پانی اور دیگر سہولتوں سے متعلق امور اپنے ہاتھ میں لے کر مسائل کو مزید پیچیدہ بنادیا۔ دوسری طرف اختیار اور فنڈز کے حوالے سے کشمکش نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ ایم کیو ایم کو بلدیاتی انتخابات کی بدولت شہر کی حکمرانی تو مل گئی‘ مگر یہ حکمرانی ویسی ہی ہے ‘جیسی آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفرؔ کی تھی! ؎ 
اسے حیات جو کہیے تو آپ کی مرضی 
نہ کوئی خواب‘ نہ کوئی خیال ہے صاحب! 
اپریل 2016 ء میں مصطفی کمال نے راہیں الگ کرکے‘ پاک سرزمین پارٹی کی داغ بیل ڈال کر تالاب میں پہلا پتھر پھینکا۔ 22 اگست 2016ء کو کراچی پریس کلب کے باہر جو کچھ ہوا وہ شہر میں بہت کچھ تہہ و بالا کرنے کے لیے کافی تھا اور زیادہ مار دھاڑ اور توڑ پھوڑ کے بغیر بہت کچھ تہہ و بالا ہو بھی گیا۔ ہنگامہ آرائی‘ جلاؤ گھیراؤ اور مار پیٹ کا دور تو گیا‘ مگر بیزاری و بے دِلی کا دور ایسا آیا کہ جانے کا نام نہیں لے رہا۔ شہر کے مسائل ہیں کہ بڑھتے جارہے ہیں اور اُن کے حل کی کوئی سبیل نکلتی دکھائی نہیں دے رہی۔ 
کراچی کے مینڈیٹ ہولڈرز (یا اسٹیک ہولڈرز) اور صوبائی حکومت کے درمیان جو کشمکش چلی آرہی ہے‘ اُس نے شہریوں کو بہت حد تک مایوس کردیا ہے‘ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی‘ وہ اسٹیک ہولڈرز کی اندرونی کشمکش نے پوری کردی۔ اب عالم یہ ہے کہ لوگ سمجھ ہی نہیں پارہے کہ 25 جولائی کو کریں ‘تو کیا کریں؟ شدید کنفیوژن کی حالت نے ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے‘ جو ایم کیو ایم میں دنیا بھر کے کیڑے نکال رہے ہیں‘ وہ بھی ایم کیو ایم ہی کی صفوں سے نکلے ہیں۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی ہے‘ جو شہر میں اپنی موجودگی ثابت تو کرنا چاہتی ہے‘ مگر اس بستیوں کی بستی کو own کرنے کے لیے تیار نہیں۔ صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت رہی ہے ‘ مگر کراچی کے مسائل حل کرنے پر خاطر خواہ توجہ دینے کی توفیق نصیب نہیں ہوئی۔ اگر پیپلز پارٹی نے اپریل 2016ء کے بعد کراچی پر خاص توجہ مرکوز کی ہوتی‘ تو شہر میں اُس کے اسٹیکز بہت مضبوط ہو جاتے اور عین ممکن تھا کہ دو روایتی نشستوں کی بجائے وہ 25 جولائی کو 6 یا 8 نشستیں بھی نکال جاتی۔ 
تحریک ِانصاف بھی کراچی میں اپنے اسٹیکز مضبوط تر کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم کا پیدا کردہ جبر کا ماحول ختم کرنے میں تحریکِ انصاف نے بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اُس سے قبل یہ کردار جماعت ِاسلامی نے ادا کیا اور خوب ادا کیا۔ کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تحریکِ انصاف نے بعد میں آواز اٹھائی‘ اُس سے قبل جماعت ِاسلامی یہ کام کر گزری تھی۔ شناختی کارڈ اور بجلی و پانی کے مسئلے پر اُس کی جدوجہد ڈھکی چھپی نہیں۔ شہر کے اسٹیکز میں ان دونوں جماعتوں کا کچھ حصہ ضرور بنتا ہے۔ ووٹرز کو بیلٹ باکس کے پاس کھڑے ہوکر سوچنا ہے کہ اُن کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں کس کس نے کتنا سوچا۔ 
کراچی کے شہریوں پر انتخابات کے حوالے جو پژمردگی سی چھائی ہوئی ہے ‘وہ کوئی اور ختم نہیں کرسکے گا۔ انہیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ ووٹ امانت ہے۔ اس کے حصول کے لیے کئی کرتب باز اور مداری میدان میں ہیں۔ چکنی چپڑی باتیں کرنے والے بھی ہیں اور وعدوں‘ دعووں کے دریا بہانے والے بھی۔ اور ایسا نہیں ہے کہ اہلِ کراچی کے مرحلے سے گزرے نہیں۔ سب کو جھیل کر بھگت کر دیکھ لیا ہے۔ اب فیصلے کی گھڑی ہے۔ اُنہیں طے کرنا ہے کہ مینڈیٹ انہی کو ملنا چاہیے‘ جو مسائل کو حل کرنے میں دلچسپی لیتے رہے ہیں۔ نمائندگی کا حق ادا کرنے والے کتنے مخلص ہیں‘ یہ بحث پھر کبھی سہی۔ انتخابی ماحول میں پائی جانے والی سرد مہری دُور کرکے اہلِ کراچی کو بھرپور جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہوئے ‘25 جولائی کو گھروں سے نکل کر ثابت کرنا ہے کہ وہ اپنے آپ سے مخلص ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved